محکمہٴ تعلیم کی شان میں قصیدہ

مریم فاطمہ  منگل 13 نومبر 2018
جب ہم نے محکمہٴ تعلیم میں ایک سرکاری استاد کی حیثیت سے قدم رکھا تو محکمہٴ تعلیم کے طریقہ واردات سے مکمل طور پر ناواقف تھے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

جب ہم نے محکمہٴ تعلیم میں ایک سرکاری استاد کی حیثیت سے قدم رکھا تو محکمہٴ تعلیم کے طریقہ واردات سے مکمل طور پر ناواقف تھے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اردو شاعری میں قصیدے سے مراد ایسی نظم لی جاتی ہے جس میں شاعر، اپنے محبوب کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں چونکہ ایسا کوئی شاعر دستیاب نہیں جو ہمارے محکمہٴ تعلیم کی شان میں قصیدہ کہہ سکے، اس لیے یہ ذمہ داری خاکسار نے اپنے ناتواں کاندھوں پر لی ہےاور ایک حقیر سی کوشش کی ہے کہ شاید اس بلبلِ پریشاں کی آواز تبدیلی کے ایوانوں تک پہنچ جائے اور تبدیلی کا کوئی جھونکا محکمہٴ تعلیم سے بھی ہوتا ہوا گزر جائے۔

یوں تو محکمہٴ تعلیم کے تمام دفاتر بہت پھرتی سے اپنے تمام کام انجام دیتے ہیں مگر یہاں کے کلرک حضرات پھرتی دکھانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ البتہ، یہ پھرتی آپ کو صرف تب نظر آئے گی جب آپ نے کلرک کو خرچہ پانی بروقت پہنچا دیا ہو۔ دوسری صورت میں تمام عمر دفتروں کی خاک چھاننے کے بعد بھی آپ کی فائل کسی نہ کسی افسر کے دستخط کی کمی کا شکار رہے گی۔ لیجیے! اب بندی کا ذاتی تجربہ بھی سن لیجیے۔

اول اول جب ہم نے محکمہٴ تعلیم میں ایک سرکاری استاد کی حیثیت سے قدم رکھا تو محکمہٴ تعلیم کے طریقہ واردات سے مکمل طور پر ناواقف تھے۔ ہماری معصومیت کا عالم یہ تھا کہ چار ماہ بغیر کسی معاوضے کے خاموشی سے کام کرتے رہے۔ بحیثیت خاتون استاد گھر چلانے کی ذمہ داری سے آزاد تھے لہذا اس گمان میں بیٹھے رہے کہ تنخواہ کا کام خودکار طریقے کے مطابق چل رہا ہوگا۔ مگر جب پانچویں مہینے بھی تنخواہ آنے کے کوئی آ ثار نظر نہ آئے تو تشویش ہوئی۔ ہاتھ پاؤں مارنے شروع کیے۔ ہر تجربہ کار بندے سے پوچھنے لگے کہ جناب یہ ماجرہ کیا ہے؟ مگر ہر بندہ ایک الگ ہی رام کہانی سنا دیتا اور ہر روز اسکول سے واپسی پر دماغ ایک نئی الجھن کا شکار ہوجاتا۔

خیر، جیسے تیسے اتنا معلوم ہوا کہ جناب محکمہٴ تعلیم کے مرکزی دفتر میں تشریف لے جائیے اور اپنی تنخواہ خود چالو کروائیے۔ پھر کیا تھا، یوں لگا جیسے ہماری ذلت و خواری کے دور کا آغاز ہوگیا۔ ہوا یوں کہ ہم اگلے ہی روز محکمہ تعلیم کے مرکزی دفتر پہنچے، کلرک سے ملے، کلرک نے ہماری خوب آؤ بھگت کی، تنخواہ کےلیے ہمارا تمام کاغذی کام مکمل کروایا۔ ہم دل ہی دل میں بہت خوش تھے کہ اگلے ماہ تنخواہ ضرور آجائے گی۔ اسی خو ش فہمی میں وہیں بیٹھے بیٹھے بہت سے خیالی پلاؤ بھی بنا ڈالے۔ سب سے پہلے ایک اسمارٹ فون لیں گے پھر برانڈڈ سوٹ اور گھر والوں کو فائیو اسٹار ہوٹل میں پارٹی… اور اور…

یکدم کلرک کی دل خراش آواز نے ہمارے معصوم خوابوں کا تسلسل توڑ دیا؛ اور ہماری تمام تر خوش فہمیوں پر اس وقت پانی پھر گیا جب کلرک نے مسکین سا چہرہ بنا کر ہم سے کہا: باجی جی! آپ بالکل بے فکر ہوجائیں، آپ کی تنخواہ کا سارا کام میرے ذمے، بڑے دفتر والے تھوڑا سا خرچہ پانی لیں گے اور اگلے ہی ماہ آپ کی تنخواہ چالو ہوجائے گی۔ یہ سن کر ہماری تمام تر خوش فہمیاں خاک میں مل گئیں اور ہم اپنا سا منہ لے کر گھر واپس آگئے۔ دل میں ٹھان لیا کہ خرچہ پانی دیئے بغیر ہی تنخواہ چالو کروائیں گے۔ ’’الراشی والمرتشی کلاھما فی النار۔‘‘

پھر کیا تھا جناب! روز کی بنیاد پر کلرک کو کال ملاتے اور روز کی بنیاد پر ایک ہی جواب کسی جن بھوت کی طرح بھیس بدل بدل کر سننے کو ملتا: ’’باجی! صاحب آج بہت مصروف تھے، صاحب ابھی دفتر نہیں آئے، صاحب سرکاری دورے پر نکلے ہوئے ہیں،‘‘ وغیرہ۔

خیر، ہم بھی خاصے ڈھیٹ واقع ہوئے اور ’’امید پہ دنیا قائم ہے‘‘ کے مقولے کو ذہن میں رکھتے ہوئے بلا ناغہ کلرک کو کال ملاتے کہ شاید کبھی بادشاہ سلامت کو فریادی پر رحم آجائے؛ لیکن انجام یہ ہوا کہ کلرک نے ہمارا نمبر ہی بلاک کردیا کیونکہ وہ جان گیا تھا کہ ان تلوں میں تیل نہیں۔

آٹھ ماہ گزر گئے مگر تنخواہ کے دور دور تک کوئی آثار نہیں تھے۔ ہر کوئی ہم سے اس انداز میں باقاعدہ پوچھنے آتا جیسے کسی فوتگی پر پرسہ دیا جا رہا ہو۔ ’’حوصلہ کرو، اللہ کی یہی مرضی ہے، اللہ کی اللہ ہی جانے، صبر کرو صبر‘‘ اور ہم بھی مظلوم سا چہرہ بنا کر اس انداز میں تعزیت وصول کرتے جیسے واقعی ہماری تنخواہ کا انتقال ہوگیا ہے اور وہ ہمیں سوگوار چھوڑ کر منوں مٹی تلے جا سوئی ہے۔

اسی سوگوار ماحول میں دس ماہ گزر گئے۔ اب تو پوچھنے والوں نے پوچھنا بھی چھوڑ دیا اور ہم بھی تنخواہ کے سہانے خواب کو بھلا کر اللہ کی رضا کی خاطر چپ چاپ اسکول کے بچوں کو پڑھانے میں مصروف ہوگئے۔

اچانک ایک دن اس خاموش سمندر میں لہریں اٹھیں ہر طرف شور مچنے لگا کہ ہمارے محکمہٴ تعلیم کے نئے افسران عہدے سنبھال رہے ہیں۔ اس طوفان کی ایک لہر ہمارے فون تک بھی پہنچی اور ہمارا فون بجا۔ اس معجزاتی کال کے ذریعے بتایا گیا کہ آپ کی تنخواہ چالو کر دی گئی ہے۔ نئے آنے والے صاحب نے کل آپ کو بلایا ہے۔ چند ساعتوں کےلیے تو ہم اس دنیا میں ہی نہ رہے، سدھ بدھ کھو بیٹھے۔ تفصیلات دریافت کیے بغیر ہی کال بند کردی اوراپنے کولیگز سے پوچھنے لگے کہ آج اپریل فول تو نہیں؟

اسی کشمکش میں اسکول سے گھر پہنچے۔ رات اسی سوچ میں گزری کہ یقیناً یہ خواب تھا۔ صبح اسی خواب کو سچ کرنے کی امید پر محکمہٴ تعلیم کے دفتر پہنچ گئے، صاحب سے ملے۔ پتا چلا کہ تنخواہ سے متعلق دیگر تمام فائلز کو کلرک حضرات نے کئی ماہ پہلے پہیے لگادیئے تھے اور اپنی اپنی منزل مقصود پر پہنچے انہیں کئی ماہ بیت چکے، مگرہماری واحد فائل پہیے لگنے کے انتظار میں کئی ماہ سے صاحب کی میز پر دھول سے اٹی ہوئی، بے یارومدگار پڑی تھی۔ آج چونکہ نئے آنے والے افسران نے پرانے تمام کھاتے بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے لہذا اس ناچیز کی بھی قسمت جاگ اٹھی۔ صاحب نے بقلم خود تمام کاغذات مکمل کروائے اور ہمیں مبارک باد دی۔

ہمارا صبر ہمارے کام آیا اور اللہ اللہ کرکے پورے دس ماہ بعد ہماری پہلی تنخواہ ہمارے اکاؤنٹ میں آ ہی گئی۔

یہ تو مجھ ناچیز کی روداد تھی۔ نجانے کتنے اساتذہ روزانہ کی بنیاد پر اس کلرک مافیا کا شکار ہوتے ہیں۔ کبھی تنخواہ چالو کرانے کی غرض سے تو کبھی ٹرانسفر کرانے کےلیے، کبھی الاؤنس کےلیے تو کبھی چھٹی لینے کےلیے۔ تبدیلی کے دعویداروں سے درخواست ہے کہ محکمہٴ تعلیم بھی تبدیلی کا منتظر ہے، اسے بھی بہتر بنائیے اور ’’کلرک مافیا‘‘ کے چنگل سے آزاد کروائیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مریم فاطمہ

مریم فاطمہ

بہاؤالدین یونیورسٹی ملتان سے ایم اے اردو میں گولڈ میڈلسٹ ہیں۔ دو سال سے سرکاری اسکول میں بطور ایجوکیٹر خدمات انجام دے رہی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔