یومِ اقبال، چینی قرضہ، ماسکو مذاکرات اور افغان جنرل

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 9 نومبر 2018
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

آج  9نومبر ہے۔ علامہ اقبال علیہ رحمہ سے وابستہ یادیں منانے کا دن۔ 9نومبر کو اور بھی قابلِ ذکر کام ہو رہے ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم کو حالیہ پانچ روزہ چینی دَورے میں (بظاہر) کوئی بھاری مالی امداد تو نہیں مل سکی ہے لیکن وزیر خزانہ، اسد عمر، کے ایک بیان کے مطابق: آج 9نومبر کو حکومتِ پاکستان کا ایک اعلیٰ سطحی وفد چین جارہا ہے جہاں ’’ادائیگیوں کے توازن کے حوالے سے خدوخال طے کیے جائیں گے۔‘‘

سادہ الفاظ میں باقاعدہ چینی قرضہ لینے کے لیے ڈول ڈالا جائے گا اور آج 9نومبر ہی کو رُوسی دارالحکومت، ماسکو، میں پاکستان سمیت دُنیا کے تقریباً ایک درجن ممالک اکٹھے ہو رہے ہیں تاکہ افغان حکومت اور افغان طالبان کے نمایندگان کو ایک میز پر بٹھا کر افغانستان میں مستقل اور پائیدار امن کا راستہ نکالا جا سکے۔ تاکہ برسوں سے جاری افغانستان کی خونریزی بند کی جا سکے۔

مدتوں قبل حضرت علامہ اقبال علیہ رحمہ نے شعری زبان میں ایک بات ارشاد فرمائی تھی:’’افغان باقی، کہسار باقی/الحکم للہ، الملکُ للہ۔‘‘ قلندر کی زبانِ مبارک سے نکلی یہ بات نہ تو برطانویوں کی سمجھ میں آئی، نہ رُوسیوں کے ذہن میں سما سکی اور نہ امریکیوں نے  اِسے اہم سمجھا۔خمیازہ بھی پھر تینوں نے بھگتا۔

امریکا نیٹو فورسز کی اتحادی فوجوں کے ساتھ افغانستان میں موجود تو ہے لیکن خونم خوں اور دگرگوں۔ وقت کے ساتھ آسمان کے بدلتے رنگوں کی بھی یہ عجب کہانی ہے کہ جن افغانیوں نے تین عشرے قبل جارح رُوسیوں کو اپنے ہاں شکستِ فاش دی تھی اور وہ اس حیرت خیز کامیابی پر ہمیشہ فخر بھی کرتے رہے ہیں، وہ افغانی بھی آج 9نومبر2018ء کو رُوسی میزبانی میں امن مذاکرات عمل کا حصہ بن رہے ہیں۔

پاکستان تو ہمیشہ افغانستان میں قیامِ امن کا خواہاں رہا ہے۔ افغانستان کی بدامنی نے پاکستان کو بھی بے حال کررکھا ہے۔اب پھر افغان امن عمل کو کامیاب بنانے کے لیے پاکستان نے اپنے ہاں آٹھ سال سے قید ایک مشہور افغان طالبان رہنما، مُلا عبدالغنی برادر، کو رہا کر دیا ہے۔

آج ماسکو میں ہونے والے مذاکرات کے عقب میں درحقیقت وہ شدید دباؤ ہے جو افغان طالبان نے افغانستان میں امریکی فوجوں اور افغان حکومت پر ڈال رکھا ہے۔ یہ دباؤ روز افزوں ہے۔ جنگی لحاظ سے افغان طالبان افغانستان میں بالا دست ہیں۔

ممتاز امریکی اخبار ’’وال اسٹریٹ جرنل‘‘نے تازہ اشاعت میں یہ اعتراف کیا ہے کہ آج افغان طالبان کو افغانستان کے50فیصد سے زائد رقبے پر قبضہ حاصل ہے۔ افغانستان میں 20اکتوبر2018ء کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے دوران بھی افغان طالبان نے افغان حکومت اور افغان فوجوں پر حملے جاری رکھے ۔ درجنوں افغان فوجی اورشہری قتل کر دیے گئے۔ سب سے بڑا خونی سانحہ افغانستان کے مشہور صوبے، قندھار، میں پیش آیا۔انتخابات سے دوروز قبل قندھار کے گورنر ہاؤس میںجنم لینے والے اس واقعہ نے سارے افغانستان کو ہلا کر رکھ دیا۔

گورنر ہاؤس میں صوبائی گورنر، زلمے ویسا، کی زیر صدارت انتہائی اہم اجلاس ہورہا تھا۔ اس اجلاس میں قندھار پولیس کا انتہائی طاقتور سربراہ جنرل عبدالرازق، صوبائی انٹیلی جنس چیف عبدالمومن اور افغانستان میں تعینات امریکی افواج کے سربراہ جنرل آسٹن اسکاٹ مِلّر بھی شریک تھے۔ مبینہ طور پر امریکی خفیہ ادارے ’’سی آئی اے‘‘ کے تین اہلکار بھی اجلاس میں  موجودتھے۔

اجلاس خاتمے کے بعد جونہی یہ لوگ باہر نکلے، اُن کے اپنے ایک محافظ نے اُن پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ حملہ اسقدر شدید اور اچانک تھا کہ گورنرزلمے،جنرل عبدالرازق، انٹیلی جنس چیف عبدالمومن اور سی آئی اے کے تینوں اہلکار وہیں ڈھیر ہو گئے۔ البتہ امریکی جنرل آسٹن مِلّر بچ گیا۔اب تک سب سناٹے میں ہیں۔ قندھار کے خونی سانحہ کی مذمت میں وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان کی طرف سے بھی ٹویٹ کی گئی تھی ۔

عالمی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ قندھار کے سانحہ نے افغان صدر ، اشرف غنی، اور افغانستان میں متعین امریکی فوجوںکے حوصلے توڑ دیے ہیں۔خصوصاً جنرل عبدالرازق کا قتل کمر شکن ثابت ہُوا ہے۔واقعہ یہ ہے کہ مقتول جنرل عبدلرازق بہت ظالم شخص تھا۔ زیر حراست افغان طالبان کو سخت اذیتیں دینے میں شہرت یافتہ ۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیںبھی کہتی رہی ہیںکہ یہ شخص بنیادی انسانی حقوق کی قطعی پروا نہیں کرتا ۔ پاکستان کا بھی سخت نقاد اور مخالف تھا۔ اُس کی تین بیویاں اور13بچے تھے۔

افغان میڈیا کے مطابق، جنرل عبدالرازق پاک افغان سرحد پر (پاکستان کی طرف سے) باڑ لگانے کا سخت مخالف تھا ۔باڑ لگانے کے دوران کئی بار افغان فورسز نے پاکستانی فورسز پر فائر کھولا اور ہمارے کئی جوان شہید ہو گئے تھے۔ وہ افغان طالبان کی قید میں بھی رہا تھا مگر کسی طرح فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ اُس کاوالد اور چچا بھی طالبان حملوں میں مارے گئے تھے۔ اُس کے قتل کا الزام بظاہر تو افغان طالبان پر لگا ہے لیکن شک ہے کہ بھارتی بھی اس واردات میں شریک ہیں اور ڈبل گیم کھیل رہے ہیں۔

یہ حقیقت اب بے نقاب ہو چکی ہے کہ قندھار کا گورنر ہاؤس دراصل اعلیٰ سطحی خفیہ سرگرمیوں کا مرکز بن چکا تھا۔ یہاں مبینہ طور پر افغان خفیہ ادارے ( این ڈی ایس)، بھارتی انٹیلی جنس ( را) اور امریکی خفیہ ادارے (سی آئی اے) کے سینئر اہلکار بھیس بدل کر کام کررہے تھے۔کہنے کو تو یہ قندھار کے گورنر کی سرکاری رہائش گاہ تھی لیکن درحقیقت یہ وسیع کمپاؤنڈ اِنہی تینوں خفیہ ایجنسیوں کے کنٹرول میں تھا۔

یہ خبریں بھی عالمی ذرایع میں شایع ہو چکی ہیں کہ امریکی بدنامِ زمانہ ’’بلیک واٹر‘‘ کی دو کمپنیاں بھی اِسی قندھار کے گورنر ہاؤس میں افغان نوجوانوں کو خفیہ وارداتوں کی تربیت دے رہی تھیں۔بعض اہلِ خبر کا کہنا ہے کہ ’’بریگیڈ888‘‘کے نام سے جو افغان فوجی پاکستان پر حملے کرنے میں ملوث تھے، وہ بھی یہیں سے لانچ کیے جارہے تھے۔

یہ بھی اطلاعات ہیں کہ قندھار کے گورنر ہاؤس میں مبینہ طور پر ایک بھارتی سفارتکار (جگدیو کرشنا) کا بھی بہت آنا جانا تھا۔ وہ جنرل عبدالرازق کا ’’کاروباری‘‘دوست بھی تھا۔ افغانستان کے باخبر صحافیوں کا دعویٰ ہے کہ انڈر کور مذکورہ بھارتی سفارتکار اور جنرل عبدالرازق کے درمیان مہنگے نائیٹ ویژن اور ملٹری آلات کی کک بیکس کی تقسیم پر شدید جھگڑا بھی ہُوا تھا۔ یہ آلات اسرائیل سے افغانستان درآمد کیے گئے تھے ۔

ممکن ہے پیسوں کی تقسیم پر یہی تصادم آخر کار خونی شکل اختیار کر گیا ہو اور اس نے مبینہ طور پر این ڈی ایس اور سی آئی اے کے کئی سینئر اہلکاروں کی جان لے لی ہو۔ قندھار پولیس سربراہ جنرل عبدالرازق بھی اِنہی میں شامل تھا۔

اب افغان عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے افغان اور امریکی حکام طرح طرح کے بیانات کے گولے داغ رہے ہیں۔اگر ہم مشہور مغربی ویب اخبارThe Interceptمیں شایع ہونے والے تفصیلی آرٹیکل (جسےMay Jeongنے لکھا ہے) کا مطالعہ کریں تو مقتول افغان جنرل عبدالرازق کے بارے میں کئی حیرت انگیز باتیں سامنے آتی ہیں۔

یہ آرٹیکل لکھنے والی صحافیہ افغانستان میں کئی بار جنرل عبدالرازق سے مل چکی ہیں۔ انھوں نے اپنے مشاہدات کی بنیاد پر لکھا ہے کہ جنرل مذکور سفاک شخص تھا۔ وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ جنرل عبدالرازق افغانستان میں امریکیوں کا زبردست اتحادی اور حامی تو تھا لیکن وہ افغان عوام کا ہیرو قطعی نہیں تھا۔ اُس کا انجام آخر کار ایک روز یہی ہونا تھا جواٹھارہ اکتوبر کو ہُوا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔