ترقی یافتہ ممالک بھی اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مزاحم بیکٹیریا کے نشانے پر

ویب ڈیسک  جمعرات 8 نومبر 2018
بیکٹیریا، ادویہ کے خلاف طاقتور ہوگئے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

بیکٹیریا، ادویہ کے خلاف طاقتور ہوگئے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

 لندن: طبی محققین کا کہنا ہے کہ بیکٹیریا میں ادویہ کے خلاف مزاحمت پیدا ہوجانے کی وجہ سے اینٹی بائیوٹکس بے اثر ہوتی جا رہی ہیں جس کی وجہ سے صرف یورپ ہی میں سالانہ اموات کی تعداد 30 ہزار تک پہنچ چکی ہے؛ جو بہت تشویشناک ہے۔

بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق بیماریوں کی روک تھام کےلیے کام کرنے والے یورپی ادارے ’ای سی ڈی سی‘ نے اپنی ایک تحقیق میں انکشاف کیا ہے کہ بیکٹیریا نے اینٹی بائیوٹکس کو بے اثر کرنے کےلیے اپنے اندر بنیادی تبدیلیاں کرلی ہیں جس کے باعث یہ دوائیں اب ان جرثوموں سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے خلاف کارگر ثابت نہیں ہو پارہی ہیں۔

تحقیق کے مطابق 2007 سے اب تک بیکٹیریا کی ساخت میں نمایاں تبدیلی دیکھی گئی ہے جس کی وجہ سے گزشتہ دس برسوں میں بیکٹریا میں اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مزاحمت پیدا ہوگئی ہے۔ صرف 2007 میں 25 ہزار افراد اس وجہ سے لقمہ اجل بن گئے تھے۔ ان افراد کی اموات پر تحقیقاتی کمیٹی نے ہوش ربا انکشافات کیے ہیں۔

طبی سائنس میں مزاحمت کار نئے بیکٹیریا کو ’سپر بگ‘ کا نام دیا جا رہا ہے۔ اگر ترقی یافتہ ممالک نے اس جانب موثر توجہ نہ دی تو جان لیوا جراثیم 2050 تک کروڑں افراد کی جان لے لیں گے کیوں کہ تب تک یہ انتہائی طاقتور اینٹی بائیوٹکس کے خلاف بھی مزاحمت پیدا کرچکے ہوں گے۔

طبی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر انقلابی اقدامات نہیں کیے گئے تو انفیکشن کا علاج کرنا ناممکن ہوجائے گا اور صورت حال قابو سے باہر ہوجائے گی اس لیے جتنی جلد ممکن ہو، ترقی یافتہ ممالک مشترکہ کاوشوں سے اس ہولناک تباہی کا سامنا کرنے کےلیے کمر کس لیں۔

واضح رہے کہ یہ صورتِ حال ترقی یافتہ ممالک کے بارے میں ہے ورنہ ترقی پذیر ممالک میں یہ مسئلہ اس سے کہیں زیادہ شدید ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔