خان صاحب! کراچی کو کیوں نظرانداز کیے جارہے ہیں؟

محمد عنصر عثمانی  پير 12 نومبر 2018
اب خان صاحب اور ان کی مضبوط ٹیم کو کراچی سے کوئی سروکار نہیں۔ فوٹو: انٹرنیٹ

اب خان صاحب اور ان کی مضبوط ٹیم کو کراچی سے کوئی سروکار نہیں۔ فوٹو: انٹرنیٹ

’’دیکھو میاں ! کراچی کے مسائل اتنے گمبھیر نہیں جتنا شہر قائد کی لوکل و سرکاری حکومتیں آج تک بتاتی رہی ہیں۔ ان کا رونا دھونا مگرمچھ کے آنسو ہیں۔ شہر قائد کے باسیوں کے ساتھ ظلم ہورہا ہے اور تبدیلی کا طوفان آنا تو درکنار، تبدیلی کی ہوا تک کراچی کو نہیں لگی۔ آج تک ساری سیاسی جماعتوں نے مل کر کراچی کی بوٹیاں نوچیں، ہر ایک جتنا برا کرسکتا تھا، اس نے کیا۔ میں نے 2018 کے الیکشن میں نے پوری فیملی سمیت پی ٹی آئی کو ووٹ دیا۔ میں صدق دل سے کہتا ہوں کہ میں نون لیگ کا جیالا تھا۔ اس لیے کہ اگر آج کراچی کے شہری سکون کی نیند سوتے ہیں تو اس کی وجہ مسلم لیگ نون ہے۔ 2013 سے پہلے عام تعطیل پر کسی کو ہمت نہیں ہوتی تھی کہ روڈ پر سرعام کرکٹ میچ کھیلے۔ آج اگر ہمارے بچے اپنے اس شوق کو بلا خوف و خطر پوری پوری رات کرکٹ کھیل کر پورا کرتے ہیں تو اس کا کریڈٹ مسلم لیگ ن کو دیا جانا چاہیے۔ میں شیر پر ٹھپہ لگانے گیا تھا، پھر عین وقت پر میرا ارادہ بدل گیا اور میرا ووٹ خان صاحب کو چلا گیا۔ کیوں کہ میں ان کو موقع دینا چاہتا تھا۔

’’لیکن وزیراعظم عمران خان نے حکومت ملنے کے بعد کراچی کو جس طرح سے نظرانداز کیا، وہ مجھ سے برداشت نہیں ہورہا۔ عام انتخابات میں یہی کراچی کے عوام تھے جو اُن کے شانہ بشانہ کھڑے ہوئے اور انہیں ملک کی دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی پر ترجیح دی۔ لیکن خان صاحب اور ان کی مضبوط ٹیم کو کراچی سے کوئی سروکار نہیں۔ بات سنو میاں! صرف توجہ اور بہترین پالیسی کی ضرورت ہے بس۔ کراچی کا مقدمہ حکومت کو خود لڑنا ہوگا۔ وفاق سے دی جانی والی عوامی پالیسیوں پر صوبائی حکومت سے عمل کروانا اور عوام کو گومگو کی صورت حال سے نکالنا حکومت کے ذمے ہے۔

’’کراچی کے چند مسائل ایسے ہیں جو برسوں سے دن بدن تشویشناک شکل اختیار کرتے جارہے ہیں۔ سندھ میں کئی سال سے پیپلز پارٹی کے ڈیرے ہیں۔ سائیں قائم علی شاہ نے سوائے چٹکلے چھوڑنے کے کراچی کےلیے کتنے تارے توڑے؟ یہاں کچرے کے ڈھیر لگ گئے۔ شہر کی غریب پسماندہ آبادیوں کو گاؤں سے بھی گیا گزرا بنا دیا گیا۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ گئیں۔

’’عام آدمی صبح گھر سے صاف ستھرا دفتر جاتا ہے، شام کو اسے فیملی والے پہچاننے سے انکار کردیتے ہیں۔ مجھے دیکھ لو۔ میں ایک زندہ مثال بیٹھا ہوں تمہارے سامنے،‘‘ انکل جی نے بس کی کھڑ کی سے باہر نظر ڈالی اور بولے۔

’’میاں! آپ کراچی کے پل، انڈر پاسز اور سڑکوں کے ارد گرد جمع ہونے والی مٹی اکٹھی کریں تو کئی ڈمپر بھرلیں گے۔ یہ توہمارے ہاں صفائی کا حال ہے۔ یہاں کی کچی آبادیوں کے مسائل ڈیڑھ عشرے سے جوں کے توں ہیں۔ کسی نے نظر کرم کرنا گوارا کیا؟ اس شہر میں ملک کے دور دراز علاقوں سے غریب اپنا اپنے بچوں کا پیٹ پالنے آتے ہیں، وہ اس شہر کو ماں سمجھ کر یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ انہیں ملتا کیا ہے؟ سوائے دن رات محنت کرکے چند سو روپوں کے، بغیر چھت کا کوارٹر جس کا کرایہ اس مہنگائی کے دور میں بھرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ رہائشی کوارٹروں میں نہ پانی ہوتا ہے نہ بجلی۔ بھائی! حکومت کا غضب دیکھیے کہ جولائی کے بعد بجلی کی بندش میں اتنا اضافہ ہوا ہے کہ کچی آبادیوں کے مکین نئی حکومت کو بددعائیں دیتے پھررہے ہیں۔ یقین نہیں آتا تو آپ میرے ساتھ چلیے، میں آپ کو ایسے گھر دکھاتا ہوں، ایسی فیملیوں سے ملواتا ہوں جن کی عمران خان سے امیدیں بندھی تھیں، جو انہیں اپنا مسیحا جان کر جھولیاں بھر دعائیں دیتے نہیں تھکتے تھے۔ ان کی دوتین مہینوں میں مہنگائی سے چیخیں نکل گئی ہیں۔

’’ہم غریب یہ سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم ہماری قبریں کھود کر نیا پاکستان بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں یہ نیا پاکستان منظور نہیں۔ اگر وہ اسی طرح دیوار میں سر مارتے رہے تو یقین کرو بیٹا، یہ ملک کی پسماندہ اور بچی کچھی دیواریں بھی توڑ دیں گے۔‘‘

انکل جی کی باتیں سن کر ہماری تو سانسیں رک گئیں، اور ہم دم بخود انہیں تکے جارہے تھے۔ بلدیہ ٹاؤن کے ان انکل جی کی باتوں نے ہمارے رونگٹے کھڑے کردیئے تھے۔ ہم بس میں ایک ساتھ بیٹھے تھے۔ ان کی باتوں میں سچائی تھی اور ہم سب اس سچائی کے کڑوے گھونٹ برسوں سے چپ چاپ پیتے آرہے ہیں۔ ہم نے وزیراعظم کی ’’نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی‘‘ کے بارے پوچھا تو انکل جی نے برا سا منہ بنایا اور دل کے ارمان زبان حال سے یوں بیان کرنے لگے:

’’ہمیں وزیراعظم کی نیت پر شک نہیں کرنا چاہیے۔ پی ٹی آئی کی اصلاحات کا اعلان ہو چکا ہے۔ خان صاحب کا کہنا ہے کہ چھ مہینوں میں مثبت اثرات آنا شروع ہوجائیں گے۔ گھبرائیے نہیں حالات درست سمت آنے والے ہیں۔ آپ مجھے بتائیے کہ ان چھ مہینوں میں غریب کا کیا حال ہوگا؟ پچاس لاکھ گھر بنائیں، اچھی بات ہے۔ ملک کو گھروں کی ضرورت ہے۔ غریب کو روزگار ملے گا اور ہر ملک میں معیشت کےلیے ہاؤسنگ انڈسٹری روزگار کےلیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، اس سے ملکی معیشت کو گرداب سے نکالنے میں مدد ملے گی۔

’’لیکن ساتھ ساتھ سندھ میں 50 فیصد کچی آبادیوں کے مسائل بھی توجہ طلب ہیں۔ ان علاقوں میں رجسٹریشن کا مسئلہ ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ کچی آبادیوں کو لیز کروائے۔ ایسے محنت کش جو ہڈیاں توڑ کر ایک چھوٹا سا آشیانا بناتے ہیں، انہیں حکومت مکمل تحفظ کی یقین دہانی کرائے، ایسے علاقہ مکینوں کے سر پر ہر وقت مکان چھن جانے کی تلوار لٹکتی رہتی ہے۔ کراچی غریب کی ماں ہے اور خان صاحب نے غریب کو عزت دینے کا نعرہ الیکشن مہم میں زور شور سے لگایا تھا؛ تو اب خان صاحب کو ان غریبوں کے دکھ درد بانٹنے ہوں گے۔ کچی آبادیوں میں رہنے والوں کو کیڑے مکوڑے نہ سمجھیں۔ یہ بھی انسان ہیں اور انہیں بھی زندہ رہنے کی تمام تر سہولیات دینا ریاست کا فرض ہے۔ ہمیں خان صاحب سے زیادہ کچھ نہیں چاہیے۔ ہم غریب بس اتنا چاہتے ہیں کہ ہماری جو بنیادی ضروریات ہیں، وہ پوری کی جائیں۔ سیوریج، پانی، بجلی، گیس بلاتعطل ہمیں ملتے رہیں؛ اور مہنگائی کا جن جو قابو میں نہیں آرہا، اسے جکڑ کر بوتل میں بند کیا جائے۔ ہمیں کھانے کو سستی دال روٹی، پہننے کو سستا کپڑا اور رہنے کو ایک مناسب محفوظ چھت مل جائے تو ہم خوش ہوجائیں گے؛ اور ریاست کےلیے دعائیں کریں گے۔‘‘

اگلے اسٹاپ پر انکل جی تو اُتر کر چلے گئے، مگر ہمیں غریب گھروں کا اصل چہرہ دکھا گئے۔ حکومت ان غریبوں کے سروں پر ہاتھ رکھے اور انہیں بے یقینی کی کیفیت سے باہر نکالے۔ غریبوں کی مدد کرنا حکومت کا انتخابی نعرہ تھا۔ اور یہ نعرہ کسی ایک صوبے کے ساتھ مخصوص نہیں ہونا چاہیے۔ پورے ملک کے غریب کا سلوگن ایک ہو اور سب کو یکساں سہولیات ملنی چاہئیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد عنصر عثمانی

محمد عنصر عثمانی

بلاگر جامعہ کراچی سے اسلامیات اور عربی میں ایم اے کرچکے ہیں۔ صحافت اور کالم نگاری کا شوق بھی رکھتے ہیں۔ اسلام پسند قلم کاروں کی تنظیم کے صوبائی عہدیدار ہونے کے علاوہ ایک مقامی روزنامہ میں مارکیٹنگ ایگزیکٹیو کے عہدے پر فائز ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔