پی ٹی آئی کا مستقبل نئے بلدیاتی نظام کی کامیابی سے منسلک

رضوان آصف  بدھ 7 نومبر 2018
کونسل میں 6 ارکان ہونگے جن میں سے تین براہ راست منتخب ہونگے۔ فوٹو: خبر ایجنسی

کونسل میں 6 ارکان ہونگے جن میں سے تین براہ راست منتخب ہونگے۔ فوٹو: خبر ایجنسی

لاہور: تحریک انصاف کی حکومتوں کے قیام کو 81 دن گزر چکے ہیں اور 19 دن کے بعد تحریک انصاف کی حکومت اپنی’’سنچری‘‘ مکمل کر لے گی اور اس روز ملکی و غیر ملکی میڈیا میں عمران خان کی جانب سے اپنی حکومت کے پہلے ’’100 یوم‘‘ کی تاریخ ساز انقلابی اقدامات کرنے کے دعوے پر زبردست بحث و تنقید ہو رہی ہو گی۔ پہلے 81 روز کی حکومتی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے آئندہ کے 19 ایام میں کسی ’’معجزہ‘‘ کی امید رکھنا بے سود دکھائی دیتا ہے۔

تحریک انصاف کے ’’سوشل جنگجو‘‘ تو عمران خان کو کامیاب ترین وزیر اعظم ثابت کرنے کیلئے ہتھیلی پر سرسوں جمائے ’’سوشلستان‘‘ میں دندناتے پھر رہے ہیں لیکن غیر جانبداری کے ساتھ حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے جائزہ لیا جائے تو تحریک انصاف کی حکومت ابھی ’’ٹیک آف‘‘ نہیں کر پائی ہے۔کسی حد تک حکومت کی ’’سست روی‘‘ اور ’’غیر تسلی بخش‘‘ کارکردگی کو اس جواز کے ساتھ کیمو فلاج کیا جا سکتا ہے کہ حکومت کو آتے ہی خالی خزانے کے سبب سنگین ترین معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑا اور ہمارے وزیر اعظم امداد اور قرضوں کے حصول کیلئے دوست ممالک کے چکر لگاتے رہے ہیں۔

اجتماعی طور پر بات کی جائے تو حکومت اپنے پہلے 81 دن میں عوام کو ریلیف دینے اور ملکی سطح پر کوئی انقلابی نظام متعارف کروانے میں ناکام رہی ہے تاہم آئندہ 19دنوں میں عمران خان نے پنجاب کے سینئر وزیر عبدالعلیم خان کے بنائے گئے نئے بلدیاتی نظام کی منظوری دے دی تو 100 روزہ پلان کا ’’اکلوتا‘‘ انقلاب اسی نظام کو قرار دیا جا سکتا ہے۔

پاکستان میں بلدیاتی نظام کو متعارف کروانے کا ’’کریڈٹ‘‘ فوجی آمروں کو جاتا ہے جنہوں نے اپنے سیاسی عزائم کی مناسبت سے اس نظام کو لاگو کیئے رکھا۔ بلدیاتی نظام درحقیقت برطانیہ کا ایک کامیاب تجربہ ہے جس کا مقصد نچلی سطح پر عوام کو اختیارات دیکر عوامی فلاح و بہبود کے کام کرنا ہے اور یہی وجہ ہے کہ برطانیہ کے حکومتی و انتظامی ڈھانچے میں سب سے وسیع، موثر اور فعال وزارت اور محکمہ ، بلدیات ہی ہے۔

پاکستان میں بلدیاتی نظام کے ہر ماڈل پر عوامی تحفظات رہے ہیں۔ 1959 ء میں جنرل ایوب خان نے ایک آرڈیننس جاری کر کے ’’BASIC DEMOCRACY ‘‘ کے نظام کو غیر جماعتی بنیادوں پر الیکشن کروا کر رائج کیا، دیہاتوں میں اسے ’’بی ڈی ممبر‘‘ کے نام سے پکارا جاتا رہا۔ضیاء الحق نے اپنے دور اقتدار میں اس نظام میں بعض تبدیلیاں کیں جبکہ 2000 ء میں جنرل(ر) پرویز مشرف نے ملک کے چیف ایگزیکٹو کے طور پر ایک نیا بلدیاتی نظام متعارف کروایا اور اس کیلئے’’لوکل گورنمنٹ آرڈیننس‘‘ جاری کیا گیا اس کے تحت 5 مراحل میں بلدیاتی الیکشن کروائے گئے۔

2008 ء میں میاں شہباز شریف وزیر اعلی پنجاب بنے تو انہوں نے ’’ون مین آرمی‘‘ کے طور پر خود کو مضبوط بناتے ہوئے تمام اختیارات اپنے پاس سنبھالے رکھے اور بلدیاتی نظام ہچکولے کھاتا رہا، کئی ترامیم کے بعد پنجاب میں ایک نیا قانون لایا گیا، بلدیاتی الیکشن کے ڈیڑھ سال بعد تک نمائندے بے اختیار رہے اور الیکشن سے کچھ عرصہ قبل انہیں فنڈز دیکر الیکشن میں فوائد لینے کی کوشش کی گئی۔ عملی طور پر پاکستان میں جتنی بھی طرز کے بلدیاتی سسٹم نافذ ہوئے سب ناکام رہے کیونکہ ان کا عام آدمی کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

ہر فوجی آمر اور سیاسی جماعت نے اپنے سیاسی مفادات کے تحت نظام کو بنایا اور چلایا۔ پاکستان کی بیوروکریسی بھی نیک نیتی اور جذبے کے ساتھ آج تک اس نظام کو نہیں چلا پائی کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ بلدیاتی نظام کے نتیجہ میں افسر شاہی کو حاصل انتظامی اور مالیاتی اختیارات کا بڑا حصہ سیاستدانوں کے پاس چلا جاتا ہے۔ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ پاکستان میں بلدیاتی نظام ، فوجی آمروں، کم فہم سیاستدانوں اور ’’بلند نظر‘‘ بیوروکریٹس کے درمیان رولنگ سٹون بنا رہا ہے۔

عمران خان، برطانیہ میں رائج بلدیاتی نظام کے دلدادہ ہیں اور اسی طرز پر پاکستان میں نظام لانا چاہتے ہیں، اس کی خاطر انہوں نے اپنے اہم ترین ساتھی اور پنجاب کے سینئر وزیر عبدالعلیم خان کو نیا بلدیاتی نظام تیار کرنے کا مشکل لیکن اہم ترین ٹاسک سونپا۔ معلوم ہوا ہے کہ عبدالعلیم خان نے نئے بلدیاتی نظام کا مسودہ تیار کر کے عمران خان کو ارسال کردیا ہے، نئے نظام میں دیہی علاقوں میں ویلج کونسل اور شہری علاقوں میں نیبر ہڈ کونسل قائم کی جائیں گی،کونسل میں 6 ارکان ہوں گے جن میں سے تین براہ راست منتخب ہوں گے اور تین سپیشل سیٹ پر منتخب ہوں گے، تحصیل اور سٹی میں میئر کا انتخاب براہ راست الیکشن کے ذریعے کیا جائے گا۔

سالڈ ویسٹ مینجمنٹ، ڈویلپمنٹ اتھارٹیز، واسا اور پی ایچ اے کو بھی بلدیاتی نظام کے ماتحت کردیا جائے گا۔ پاکستان میں برطانیہ کی طرح مضبوط ، غیر جانبدار اور خودمختار بلدیاتی نظام نافذ ہو جائے تو عوام کے مسائل بہت حد تک حل کیئے جا سکتے ہیں۔ تحریک انصاف اگر حقیقی تبدیلی لانا چاہتی ہے تو اسے نئے بلدیاتی نظام کو مالیاتی اور انتظامی خودمختاری فراہم کرنا ہو گی،کونسل ممبران کو اپنے علاقوں میں ترقیاتی کام کروانے کی آزادی ہونی چاہیے لیکن کرپشن اور جانبداری کی روک تھام کیلئے ایک فول پروف چیک اینڈ بیلنس کا سسٹم بھی ہونا چاہیے۔

بلدیاتی نظام کے حوالے سے پنجاب بہت اہمیت رکھتا ہے، اسی لیئے عمران خان نے بلدیات کی وزارت بھی جہانگیر ترین کے بعد اپنے سب سے خاص ساتھی عبدالعلیم خان کو دی ہے، دلچسپ امر یہ ہے کہ تحریک انصاف کے کئی اہم رہنما بلدیات کی وزارت لینے کی کوشش کر رہے تھے اور انہوں نے اس حوالے سے ہر ممکن کوشش اور لابنگ بھی کی لیکن ان کی شنوائی نہیں ہو سکی ہے اور اب یہی لوگ وزیر اعلی عثمان بزدار کے کانوں میں غلط فہیوں کا زہر انڈیل کر سردار عثمان بزدار اور عبدالعلیم خان کے درمیان خلیج بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

کچھ عرصہ قبل انہی سازشیوں کے ٹولے نے یہ افواہ بھی پھیلائی تھی کہ سردار عثمان کی ’’شکایت‘‘ پر عبدالعلیم خان سے 90 شاہراہ قائداعظم میں قائم دفتر خالی کروایا جا رہا ہے لیکن جس روز یہ خبر شائع اور نشر کروائی گئی اسی شام ترجمان وزیر اعظم ہاوس نے ایک بیان کے ذریعے اس کی تردید کردی تھی اور کہا تھا کہ عبدالعلیم خان اسی دفتر میں کام جاری رکھیں گے۔

پنجاب میں نئے بلدیاتی نظام کی کامیابی کیلئے اشد ضروری ہے کہ وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار اپنی پارٹی کے سینئر رہنما اور اپنی کابینہ کے سینئر وزیر کے ساتھ بہترین تعلقات بنائیں تا کہ دونوں کے درمیان کوئی رابطے کا فقدان نہ ہو اور ہر فیصلہ مشاورت کے ساتھ بروقت ہو سکے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔