اقبالؒ کا جہانِ آرزو

ڈاکٹر بصیرہ عنبرین  جمعـء 9 نومبر 2018
اقبال اس امر سے بخوبی آگاہ تھے کہ انسان کا دل آرزوؤں کا مرکز ہے۔ فوٹو: فائل

اقبال اس امر سے بخوبی آگاہ تھے کہ انسان کا دل آرزوؤں کا مرکز ہے۔ فوٹو: فائل

کلامِ اقبال آرزوؤں اور امنگوں کا خزینہ ہے۔ کسی بھی فرد اور قوم میں آرزوؤں اور تمناؤں سے محرومی تخلیقِ مقاصد کی راہ میں سب سے بڑی مجبوری ٹھہرتی ہے۔

اقبال اس امر سے بخوبی آگاہ تھے کہ انسان کا دل آرزوؤں کا مرکز ہے۔ ازل ہی سے ’’نورِ حقیقت‘‘ کی تمنّا اس کے قلب میں رکھ دی گئی ہے۔

اقبال کے الفاظ میں قلبِ انسانی ’ذوقِ طلب‘ کا گھر ہے۔ یہ آرزوئیں اور امنگیں ہی ہیں جن کی تکمیلیت فرد کی ترقی کے ساتھ ساتھ پورے جہان کے نشووارتقا کا باعث بنتی ہے۔ خالقِ کائنات نے آرزو کا بیج انسان کے دل میں تسخیرِ کائنات کی خاطر بو دیا ہے۔ اب یہ فرد پر منحصر ہے کہ وہ اس بیج کو تناور درخت کی صورت میں کس طرح ڈھالتا ہے۔ انسان کی آرزوئیں جو آغازِ حیات میں نوزائیدہ ہوتی ہیں بالآخر برگ و بار لاتی ہیں۔ ’’بانگِ درا‘‘ کی نظم ’’طفلِ شیرخوار‘‘ میں علاّمہ اس حقیقت کا ادراک ان لفظوں میں کراتے ہیں:

ہاتھ کی جنبش میں طرزِ دید میں پوشیدہ ہے

تیری صورت آرزو بھی تیری نوزائیدہ ہے

وقت کی رفتار کے ساتھ ساتھ انسان کی یہی نوزائیدہ تمنّائیں مقاصدِ جلیل کی صورت میں ڈھل جاتی ہیں کیوں کہ ترفع کے حصول کی خواہش فرد کی جبلّت کا حصہ ہے۔ اسی لیے انسان خاکی ہونے کے باوصف آسمان کی رفعتوں سے ہمکنار ہونے کا خواہاں رہا ہے۔ علاّمہ کے مطابق انسان کے جذبے کسی بھی بلند مقام پر روزِ ازل سے خورشید کی طرح فائز نہیں ہیں بلکہ یہ ارتقائی صورت رکھتے ہیں۔ اپنی اصلیت کے اعتبار سے یہ شبنم کے مانند ہیں جو فرد کو زمین سے آسمان تک لے جاتے ہیں۔ علاّمہ فرماتے ہیں:

نہ اُٹھا جذبۂ خورشید سے اک برگِ گل تک بھی

یہ رفعت کی تمنّاہے کہ لے اُڑتی ہے شبنم کو

_______________

کوئی دل ایسا نظر نہ آیا نہ جس میں خوابیدہ ہو تمنّا

الٰہی تیرا جہان کیا ہے، نگارخانہ ہے آرزو کا

کھلا یہ مر کر کہ زندگی اپنی تھی طلسم ہوس سراپا

جسے سمجھتے تھے جسمِ خاکی، غبار تھا کوئے آرزو کا

_______________

آرزو کے خون سے رنگیں ہے دل کی داستاں

نغمۂ انسانیت کامل نہیں غیر از فغاں

اقبال نے قلبِ انسانی میں آرزوؤں کے پنپنے کی متعدد فلسفیانہ تعبیرات پیش کیں۔ وہ اس جانب توجہ دلاتے ہیں کہ ہر شے زوال آمادہ ہے لیکن اس امر سے آگاہی کے باوصف فرد امنگوں کو اپنے دل میں جگہ دیتا ہے اور اپنے عمل سے زمانے میں اپنے نقوش ثبت کرتا چلا جاتا ہے:

آرزو کو خُون رُلواتی ہے بیدادِ اجل

مارتا ہے تیر تاریکی میں صیّادِ اجل

_______________

دل میں کوئی اس طرح کی آرزو پیدا کروں

لوٹ جائے آسماں میرے مٹانے کے لیے

_______________

زمانہ دیکھے گا جب مرے دل سے محشر اٹھے گا گفتگو کا

مری خموشی نہیں ہے، گویا مزار ہے حرفِ آرزو کا

آرزو کو فرد کی جبلّی مجبوری محسوس کرتے ہوئے علامہ نے اس فطری اور آفاقی جذبے کو فرد اور ملّت کی فلاح و بقا کے لیے وسیع تر تناظرمیں استعمال کیا۔ ان کا مرکزی تصور یعنی خودی جو تعیینِ ذات سے عبارت ہے، فرد کی امنگوں اور آرزوؤں کے گرد گھومتا ہے اور یہی تمنّائیں جب ملّتِ اسلامیہ کے لیے وقف ہو جاتی ہیں تو اعلیٰ مقاصد کا حصول ہوتا ہے۔ اقبال، افرادِ ملّت میں قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی سی شان پیدا کرنے کے خواہاں تھے۔ چناں چہ اپنے دل میں پنہاں ایسی متعدد آرزوؤں کا اظہار کرتے ہیں:

دل نہیں شاعر کا، ہے کیفیتوں کا رستخیز

کیا خبر تجھ کو، دُرونِ سینہ کیا رکھتا ہوں میں

_______________

دیکھ یثرب میں ہُوا ناقۂ لیلیٰ بیکار

قیس کو آرزوئے نو سے شناسا کر دیں

فارسی میں فرمایا:

ما ز تخلیق مقاصد زندہ ایم

از شعاعِ آرزو تابندہ ایم

(ہم تخلیق مقاصد کی خواہشات کے باعث حیات پاتے ہیں اور یہ آرزو کی شعاعیں ہیں جو ہمیں تابندگی سے ہم کنار کرتی ہیں۔)

کلامِ اقبال شاہد ہے کہ اقبال کی تمام تر تمناؤں کا مرکز مسلم نوجوان ہے۔ وہ اس امر کا ادراک رکھتے تھے کہ مسلم نوجوان کے دل میں آرزو کے سوز کا ہونا کسی متاعِ بے بہا سے کم نہیں ہے۔ اسی سے اُسے مقامِ بندگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ ایک آرزو مند دل سے وجود کی پیدائی ثابت ہوتی ہے اور امنگوں کی بے نیشی فرد کی زندگی کو مقصدیت سے عاری کر دیتی ہے۔ جس کے نتیجے میں اسے بے عملی کا مرض لاحق ہو جاتا ہے اور یہ بالآخر پوری ملّت کے تنزل کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اس کے برعکس اگر افرادِ قوم کی تمنّائیں وسعت اختیار کر لیں تو راہِ عشق میں اُجالے ہوتے چلے جاتے ہیں:

حرم کے دل میں سوزِ آرزو پیدا نہیں ہوتا

کہ پیدائی تری اب تک حجاب آمیز ہے ساقی

_______________

متاعِ بے بہا ہے درد و سوزِ آرزو مندی

مقامِ بندگی دے کر نہ لوں شانِ خداوندی

_______________

طبیب عشق نے دیکھا مجھے تو فرمایا

ترا مرض ہے فقط آرزو کی بے نیشی

_______________

تاروں کی فضا ہے بیکرانہ

تو بھی یہ مقام آرزو کر

_______________

راہِ محبت میں ہے کون کسی کا رفیق

ساتھ مرے رہ گئی ایک مری آرزو

اقبال کے نزدیک خاکی کو افلاکی مقام عطا ہونے کا ایک سبب اس کے وجود میں سوزوساز، دردو داغ اور جستجو و آرزو کے خصائص کا ہونا ہے۔ چناں چہ فرد کی بقا اس کی آرزوؤں میں پنہاں ہے۔ اس ضمن میں اقبال کا محبوب انداز اپنی آرزوؤں اور امنگوں کو دل نشیں پیرائے میں بیان کرتا ہے۔ وہ جابجا ایسے اشارات فراہم کرتے ہیں کہ میرا ذرا سا دل آرزوؤں کا نگارخانہ ہے جس میں ربِ ذوالجلال کے قرب کی تمنّا سے لے کر زندگی کے تمام تر سوزوساز سے وابستہ خواہشیں چھپی ہیں۔ اقبال اپنے دل میں مضمر یہ سوز اور تڑپ افرادِ ملت میں لُٹا دینے کے متمنی ہیں اور چاہتے ہیں کہ تعمیرِ آرزو کا سلسلہ دراز تر ہو جائے اور یوں مقاصد کی دنیا سنورتی رہے۔

بادِ صبا کی موج سے نشوو نمائے خار و خس

میرے نفس کی موج سے نشو و نمائے آرزو

’’ساقی نامہ‘‘ میں علاّمہ اپنے دل کو روشن تر آرزوؤں کا مخزن قرر دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

جوانوں کو سوزِ جگر بخش دے

مرا عشق، میری نظر بخش دے

امنگیں مری، آرزوئیں مری

اُمیدیں مری، جستجوئیں مری

مرا دل مری رزم گاہِ حیات

گمانوں کے لشکر یقیں کا ثبات

یہی کچھ ہے ساقی متاعِ فقیر

اسی سے فقیری میں ہوں میں امیر

مرے قافلے میں لُٹا دے اسے

لُٹا دے ٹھکانے لگا دے اسے

کلامِ اقبال میں جا بجا ایسے اشارات ملتے ہیں کہ ملتِ اسلامیہ کے زوال کا بڑا سبب افرادِ ملّت کے دلوں سے آرزوؤں کا تہی ہو جانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بظاہر تو ملّت میں ایمان زندہ ہے لیکن عمل کی حرکت و حرارت رخصت ہو چکی ہے۔ جب آرزوؤں کے ہنگامے سرد ہو جائیں تو مردِ مسلمان کا لہو سرد ہو جاتا ہے اور اس کے سینے میں ’’آتشِ اللہ ہو‘‘سرد پڑ جاتی ہے ___نتیجتاً ملت زوال آشنا ہو جاتی ہے:

رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے

دہ دل، وہ آرزو باقی نہیں ہے

نماز و روزہ و قربانی و حج

یہ سب باقی ہیں، تُو باقی نہیں ہے

_______________

کہیں ہنگامہ ہائے آرزو سرد

کہ ہے مردِ مسلماں کا لہو سرد

بُتوں کو مری لادینی مبارک

کہ ہے آج آتشِ اللہ ھُو سرد

_______________

آرزو اوّل تو پیدا ہو نہیں سکتی کہیں

ہو کہیں پیدا تو مر جاتی ہے یا رہتی ہے خام

دوسری طرف اگر افرادِ ملّت میں آرزوئیں اور امنگیں زندہ ترہیں تو محکوم قومیں بامِ عروج کو چُھو لیتی ہیں:

گرم ہو جاتا ہے جب محکوم قوموں کا لہو

تھر تھراتا ہے جہانِ چارسُو ے رنگ و بُو

اقبال کو اپنے اس موقف پر اس قدر اصرار ہے کہ وہ انداز بدل بدل کر اس حقیقت سے آشنا کراتے ہیں۔ ان کے نزدیک اقوامِ عالم پر مسلمانوں کی ہیبت اس وقت تک قائم ہے جب تک ان کے دل میں عمل کی خواہش زندہ ہے۔ ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘میں اس امر کا واضح اظہار ہوا ہے، جہاں ابلیس اپنے مشیروں کی کارگزاریاں سُننے کے بعد حتمی فیصلہ سناتا ہے:

ہے اگر مجھ کو خطر تو اُس اُمت سے ہے

جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرارِ آرزو

خال خال اُس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ

کرتے ہیں اشکِ سحر گاہی سے جو ظالم وضو

_______________

جانتا ہے جس پہ روشن باطنِ ایام ہے

مزدکیت فتنۂ فردا نہیں اسلام ہے

اقبال کے نزدیک آرزوئیں حیاتِ انسانی کا سرمایہ ہیں اور قومی و ملّی ترقی کا راز افرادِ قوم کی آرزوؤں اور تمناؤں ہی میں پنہاں ہے۔ وہ ہر لحظہ دل میں نو بہ نو آرزوؤں کے قیام کے قائل ہیں، چناں چہ فلسفیانہ انداز میں وصل کو فراق پر ترجیح دیتے ہوئے آرزوؤں کو زندہ رکھنے کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔ ان کے مطابق ایک آرزو کا پورا ہو جانا فرد سے اگلے مقصد کی طرف پیش رفت کا تقاضا کرتا ہے۔ اقبال فرماتے ہیں:

عالمِ سوز و ساز میں وصل سے بڑھ کے ہے فراق

وصل میں مرگِ آرزو، ہجر میں لذّتِ طلب

_______________

تری دعا ہے کہ ہو تیری آرزو پوری

مری دعا ہے تری آرزو بدل جائے

پروفیسر ڈاکٹر بصیرہ عنبرین
شعبہ اُردو، پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج، لاہور

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔