لفظوں کا جادوگر

شیریں حیدر  اتوار 23 جون 2013
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

مارچ 2010کی ایک دوپہر… جاسوسی پبلی کیشنز کی طرف سے عصرانے پر مدعو تھی اور ڈیفنس میں واقع ان کے دفتر کو ڈھونڈتی ڈھانڈتی وہاں پہنچی، دفتر کچھ عرصہ قبل ہی وہاں منتقل ہوا تھا  اس لیے جس کسی سے پوچھتی وہ کوئی نہ کوئی ابہام پیدا کر دیتا… مارچ کا مہینہ کراچی میں قدرے خوش گوار اور تقریبات کے لیے انتہائی موزوں سمجھا جاتا ہے… میں جونہی اس کمرے میں داخل ہوئی جہاں مہمان خصوصی پہلے سے موجود تھے… محترمہ عذرا رسول صاحبہ نے تعارف کروایا… ’’ شیریں حیدر تشریف لائی ہیں جناب… ‘‘

’’ اچھا… یہ ہیں شیریں حیدر… انھیں تو میں ہر صبح یاد کرتا ہوں !!!‘‘  قمر علی عباسی ( مہمان خصوصی) کے منہ سے یہ الفاظ سن کر میں نے عجیب سی حیرت سے انھیں، پھر نیلو فر جی اور پھر باقی حاضرین محفل کو دیکھا۔ ایسی صاف گوئی… اور وہ مجھے کیوں یاد کرتے ہیں، ہم تو پہلے کبھی ملے تک نہیں، میں دل ہی دل میں سوچ رہی تھی۔

’’ اس یاد کرنے کے پیچھے منطق کیا ہے وہ بھی بتا دیں عباسی صاحب… ‘‘ نیلو جی نے میرے سوال کو زبان دے دی۔

’’ ارے بھئی… آپ کو یاد نہیں اپنا وہ کالم، پانی احتیاط سے استعمال کرنے کے بارے میں، جس میں آپ نے لکھا تھا کہ ہم جب برش کرتے ہوئے یا شیو کے دوران پانی کھلا رکھتے ہیں تو کتنا پانی ضائع ہو جاتا ہے… ‘‘ نہ صرف کالم کے مندرجات، بلکہ اس کا عنوان تک یاد تھا ان کو، ’’ اب جب بھی ہر روز سویرے سنک کے سامنے کھڑا ہوتا ہوں تو کلی کر کے، برش پر ٹوتھ پیسٹ لگا کر پانی بند کر دیتا ہوں ، اسی طرح چلتے پھرتے گھر کی کھڑکیاں کھولتا ہوں، تھوڑی سی چہل قدمی بھی ہو جاتی ہے اور دو منٹ برش کر لیتا ہوں تو واپس سنک کے سامنے آ کر اتنی ہی دیر پانی کھول کر کلیاں کرتا ہوں ، جتنی دیر ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح شیو کے دوران جب پانی استعمال نہیں کر رہا ہوتا تو ٹونٹی بند کر دیتا ہوں …چاہے امریکا میں پانی کی قلت نہیں ہے مگر اچھی بات تو کوئی بھی کہے اسے سیکھنے اور اس پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں…‘‘

انھوں نے مجھے یاد کرنے کا عقدہ تو حل کر دیا مگر میں حیرت کے ایک ایسے سمندر میں غوطہ زن ہو گئی کہ بیان نہیں کر سکتی۔ حالانکہ ہمارے لکھے ہوئے پر بہت سے لوگوں کی مثبت اور منفی رائے ہمیں زبانی ، خطوط اور ای میل کے ذریعے ملتی رہتی ہے مگر اس سے زیادہ خوب صورت رائے اور میرے لکھے پر عمل کا اظہار کسی نے تب کیا تھا نہ اس کے بعد۔ لفظوں کا وہ جادوگر… کہ جو بولے توسب ہمہ تن گوش ہو جائیں،  اتنی موثر قوت اظہار شاید ہی کسی کو نصیب ہوتی ہے۔

کھانے کے بعد محفل سجی اور ہم سب ہال میں آرام دہ نشستوں پر بیٹھ گئے، قطرے سے شروع کر کے سمندر کی بات اور ذرے سے ابتدا کر کے پہاڑ تک کا سفر…  فقیر سے بادشاہ بننے کی داستان ہو یا شاہ سے گدا، ان کے پاس لفظوں کا ایسا خزانہ تھا کہ جو ختم ہی ہونے میں نہ آتا تھا۔ نرم لہجے میں، دلیل کے ساتھ، واقعات کو تسلسل کے ساتھ بیان کرتے ہوئے، ہر واقعے میں خدائے عز و جل کی شان کریمی  اور اس کی عظمت کا اعتراف و ذکر کرتے ہوئے، عباسی صاحب محفل لوٹ کر لے گئے۔

یہ عباسی صاحب سے میری پہلی ملاقات تھی۔ ان میں حس مزاح بھی کمال کی تھی، اندازہ ہی نہ ہوتا تھا کہ اتنے سنجیدہ انداز میں ہلکا سا طنز کر گئے ہیں… سارے حاضرین محفل متاثر تھے۔ اس بار عباسی صاحب متحدہ عرب امارات کا سفر نامہ، سات ستارے صحرا میں لائے تھے۔ یہ ان کا ستائیسواں سفر نامہ تھا اور اس کی تقریب رونمائی چند دن میں ایک مقامی ہوٹل میں منعقد ہونے والی تھی، اس تقریب کی دعوت بھی ملی اور اسے اپنے لیے باعث اعزاز سمجھا۔ انھیں اپنے ہاں مدعو کیا، بالکل ذاتی ملاقات کے لیے اور انھوں نے اسے قبول کیا۔

نیلوفر صاحبہ نے بتایا کہ عباسی صاحب کا ذہن بہت خوبصورت اور زرخیز ہے، وہ سوچتے جس رفتار سے ہیں، لکھنے کے معاملے میں اتنے ہی سست… اس کا حل یہ نکالا گیا کہ وہ سوچتے ہیں، بولتے ہیں اور نیلوفر لکھتی ہیں۔

’’ پھر تو آدھا کریڈٹ نیلو جی کو دینا چاہیے سر!! ‘‘ میری حس مزاح پھٹکی۔

’’ آدھا کیوں جی… ‘‘  انھوں نے فوراً کہا،  ’’ پورا کیوں نہیں… ‘‘  میں ان کی بات پر ہنس پڑی۔، ’’سوچنے کا کیا ہے بی بی، سوچتا تو ہر کوئی ہے… اصل کمال تو آپ لوگوں کا ہے جو سوچتے ہیں اسے لکھ ڈالتے ہیں اور اتنا اچھا لکھتے ہیں کہ میں بھی رشک سے پڑھتا ہوں !‘‘

میرا کالم اخبار میں چھپتا تو اگلے دن سب سے پہلی ای میل عباسی صاحب کی طرف سے اس پر رائے کی موجود ہوتی، انھوں نے ہمیشہ مکمل اور مثبت رائے دی۔ کہتے تھے ہمیں اندازہ ہی نہیں کہ اللہ تعالی نے ہم پر کتنی ذمے داری ڈالی ہے، قلم ہمیں تھما دیا، ہم خوش ہوتے ہیں کہ لفظ بکھیرتے ہیں اور رقم بٹورتے ہیں، ہمیں اندازہ ہی نہیں کہ ہم رقم کے علاوہ کیا کیا پا لیتے ہیں… کوئی ہمیں پڑھ کر اچھا عمل سیکھ لے تو اس اچھے عمل کے ہر بار کرنے کی جزا ہمیں ملتی ہے… جیسے میں پانی کا ہر قطرہ اسmotivationپر بچاتا ہوں جو آپ کے کالم نے دی تو ہر ایک قطرے کے بچانے پر نیکیاں صرف میرے ہی نہیں بلکہ آپ کے نامہء اعمال میں بھی جاتی ہیں…ہم اس نیکی کے انجانے میں شریک ہیں ۔

’’ اﷲ  کرے آپ سفر ناموں کی سینچری مکمل کریں سر… ‘‘  میں نے دل سے انھیں دعا دی۔ ایک ہفتہ کہیں سیاحت کرتے ہیں تو اس انداز سے کہ ایک کتاب تخلیق ہو جاتی ہے اور ایک ہم ہیں جو چار ماہ بھی کہیں گزار لیں اور کوئی پوچھے کہ سیر کیسی رہی تو دو پیرا گراف میں بات ختم ہو جاتی ہے۔ ایک خاص سیاح کی نظر پائی تھی انھوں نے، جہاں سے گذرتے،  ایک اچٹتی نگاہ ڈال کر بھی ہر تفصیل ان کے دماغ میں محفوظ ہو جاتی…

کافی دنوں سے ان کی طرف سے ای میل نہ پا کر میں نے انھیں ای میل بھیجی تو علم ہوا کہ ان کی طبیعت ناساز تھی، مگر اتنا نہ سوچا کہ کس حد تک۔ امریکا میں’’  کترینہ ‘‘ سے تباہی کا شور مچا اور بجلی کے طویل بریک ڈاؤن کا سنا۔ جہاںاپنے اور پیاروں کی خیر خبر معلوم کی وہیں عباسی صاحب کو بھی کال کر کے ان کی خیریت پوچھی، نیلو جی سے بھی بات ہوئی… عباسی صاحب کی طبیعت بہتر تھی، تسلی ہوئی۔

مگر اچانک ان کی وفات کی خبر نے جھنجھوڑ دیا، وہ لفظوں کا کھلاڑی ،وہ پیاری پیاری  باتیں کرنے والا… وہ دیار غیر میں وطن جیسی محفلیں سجانے والا… وہیں کی خاک میں مل گیا اپنے جادو بھرے الفاظ ساتھ ہی لے گیا، اپنی گہری سوچوں سمیت اور ان پیاروں کو تنہا چھوڑ گیا جو اس کے رفیق تھے،اس کے ہمسفر، اس کے دوست اور اس کے چاہنے والے۔صدیوں تک اس جیسا کوئی اور پیدا نہ ہو گا کہ اس سے پہلے بھی کوئی اس جیسا نہ تھا۔

امریکا میں رہ کر بھی اردو کی خدمت کرتے رہے، وہاں کے ریڈیو اور ٹیلی وژن پر بھی دونوں میاں بیوی گاہے بگاہے مختلف پروگرام کرتے رہتے تا کہ ان کی زبان کو وہاں بھی لوگ پہچانیں۔ وائس آف امریکا سے باقاعدگی سے پروگرام کرتے اوراس کے علاوہ جہاں جاتے وہاں ادبی محافل منعقد کرتے۔ انھیں معلوم ہو جاتا کہ پاکستان سے کوئی پردیس میں مہمان ہے… امریکا یا کینیڈا، جانے کہاں سے اس کا کھرا نکالتے اور خود رابطہ کرتے، دیار غیر میں ان کی مدد کو تیار اور ان کی میزبانی کے متمنی…

ان کی یاد ہمارے لیے اتنی قیمتی اور خوش کن ہے تو ان کے ان پیاروں کی زندگی میں تو ان کے جانے سے جو خلاپیدا ہوا ہے اسے کوئی پر نہیں کر سکتا۔ ہم فقط دعا ہی کر سکتے ہیں کہ اللہ ان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کے بعد تنہا رہ جانے والوں کو ان کی یادوں کی محفلیں سجا کر اپنے تنہائی کے دکھ ہلکے کرنے کی توفیق دے… آمین!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔