چھینکا اور ہمارے بِلے

عبدالقادر حسن  ہفتہ 10 نومبر 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

چند روزہ ہنگاموں کے بعد جب زندگی معمول پر آئی تو میں بھی اپنے معمول کے کاموں کی انجام دہی کے لیے گھر سے نکلا۔ ہر بڑی شاہراہ پر موٹرسائیکل سواروں کی ایک بڑی تعدا کو ٹریفک پولیس نے روک رکھا تھا، معلوم ہوا کہ حکومت کی جانب سے ہیلمٹ پہننے کی پابندی کی وجہ سے موٹر سائیکل سوار اس کی خلاف ورزی کی سزا چالان کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ مجھے ایک محاورہ یاد آگیا ’بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا‘۔ یہ محاورہ تو آپ نے بھی سنا ہوگا۔

شہروں کی تو اب دنیا بدل چکی ہے جہاں سامان خورو نوش کو بلیوں سے بچانے کے لیے فریج وغیرہ عام ہوتے ہیں مگر دیہات میں اب بھی کھانے پینے کی ایسی اشیا جو بلیوں کو مرغوب ہیں رات کو ایک چھینکے میں ڈال کر چھینکے کو کسی اونچی جگہ یا صحن میں لگی ہوئی تار کے ساتھ لٹکا دیا جاتاہے ۔

ایک تو یہ چیزیں کھلی ہوا میں خراب نہیں ہوتیں دوسرے بلیوں کی پہنچ سے دور ہونے کی وجہ سے ان کی دستبرد سے محفوظ رہتی ہیں۔ لیکن یہ چھینکا اگر ٹوٹ جائے اور گر جائے تو بلیاں اس پر جھپٹ پڑتی ہیں ۔ چھینکا بلیوں کی قسمت سے کبھی کبھار ہی ٹوٹتا ہے چنانچہ ایسا ہو تو کہا جاتا ہے کہ بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا ورنہ اس کے ٹوٹنے کا کوئی امکان نہیں تھا ۔ یہ محاورہ یا مثل مجھے موٹر سائیکل سواروں پر ہیلمٹ کی پابندی سے یاد آئی ہے اور یہ پابندی بلیوں یعنی پولیس کے بھاگوں لگی ہے چنانچہ روزانہ ہزاروں موٹر سائیکل سواروں کی پکڑ دھکڑ جاری ہے اور جب ٹریفک پولیس کو صلائے عام والا موقع ملتا ہے تو گویا اس کے بھاگ جاگ اٹھتے ہیں۔

ان دنوں یہ بھاگ جاگے ہوئے ہیں ۔ حکومت نے تو موٹر سائیکل کی دوسری سواری کے متعلق  بھی ہیلمٹ کی پابندی لگا دی ہے یعنی اب موٹر سائیکل پر جتنے بھی سوار ہوں گے وہ ہیلمٹ پہنیں گے لیکن پھر کسی وجہ سے اس کو چند ہفتوں کے لیے موخر بھی کردیا شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ابھی مارکیٹ میں اتنے ہیلمٹ دستیاب ہی نہ ہوں اور کوئی مہربان مارکیٹ کی ضرورت پوری کرنے والا ہو ، اس لیے عوام کی سہولت کے لیے اسے چند ہفتوں کے لیے موخر کر دیا گیا۔

اس پابندی کے بعد دکانداروں نے ہیلمٹ کی قیمتیں کئی گنا بڑھا دی ہیں۔ ایک تو ضرورت کے مطابق بازار میں اتنے ہیلمٹ دستیاب ہی نہیں تھے دوسرے جو تھے وہ مہنگے ہو گئے۔ بلا سوچے سمجھے اور کسی منصوبے کے بغیر ایسی پابندیوں سے عوام کے حصے میں پریشانی کے سوا کچھ نہیں آتا چنانچہ لوگوں نے باورچی خانوں سے ہیلمٹ نما دیگچیاں نکال کر سروں پر چڑھا لیں،کسی نے پلاسٹک کی بالٹی کاٹ کر اسے ہیلمٹ کی شکل دے دی لیکن پولیس کو دھوکا کون دے دسکتا ہے اس نے عوام کے یہ حربے ناکام بنا دیے ۔

موٹرسائیکل والے ایسے بھی پولیس کا شکار بنتے رہتے ہیں کیونکہ ان سے دہشت گردی کا مستقل خطرہ رہتا ہے، اب جب یہ نئی پابندی بھی لگ گئی ہے تو پولیس نے اپنے بھاگ جگا لیے ہیں ۔ تادم تحریر یہ بھاگ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر جاگ رہے ہیں اور ننگے سرموٹر سائیکل سوار چالان کی پرچیاں لیے پھرتے ہیں یا ان پرچیوں کو وصو ل کرنے سے پہلے کسی طرح ان سے نجات پا چکے ہیں۔ اس سے قبل بھی ایک فوجی حکومت کے دوران ایسا ہو اتھا لیکن جب کسی خوش قسمت کا درآمد کنندہ مال فروخت ہو گیا تو یہ پابندی اٹھا لی گئی ۔ معلوم نہیں اس بار یہ کب اٹھے گی یا جاری رہے گی کچھ کہا نہیں جا سکتا۔افسوس کہ میں رپورٹنگ چھوڑ چکا ہوں ورنہ حقیقت حال عرض کر سکتا تھا۔

موٹر سائیکل سواروں کے لیے ہیلمٹ واقعی ضروری اور اس کی زندگی کا محافظ ہے ۔ جب کسی وجہ سے موٹر سائیکل سوارگرتا ہے تو سیدھا سر کے بل گرتا ہے ۔ اگر سرپر ہیلمٹ موجود ہو تو سر کی ہڈی بچ سکتی ہے جو نہ بچے تو مہلک ثابت ہوتی ہے اس لیے لوہے کی یہ ٹوپی بہت مفید ثابت ہوتی ہے ۔ ہونایہ چاہیے کہ شروع سے ہی اسے لازمی قرار دیا جائے اور موٹر سائیکل کا اسے جزو سمجھا جائے لیکن ہمارے ہاں کوئی کام منصوبہ بندی سے نہیں کیا جاتا اور جو ہوتا ہے اس میں عوام کی سہولت کا خیال نہیں رکھا جاتا ۔ ہمارے حکمرانوں کا مزاج عوام مخالف مزاج میں تبدیل ہو چکا ہے ۔ عوام کو تکلیف دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جاتا بلکہ ایسے موقع پیدا کیے جاتے ہیں ۔

اسی ہیلمٹ کو ہی لیجیے اس کی پابندی نافذ کرنے والوں نے یہ معلوم کرنے کی زحمت نہیں کی کہ وہ جس چیز کے استعمال کی پابندی لگا رہے ہیں کیا وہ کافی تعداد میں بازار میں دستیاب بھی ہے یا نہیں اور ہے تو کس معیار کی ہے اور پھر اس کی قیمت کیا ہے لیکن ایسا کچھ نہیں کیا گیا، دفتر میں بیٹھ کر ایک حکم جاری کر دیا گیا اور اس کی تعمیل کو پولیس جیسے محکمے کے سپرد کر دیا گیا اس کا جو نتیجہ نکلنا تھا وہی نکلاہے۔

حکومت اور حکمرانوں کی خدمت میں گزارش ہے کہ عوام بہت پریشان حال ہو چکے ہیں۔بے روزگاری اور مہنگائی نے ان کی زندگی موت کے قریب ترین کر دی ہے ۔ امن و امان کی صورتحال سب کے سامنے ہے ۔ انصاف کا دور دور تک کوئی نشان نہیں ملتا ۔عوام کے اوپر اتنا بوجھ لادا جا چکا ہے کہ اب ایک تنکے کی بھی گنجائش باقی نہیں ہے لیکن حکومت ایسے حالات سے بے خبر ہو کر یا لاپروا ہو کر کوئی نہ کوئی ایسی حرکت کر گزرتی ہے کہ عام آدمی خدا کے سامنے گڑ گڑانے کے سوا کچھ نہیں کر سکتا ۔

حکومت کو کون بتائے کہ لاوا بہت زیادہ پک رہا ہے اور اس سے پہلے کہ حکمرانوں کے گرد حفاظتی دیواریں توڑ دی جائیں حکومت کو اپنی پالیسیوں بلکہ ان کے پیچھے کارفرما رویوں کو بدلنا چاہیے۔ اپوزیشن کو دھمکیاں دے کر اسے مشتعل نہ کیاجائے ۔عوام اس طرح کی صورتحال میں اپوزیشن کی طرف دیکھتے ہیں لیکن ہمارے ہاں دوستانہ اپوزیشن کا رواج چل نکلا ہے اس لیے عوام اپوزیشن سے گلہ کرتے رہتے ہیں کہ کوئی ان کا ہاتھ پکڑنے والا نہیں۔

اگر کوئی سر پھرا بازار میں نکل آیا تو کسی کے بس میں کچھ نہیں رہے گاکسی کو موقع نہ دیجیے کہ وہ بھوکے عوام کی سوکھی ہوئی لکڑیوں کو آگ دکھا سکے۔ کوئی عقلمند ہو تو اس کے لیے لاتعداد اشارے موجود ہیں ۔ یہ ایک ملک ہے جس کے اندر ایک قوم آباد ہے اسے کوئی چھینکا نہ سمجھے جو ٹوٹ پڑا ہے جس پر اونچے لوگ ٹوٹ پڑتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔