حیاتِ اقبالؒ کی چند جھلکیاں

ڈاکٹر بصیرہ عنبرین  جمعـء 9 نومبر 2018
فقیر سید وحید الدین کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جنہیں شاعر مشرق سے میل ملاقات کا شرف حاصل رہا۔ فوٹو: فائل

فقیر سید وحید الدین کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جنہیں شاعر مشرق سے میل ملاقات کا شرف حاصل رہا۔ فوٹو: فائل

فقیر سید وحید الدین کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جنہیں شاعر مشرق سے میل ملاقات کا شرف حاصل رہا۔ انھوں نے علامہ کی صحبت میں گزرے لمحات کو کتابی شکل میں ’’روزگار فقیر‘‘ کے نام سے شائع کر دیا تھا۔

یہاں ہم علامہ اقبال کی زندگی کے چند واقعات فقیر سید وحید الدین کی زبانی پیش کر رہے ہیں جو اُن کی کتاب میں شامل ہیں۔

شاعر کی آنکھیں

ایک دفعہ میں نے زمانہ کی قدر ناشناسی کا ذکر کیا اور کہا کہ لوگ اپنے ملک کے بڑے بڑے شاعروں، قومی رہنمائوں اور عظیم المرتبت انسانوں کی زندگی میں ان کی قدر نہیں کرتے۔ ڈاکٹر صاحب اس سوال سے بہت متاثر ہوئے اور کسی قدر تامل کے بعد فرمایا: تم غور کرو تو معلوم ہوگا کہ جب شاعر کی آنکھیں کھلی ہوتی ہیں تو دنیا کی بند ہوتی ہیں اور جب شاعر کی آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہوجاتی ہیں تو دنیا کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ اور وہ صدیوں تک اس کی تعریف و توصیف کے گیت گاتی رہتی ہے۔

عورت کی ذمہ داری

ایک مرتبہ کہنے لگے کہ جس قوم نے عورتوں کی ضرورت سے زیادہ آزادی دی وہ کبھی نہ کبھی ضرور اپنی غلطی پرپشیمان ہوئی ہے۔ عورت پر قدرت نے اتنی اہم ذمہ داریاں عائد کررکھی ہیں کہ اگر وہ ان سے پوری طرح عہدہ برآ ہونے کی کوشش کرے تو اسے کسی دوسرے کام کی فرصت ہی نہیں مل سکتی۔ اگر اسے اس کے اصلی فرائض سے ہٹا کے ایسے کاموں پر لگایا جائے جنہیں مرد انجام دے سکتا ہے تو یہ طریق کار یقینا غلط ہوگا۔ مثلاً، عورت کو جس کا اصل کام آئندہ نسل کی تربیت ہے ٹائپسٹ یا کلرک بنا دینا نہ صرف قانون فطرت کی خلاف ورزی ہے، بلکہ انسانی معاشرہ کو درہم برہم کرنے کی افسوسناک کوشش ہے۔

بغاوت

میں نے ایک مرتبہ ڈاکٹر صاحب سے پوچھا، کیا یہ صحیح ہے کہ انسان بغاوت کا دوسرا نام ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا: بالکل صحیح، آخر تم ہی کہو تم نے اپنے والدین کے احکام کی تعمیل کہاں تک کی ہے۔ کیا تم میں سرکشی کی روح نہیں۔ تم اپنے آپ کو بار بار بغاوت پر آمادہ نہیں پاتے؟ میں نے شرمندہ ہوکے نگاہیں جھکالیں۔

محرومی

گلے کی تکلیف شروع ہوتے ہی ڈاکٹر صاحب کی آواز بیٹھ گئی تھی۔ اس حادثہ نے ان کی رہی سہی مصروفیتیں بھی ختم کردیں۔ اور انہوں نے باہر نکلنا ہی چھوڑ دیا۔ اس زمانے میں انہیں ترکی اور مصر سے تقریر کرنے کی دعوتیں آئیں۔ ان دعوت ناموں کا ذکر آتا تھا تو کہتے تھے کہ میرا گلا ٹھیک ہولے تو ضرور جائوں گا۔ لیکن مرض بڑھتا گیا اور ڈاکٹر صاحب صحت کی جانب سے مایوس ہوگئے۔ ایک دن بڑی مایوسی کے لہجہ میں فرمایا: خدا نے مجھے زبان تو عطا کی ہے لیکن آواز سے محروم کردیا۔ یہ کہتے کہتے ان پر رقت طاری ہوگئی۔

یہ تو آدمی ہیں

میرے ایک قریبی رشتہ دار سید واجد علی کو کتے پالنے کا بڑا شوق تھا۔ ایک دفعہ میں ان کے ساتھ موٹر میں بیٹھ کر ڈاکٹر صاحب سے ملنے گیا۔ موٹر میں ان کے کتے بھی تھے۔ ہم لوگ ڈاکٹر صاحب کے پاس جابیٹھے۔ اور کتوں کو موٹر ہی میں چھوڑ دیا۔ تھوڑی دیر میں ڈاکٹر صاحب کی ننھی بچی منیرہ بھاگتی ہوئی آئی۔ اور کہنے لگی، ’’اباجان موٹر میں کتے آئے ہیں۔‘‘

ڈاکٹر صاحب نے ہماری طرف اشارہ کرکے کہا، ’’نہیں بیٹا، یہ تو آدمی ہیں۔‘‘

خوش فہمی

لوگوں میں مشہور ہے کہ جو شخص حج کرلے اس کے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ میں نے ڈاکٹر صاحب سے ایک مرتبہ پوچھا، ’’کیا یہ صحیح ہے کہ حج کرنے سے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا، ’’نہیں، یہ تو بالکل غط ہے۔‘‘

میں نے عرض کیا، ’’تو حج کی غرض و غایت کیا ہے۔‘‘

جواب ملا، ’’بس خدا کا حکم ہے۔‘‘

اندیشۂ مرگ

گلے کی تکلیف میں ایک ڈاکٹر علامہ اقبال کو دیکھنے آیا۔ اس نے چند دوائیں تجویز کیں۔ پھر کہنے لگا، اس مرض میں پرہیز ضروری ہے۔ فلاں فلاں چیزوں سے پرہیز کیجئے۔ علامہ نے پوچھا، لیکن اگر میں آپ کی ہدایت پر عمل نہ کروں تو۔ ڈاکٹر نے جواب دیا، تو خدانخواستہ آپ کی جان خطرہ میں پڑجائے گی۔ حکیم الامت کہنے لگے، ڈاکٹر صاحب! کیا انسان کی زندگی کا کوئی لمحہ ایسا ہے جو موت کے خطرہ سے خالی ہے۔

ڈاکٹر یہ سن کر حیران رہ گیا اور پھر کہنے گا، آپ کی سی طبیعت کا مریض میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔

لارڈ کچنر (Kitchner)

لارڈ کچنر، جو ایک زمانے میں ہند کا کمانڈر اِن چیف بھی رہ چکا تھا، بڑے مشہور برطانوی جرنیلوں میں سے تھا۔ پہلی عالمگیر جنگ کے زمانے میں وہ غرقاب ہوا۔ تو جس طرح آج ہٹلر کے متعلق کہا جارہا ہے کہ وہ زندہ ہے اور دنیا کے سامنے آنے کے لیے مناسب موقع کا منتظر ہے، اسی طرح کچنر کے متعلق بھی یہ افسانہ تراش لیا گیا کہ وہ ڈوبا نہیں بلکہ زندہ ہے۔ علامہ اقبال ایک روز والد بزرگوار سے باتیں کررے تھے۔ اتنے میں ایک خوش فکر بزرگوار نے کہا: ’’کچنر زندہ ہوگیا۔‘‘ علامہ مرحوم نے جواب دیا: ہاں ممکن ہے ’’کارڈلیورآئل‘‘ کی صورت میں آگیا ہو۔

احساس غرور

ایک دفعہ راجہ نریندر ناتھ نے ڈاکٹر صاحب کو چائے پر مدعو کیا۔ راجہ کے کمرے میں ہرن کی کھالیں بچھی ہوئی تھیں۔ ڈاکٹر صاحب ان سے بچ بچ کے گزرے۔ راجہ نریندر ناتھ نے حیران ہوکر وجہ پوچھی۔ آپ نے جواب میں بتایا کہ میرے استاد محترم نے ایک مرتبہ میری دی ہوئی جائے نماز استعمال نہ کرنے کا سبب بتاتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ ہرن کی کھال پر بیٹھنے یا چلنے سے انسان کے دل میں لاشعوری طور پر غرور کا احساس پیدا ہوتا ہے اور یہ ایک ایسی مسلمہ بات ہے جس کا ذکر حدیث شریف میں بھی موجود ہے۔ راجہ نریندر ناتھ اس جواب سے اس قدر متاثر ہوئے کہ کئی منٹ تک وہ خاموشی کھڑے ڈاکٹر صاحب کے چہرے کو تکتے رہے۔

اعجاز بیانی

ڈاکٹر محمد اقبال مرحوم کی زندگی جس قدر سادہ، تکلفات سے ناآشنا اور ان کے افکار و خیالات جس طرح سلجھے ہوئے تھے، اسی طرح عام ملاقاتوں میں ان کا انداز گفتگو بھی سلیس و سادہ ہوتا تھا۔ وہ نہ تو مقفیٰ الفاظ استعمال فرماتے اور نہ مسجع تراکیب اور استعاروں سے بول چال کو پر تکلف اور بوجھل بناتے۔ سادہ اردو، ٹھیٹ پنجابی لہجہ میں بے تکلفی کا انداز۔ ہاں! کبھی کبھی انگریزی الفاظ و مصطلحات کے استعمال سے ان کی عام ملاقاتیں اور خاص محفلیں بڑی دلچسپ، علمی اور بعض اوقات ہنگامہ پرور بن جاتیں۔ کوئی اجنبی ڈاکٹر صاحب کی محفل میں پہلے پہل شریک ہوکر شاید یہ باور نہیں کرسکتا تھا کہ جو شخص فلسفہ و منطق کا امام ہے، جس نے معارف و افکار کی زلف برہم کو سلجھایا ہے، علم و فن کے چہرے کو آب و رنگ بخشا ہے اور جس نے شاعری کو نئے الفاظ اور جدید ترکیبیں عطا کی ہیں، وہ روزمرہ کی زندگی اور عام گفتگو میں اتنا سادہ ہوسکتا ہے۔

ڈاکٹر صاحب مرحوم کے انداز شعر گوئی کا ایک اور نمایاں پہلو ہے جو میرے علم میں ہے۔ یہ بھی بظاہر دوسرے واقعات کی طرح ایک واقعہ ہے مگر ایسا واقعہ جو ڈاکٹر صاحب کی اعجاز بیانی، واردات قلبی اور کیفیت شعر گوئی کا آئینہ دار ہے۔ یہ دیکھنے میں صرف ایک جھلک ہے مگر اس میں ڈاکٹر صاحب کی رعنائی خیال کی کتنی ہی تجلیاں ضوفگن ہیں۔ میرے دوست ڈاکٹر محمد دین تاثیر مرحوم بہت زمانہ سے علامہ موصوف کی خاص صبحتوں میں شریک ہوتے تھے۔ انہوں نے اپنی کوشش سے مجلہ ’’کارواں‘‘ جاری کیا، جس کی ملک کے طول و عرض میں خاصی دھوم تھی۔ ایک دن وہ ڈاکٹر صاحب سے درخواست کی کہ ان کے اس نو طلوع جریدہ کے لیے کوئی تازہ غزل یا نظم مرحمت فرمائی جائے۔ اس درخواست کے بعد تاثیر مرحوم ڈاکٹر صاحب سے متواتر تقاضا کرتے رہے، مگر وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے۔

ڈاکٹر صاحب کا یہ مزاج ہی نہ تھا کہ کسی نے فرمائش کی اور انہوں نے جھٹ سے غزل یا نظم کہہ دی۔ دوسرے شاعروں کی طرح داد تحسین حاصل کرنے کے لیے شعر کہنا تو ان کی طبیعت کو کسی طرح پسند کیا گوارا بھی نہ تھا۔ ہاں، تو اس واقعہ کے کئی مہینہ بعد ڈاکٹر تاثیر مرحوم علامہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور اپنی تازہ ترین غزل اصلاح و نظرثانی کے لیے پیش کی۔ ڈاکٹر صاحب بڑے انہماک سے یہ غزل سن رہے تھے، جب تاثیر مرحوم اس شعر پر پہنچے؎

زلف آوارہ، گریباں چاک، اومست شباب

تیری صورت سے تجھے درد آشنا سمجھا تھا میں

تو ڈاکٹر صاحب چونک پڑے۔ انہوں نے اس شعر کو کئی بار پڑھوایا۔ پھر فرمانے لگے: شاعر نے اپنی غلط فہمی کا تو اظہار کردیا ہے، مگر اس سے کہیں بڑی اور سنگین غلطی کی نشان دہی باقی رہ گئی ہے۔ ذرا کاغذ پنسل تو لو، اور لکھو؎

اپنی جولاں گاہ زیر آسماں سمجھا تھا میں

آب و گل کے کھیل کو اپنا جہاں سمجھا تھا میں

بے حجابی سے تری ٹوٹا نگاہوں کا طلسم

اک ردائے نیلگوں کو آسماں سمجھا تھا میں

کارواں تھک کر فضا کے پیچ و خم میں رہ گیا

مہر و ماہ و مشترمی کو ہم عناں سمجھا تھا میں

عشق کی اک جست نے طے کردیا قصہ تمام

اس زمین و آسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں

کہہ گئیں راز محبت پر وہ دار یہائے شوق

تھی فغاں وہ بھی، جسے ضبط فغاں سمجھا تھا میں

تھی کسی درماندہ رہرو کی صدائے دردناک

جس کو آواز رحیل کارواں سمجھا تھا میں

(یہ اشعار ڈاکٹر صاحب کے دوسرے اردو مجموعۂ کلام ’’بال جبریل‘‘ میں شائع ہوکر مقبول خاص و عام ہوچکے ہیں)۔

ڈاکٹر صاحب اس قدر روانی، تیزی اور ارتجال و برجستگی کے ساتھ اشعار موزوں کرتے جارہے تھے کہ خود تاثیر مرحوم کے قول کے مطابق وہ پہلا شعر بہ مشکل لکھ پاتے تھے، کہ ڈاکٹر صاحب دوسرا شعر پڑھ دیتے۔ یوں سمجھئے کہ شعر و سخن کا فوارہ سچ مچل ابل رہا تھا اور قوت تحریر قوت گویائی کے آگے اپنی کمزوری اور درماندگی کا زبان حال سے اعتراف کررہی تھی۔

شاید یہی وہ کمال فن تھا جس کی بنا پر میرے ایک سوال کے جواب میں شاعر مشرق نے خود فرمایا تھا کہ اشعار کے لیے مجھے موزوں الفاظ کی جستجو کرنا نہیں پڑتی، بلکہ پورے کے پورے اشعار واردات قلبی اور فکر کے سانچے میں ڈھل کر خود بخود سامنے آجاتے ہیں۔ گویا    ؎

مجھے راز دو عالم دل کی آئینہ دکھاتا ہے

وہی کہتا ہوں جو کچھ سامنے آنکھوں کے آتا ہے

قوم کی جنس

ڈاکٹر محمد اقبال مرحوم نے کسی زندہ اور صاحب کردار قوم کی پہچان بتاتے ہوئے ایک بار کہا کہ جس طرح دنیا کی دوسری اشیا میں نر اور مادہ کا جنسی امتیاز موجود ہے، اسی طرح قومیں بھی نر اور مادہ ہوتی ہیں اور اس کا پتہ ان کے قول و عمل، معاشرت، کردار، خصائل اور نفسیات سے چلتا ہے۔

(’’جگر ہو خوش تو چشم و دل میں ہوتی ہے نظر پیدا‘‘)

وعدہ کا پاس

سید امجد کے کے چھوٹے بھائی سید افضال علی شاہ کی شادی کی تقریب لاہور میں انجام پارہی تھی۔ آخر عمر میں ڈاکٹر صاحب میں کسل مندی اور ہنگاموں سے گریز کا جذبہ پیدا ہوگیا تھا۔ اس کا ایک سبب ان کی مسلسل علالت بھی تھا۔ اسی لیے وہ شادی کی تقریب میں شریک نہ ہوسکے۔ تمام اعزا اور بزرگوں نے، جن میں میرے والد فقیر سید نجم الدین، سرسید مراتب علی مرحوم، میجر مبارک علی شاہ، سید محمد عبداللہ (مولوی میر حسن صاحب کے پوتے)، سید امجد علی، سید واجد علی اور نواب مشتاق احمد گرمانی بھی شامل تھے، ڈاکٹر صاحب کی عدم شرکت کو بڑی شدت کے ساتھ محسوس کیا۔ اب بحث چل پڑی کہ ڈاکٹر صاحب کو کس طرح یہاں لایا جائے۔ ہر کوئی اپنی رائے دے رہا تھا۔ آخر کار میں نے بڑے اعتماد کے ساتھ یہ ذمہ داری اپنے سر لے لی اور وعدہ کیا کہ اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ڈاکٹر صاحب کو میں اس تقریب میں ضرور لے آئوں گا۔ چنانچہ میں موٹر میں بیٹھ کر ڈاکٹر صاحب کے میکلوڈ روڈ والے مکان کی جانب روانہ ہوگیا۔ وہاں پہنچا تو مرحوم اپنے کمرے میں بنیان اور دھوتی پہنے لیٹے ہوئے تھے ور حقہ پی رہے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی بزرگانہ محبت و شفقت کے لہجہ میں بولے، کیوں بھئی! کیسے آنا ہوا؟ میں نے عرض کیا، سید افضال شاہ کی شادی کی تقریب میں آپ کے نہ آنے کا سب کو ملال ہے۔ میں ان سب کو منتظر چھوڑ کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں اور یہ وعدہ کرکے آیا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کو میں اپنے ہمراہ ضرور لائوں گا۔

ڈاکٹر صاحب نے قدرے توقف فرمایا۔ میرے چہرے کا یہ عالم کہ ایک رنگ آتا تھا اور ایک رنگ جاتا تھا کہ نہ جانے ڈاکٹر صاحب کیا جواب دیتے ہیں۔ چند تامل کے بعد انہوں نے فرمایا ’’وعدہ کا پاس کرنا ضروری ہے۔ چلو میں چلتا ہوں‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے لباس تبدیل کیا اور میرے ہمراہ شادی کی تقریب میں تشریف لے آئے۔ میری خوشی کا کیا پوچھنا۔ میرے اندر فتح مندی اور کامیابی کا جذبہ ابھر آیا تھا۔ سب سے بڑھ کر اس کا احساس تھا کہ صاحب قبلہ سے جو خاکسار کو حسن ظن اور ان کی ذات پر ناز اور اعتماد ہے اس کی لاج رہ گئی۔

ڈیوس روڈ کی اس کوٹھی میں علامہ اقبال دو گھنٹے ٹھہرے۔ احباب و اعزا کے درمیان بڑی دلچسپ گفتگو اور ہنسی خوشی کی باتیں رہیں۔ اس واقعہ کی یاد جب بھی آتی ہے تو مسرت کے ساتھ ساتھ ندامت کا جذبہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ محض اپنا وعدہ پورا کرنے کے لیے میں ڈاکٹر صاحب کے آرام اور معمولات میں کس قدر مخل ہوا۔ ہاں! اس صحبت کی ایک بات تو رہی جاتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب اور دوسرے مہمان بزرگ جس کمرے میں تشریف فرما تھے اس میں ریچھ کی کھال پڑی ہوئی تھی۔ سد واجد علی شاہ نے جگہ کو کشادہ کرنے کیلئے اسے کمرے کے ایک خالی کونے میں اٹھا پھینک دیا۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ دیکھ کر فرمایا:

’’پہلے اسے جان سے مارا، پھر اسے ذلیل کرنے کے درپے ہو۔‘‘

سلطان ٹیپو

ایک بڑے انگریز افسر نے اپنے کتے کا نام ٹیپو رکھ لیا تھا۔ وہ ہمیشہ اسی نام سے کتے کو پکارتا تھا۔ یہ حرکت اس نے دانستہ کی تھی کہ اس طرح مسلمانوں کے ایک نامور فرد کی تحقیر ہوتی تھی۔ یہ بات ڈاکٹر صاحب کے کانوں تک بھی پہنچی۔ ایک بار انہوں نے نہایت تاسف کے لہجہ میں شکوہ کیا کہ انگریز تو مرد مجاہد کا مضحکہ اڑاتا ہی ہے، سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ خود مسلمان بھی اس حرکت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ میں اس وقت ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں موجود تھا اور ان کے یہ الفاظ اب تک میرے کانوں میں گونج رہے ہیں کہ ٹیپو سلطان کی عظمت کو تاریخ کبھی فراموش نہ کرسکے گی۔ وہ مذہب، ملت اور آزادی کے لیے آخر دم جنگ کرتا رہا۔ یہاں تک کہ اسی نیک مقصد کی راہ میں شہید ہوگیا۔

درمیان کارزار کفر و دیں

ترکش مارا خدنگ آخریں

پروفیسر ڈاکٹر بصیرہ عنبرین
شعبہ اُردو، پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج، لاہور

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔