سو گز زمیں کے بدلے بیاباں گراں نہیں

سعد اللہ جان برق  جمعـء 9 نومبر 2018
barq@email.com

[email protected]

یہ شاید نئی حکومت کے بابرکت سائے کا نتیجہ ہے کہ ہماری سوچ جو مستقل طور پر’’ منفی ‘‘ تھی آہستہ آہستہ مثبت ہوتی جارہی ہے۔ بابرکت ہم نے اسے اس لیے کہا کہ اس کے لیے بہت ساری بابرکت ہستیوں نے دعائیں مانگی تھیں۔ ہیّاں سے لے کر ہوّاں یعنی لندن اورکناڈا تک بابرکت لوگوں نے ’’چلے ‘‘ کاٹے تھے بلکہ کاٹے ہیں اور اب تو سعودی عرب کی برکت بھی شامل حال ہوگئی ہے۔ چنانچہ ہم جو پہلے ہر بات کا تاریک پہلو تلاش کرتے تھے ، آج کل بری سے بری بات میں بھی کوئی خیر اور روشنی کی کرن ڈھونڈ لیتے ہیں اور ’’ پا ‘‘ بھی لیتے ہیں ۔

مثلاً یہ تو ہم نے آپ کو بتا دیا ہوا ہے کہ لڑکیوں کا گھروں سے بھاگ کر من پسند شادیاں کرنے کے رحجان کو لوگ بری نظر ڈال کر دیکھتے تھے کیونکہ لوگوں کی تو عادت ہے ہر اچھی’’ چیز ‘‘ پر بری نظر ڈالنے کی۔ لیکن ہمارے اندر کی تبدیلی نے ہمیں مجبور کیا ہے کہ جہاں لوگ بری نظر ڈالتے ہیں وہاں ہم نہایت ہی اچھی اور پاکیزہ نظر ڈالتے ہیں اور یہ اچھی نظر ہم نے  حافظ شیرازی سے سیکھی ہے کہ ۔

اُو را بہ ’’ چشم پاک ‘‘ تواں دید چوں ہلال

ہر دیدہ جائے جلوۂ آں ماہ بارہ نیست

یعنی اسے ہلال یعنی ’’ماہ نو‘‘ کی طرح پاک نگاہوں سے دیکھنا چاہیے کہ ہر آنکھ اس ’’ ماہ پارہ ‘‘ کی جلوہ گاہ نہیں ہو سکتی ۔

تمہید ذرا لمبی ہو گئی، یہ جو ’’مہنگائی‘‘ ہے لوگ اس کو نہایت ہی بری نگاہ سے دیکھ دیکھ کر منفی باتیں کر رہے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ مہنگائی آسمان کو چھو گئی ہے ۔ کمال ہے کیا عجیب لوگ ہیں اور کیا کم عقل لوگ ہیں، یہ مقام تو خوشی کا ہے، شادیانے بجانے بھنگڑے ڈالنے اور مٹھایاں بانٹنے کا ہے کہ جہاں لوگ زرکثیر صرف کرکے اور طرح طرح کے سٹیلائٹ، سکائی لیب اور راکٹ وغیرہ بنا کر بھی ابھی نہیں پہنچے ہیں وہاں ہماری مہنگائی نے آسمان کو چھو لیاہے ۔کہاں ہم اور کہاں یہ مقام اللہ اللہ

این سعادت بزور بازو نیست

تانہ بخشد سرکار بخشندہ

آخر جب کرکٹ کا میچ جیتنے پر خوشیاں مناتے ہیں، وومن کرکٹ پر پھولنے نہیں سماتے، بلائینڈ کرکٹ پر گردن اکڑاتے ہیں، انڈر نائنٹین سے انڈر ٹین ٹیموں پر دونگرے برساتے ہیں، موم بائی میں اپنی کسی سپوتنی کی کامیابی پر ناچتے ہیں تو مہنگائی کے ورلڈ چمپیئن بننے پر خوشی کے بجائے یہ رونا بسورنا کیوں ؟

جہاں تک کالانعاموں کا کچو مر نکلنے کی بات ہے وہ تو پیدا ہی اس لیے ہوئے ہیں کہ ان کا کچومر کسی نہ کسی طرح نکلتا رہے ورنہ پھر ان کے بگڑنے کا خطرہ ہوتا ہے اور یہاں تو قوم کے چمپئین شپ جیتنے کا سوال ہے، آپ کو وہ کرکٹ کا ’’ سبز پوش بوڑھا ‘‘ تو یاد ہوگا جو چاچائے کرکٹ بننے کے لیے تھپڑ تک کھا لیتا تھا۔ یوں سمجھئے کہ ہم بھی بے شک تھپڑ کھاتے ہیں لیکن مہنگائی کا ورلڈ کپ بھی تو جیت رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ بھی اپنے نام کر لیں اور کیا چاہیے۔

اب تک جو ورلڈ ریکارڈ ہم نے یا کسی اور نے جیتے ہیں، ان ریکارڈوں سے ان کو کیا ملا ؟ کہ نہ تو ریکارڈ یا کپ دودھ دیتے ہیں نہ پھل دیتے ہیں اور نہ انڈے لیکن فخر تو فخر ہوتا ہے اگر اس کے لیے مہنگائی کے کچھ تھپڑ ،کچھ مکے اورکچھ لاتیں کھالیں تو کیا ہوا ؟ کوئی یہ تو ہمیں بتائے کہ آسٹریلیا میں کرکٹ کا چھکا ہمارے گاؤں کے چشم گل چشم کو کیا دیتا ہے یا بالی وڈ میں ہماری کسی سپوتنی کی کامیابی پر ہمارے کسی ’’ خوش میر ‘‘ کو کتنے نفلوں کا ثواب ملتا ہے یا اندھوں کے کرکٹ کھیلنے یا جیتنے پر کسی کسان کے کھیت میں کتنے من گندم زیادہ ہوجاتی ہے ۔ وومن کرکٹ کی کسی بانو کے وکٹ لینے پر موٹروے کے ٹیکس میں کتنے ’’ پیسے ‘‘ کی کمی آجاتی ہے۔

جب ایسا نہیں ہے تو پھر ویسا کیوں نہیں۔ مہنگائی کے آسمان چھو لینے پر ہم کیوں نہ پھولے سمائیں۔ خرچہ نقصان تکلیف تو ہر اعزاز جیتنے کے لیے کرنا پڑتے ہیں ۔

ہمیں تو چاہیے کہ ان لیڈروں کو ان محکموں کو ان وزیروں شہیروں افسروں اور پھر خاص طور پر تاجروں کی تحسین کریں، شاباشی دیں، شکریہ ادا کریں کہ جن کی یک جہتی اور مساعی جمیلہ و شکیلہ و نبیلہ و راحیلہ سے یہ سعادت ہمیں نصیب ہوئی ہے کہ آج ہماری مہنگائی کی بلند پرواز ی دیکھ دیکھ ساری دنیا کی پگڑیاں گر رہی ہیں ۔

قتل ہوں گے تیرے ہاتھوں سے خوشی اس کی ہے

آج اترائے ہوئے پھرتے ہیں مرنے والے

دراصل کچھ لوگ ہوتے ہی کچھ منفی مزاج ، قنوطی سوچ اور مایوس طبعیت کے جو خوامخوا ہر خوشی میں کوئی نہ کوئی غم کا پہلو ڈھونڈلیتے ہیں جیسے ہم بھی پہلے ہوا کرتے تھے لیکن اب خدا کے فضل ، ابلاغیہ کی تبلیغ اور تبدیلی بلکہ برکت والی سرکار سے بالکل تبدیل ہو گئے ہیں۔ ثبوت آپ کے سامنے ہے کہ مہنگائی کو مثبت نظر سے دیکھتے ہیں۔وہ ایک شخص سے دوسرے نے پوچھا، تمہاری ماں کی کھانسی اب کیسی ہے۔ اس نے کہا، بالکل ٹھیک ہو گئی ہے ، پھر پوچھا اور وہ بخار ٹوٹا کہ نہیں ۔ بولا، بالکل ٹوٹ گیا ہے۔ پھر مزید پوچھا اوروہ کراہتی تھی اور درد کی شکایت کرتی ہے ۔ دوسرا بولا، وہ بھی ٹھیک ہے ۔ پوچھنے والے نے کہا شکر ہے خدا کا ؟ اور کچھ ؟ دوسرا بس تھوڑی سی مر گئی ہے باقی سب کچھ ٹھیک ہے۔تھوڑی سی مہنگائی ہی تو برداشت کرنا ہے تو کر لیجیے،کرتے رہئے کہ اتنی بڑی تبدیلی کے مقابل کچھ بھی نہیں ہے ۔

نقصان نہیں جنوں میں بلا سے ہو گھر خراب

سو گز زمیں کے بدلے بیاباں گراں نہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔