بحرانوں میں پوشیدہ مواقع

اکرام سہگل  ہفتہ 10 نومبر 2018

عالمی اور داخلی تبدیلیوں کے باعث پیدا ہونے والی صورت حال میں پاکستان کے لیے کئی چیلنجز نے سر اٹھا لیا ہے۔ ان بحرانوں کی کثرت سے گھبرانے کے بجائے ان میں سے ہر ایک کا بغور تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ان حالات میں ریاست کو صرف ردّعمل تک محدود نہیں رہنا چاہیے، یہ چیلنجز ہمارے ملک اور سماج کو درپیش مسائل کی تفہیم اور ان کی روک تھام کے لیے سوچ بچار کے مواقع بھی فراہم کرتے ہیں۔

بیرونی چیلنجز میں افغانستان اور بھارت کے ساتھ تنازعات جغرافیائی قربت کی وجہ سے اہم ترین ہیں جب کہ وہ مسائل جو ہماری سرحدوں سے دور جنم لے رہے ہیں ان کے لیے ہمیں اپنے بین الاقوامی تعلقات پر نظر ثانی کا موقع ملا ہے۔ ہمیں اس وقت یوریشیئن تصور کی بنیاد پر ایک غیر جانب دار خارجہ پالیسی تشکیل دینا ہوگی، جس میں پاکستان کے محل وقوع کی اہمیت کو بھی پیش نظر رکھا جائے۔

عملی طور پر ایشیاء اور یورپ کی وحدت کثیر المقاصد منصوبے ’’بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو‘‘(بی آرآئی) سے منسلک ہے، پاکستان جس کا اہم ترین حصہ ہے۔ سی پیک کو محض مالیاتی اور اقتصادی چیلنجز کا سامنا نہیں بلکہ سلامتی، افواہ سازی، یک طرفہ رپورٹنگ اور روزانہ بنیادوں پر بیرونی عناصر کی جانب سے  اٹھائے جانے والے اعتراضات بھی اس کی راہ میں حائل ہیں۔ ہماری سلامتی کے ضامن اداروں کو نہ صرف قومی  بیانیے پر ثابت قدم رہنا ہے بلکہ انھیں ایک متبادل بیانیہ بھی تشکیل دینا ہوگا۔

درپیش چیلنجز میں سے جس کا فیصلہ کُن مقابلہ ضروری ہے وہ عالمی سطح پر پایا جانے والا ہمارا مجموعی تاثر ہے، جسے بہر صورت مثبت بناناہوگا۔ اس کے لیے ایک ایسا بیانیہ تشکیل دینے کی ضرورت ہے جس میں پاکستانی ثقافت کے رنگ، جغرافیہ اور سماج کی تصویر سامنے لائی جائے، اس کے ساتھ ہی اسلام کا اس کی تشکیل میں کردار بھی اجاگر کیا جائے۔ ان کوششوں کے نتیجے میں ان ممالک سے بھی دوستانہ تعلقات قائم کرنے میں مدد مل سکتی ہے جو ہماری قومی شناخت اور حالات کی درست تفہیم نہ ہونے کے باعث ہم سے فاصلہ رکھتے ہیں۔

ہمارا سب سے بڑا چیلنج داخلی سلامتی ہے اور شدت پسندی کے خاتمے کے لیے  ہر سمت میں اقدامات کرکے ہی اس سے نمٹا جاسکتا ہے، اس مسئلے کو چیلنج سمجھنے والے بھی اب ہمارے ہاں کم نہیں ہیں۔ پاکستان کے عوام اور اداروں کو اس بات کا ادراک کرنا ہو گا کہ اطلاعات کے ذریعے لڑی جانے والی جنگ میں داخلی اور بیرونی دونوں محاذوں پر مقابلہ کرنا ہوتا ہے۔

جھوٹی خبروں اور کھلے جھوٹ کا مقابلہ نئے جھوٹ اور مزید غلط اطلاعات سے نہیں ہوسکتا بلکہ اس کے لیے فیصلہ سازی اور سیاست میں شفافیت لانا ہوگی تاکہ سچ عوام کے سامنے آتا رہے۔ اس کا ہرگز مطلب نہیں کہ ہر بات افشا کردی جائے لیکن اطلاعات کی ایسی محدود فراہمی نہیں ہونی چاہیے جیسی کہ آج ہے۔

آج پاکستان کو درپیش چیلنجز کا ایک اور بڑا محرک ہماری معیشت ہے۔ داخلی سلامتی کے لیے مستحکم معیشت اور غربت میں کمی انتہائی ضروری ہے۔ دونوں مسائل ایک  دوسرے سے منسلک ہیں لیکن یہ بھی ضروری نہیں کہ ایک کی بہتری سے دوسرا ازخود حل ہوجائے گا۔ گرتی ہوئی معیشت کو سنبھالنے کے لیے  روزگار کے مواقع پیدا کرکے معاشی عمل کو اس رُخ پر ڈالنے کی ضرورت ہے کہ صرف امیر مزید امیر نہ ہو بلکہ غریبوں کے حالات میں حقیقی بہتری آئے۔

پاکستان کی ماحولیاتی پس ماندگی اور موسمیاتی تبدیلیوں سے جنم لینے والے قلت آب اور قحط جیسے بحرانوں کے باعث ہماری آبادی کی زندگی داؤ پر لگی ہے، یہ بھی ہمارے بنیادی چیلنجز میں سے ایک ہے۔ پانی کے ذخائر کی تعمیر، ماحولیاتی آلودگی کے بارے میں آگاہی اور پلاسٹک بیگز پر مؤثر پابندی جیسے اقدامات کے ساتھ ساتھ ہمیں ماحولیاتی تحفظ کو فیصلہ سازی کے عمل بھی شامل کرنا ہوگا ، اس کے لیے توانائی، زراعت یا صنعت اور سیاست کا ایجنڈا طے کرتے ہوئے اس میں ماحولیات کے تحفظ کو بھی اہم ترین نکتے کے طور پر شامل کرنے کی ضرورت ہے۔

توانائی اور پانی کے بحران میں براہ راست باہمی تعلق ہے اور یہی ایک دوسرے کا حل بھی ہیں۔ پن بجلی توانائی کی پیداوار کا سستا ترین ذریعہ ہے،مقامی سطح پر متعدد چھوٹے ڈیموں کی تعمیر سے پانی کے ذخیرے اور بجلی کی پیداوار کے مقاصد بیک وقت حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

عالمی سطح پر تیزی سے بدلتے تعلیم اور مہارتوں کے شعبوں سے استفادہ کرنا بھی ہمارے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ہمیں نہ صرف لاکھوں بچوں کو اسکول میں لانا ہے بلکہ اپنے نصاب اور طریقۂ تدریس میں ایسی تبدیلیاں بھی لانا ہوں گی کہ علم محض ڈگری کے حصول تک محدود نہ رہ جائے ، بلکہ ان بچوں کی زندگی میں بہتری کے لیے عملی طور پر مددگار ثابت ہو، تعلیم انھیں پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے مالا مال کر دے، انھیں قابل ٹیکنیشن اور انجینیئر بنائے، سب سے اہم یہ کہ انھیں ایک بہتر اور کارآمد انسان بنادے۔

ابھی بھی موقع ہے کہ ہم اپنے تعلیمی نظام کی از سر نو تشکیل کریں اور سمجھیں کہ تعلیم کا مقصد محض ہنر مند مزدور پیدا کرنا نہیں بلکہ طالب علم کی کردار سازی، اس کی روحانی اور اخلاقی تربیت اس کا اصل محور ہے۔ خواتین کو بااختیار بنانا بھی اسی اہم ترین مقصد میں شامل ہے ، جس کے لیے یہ بات مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ اکثر پاکستانی عورتیں قبائلی اور دیہی سماج میں بستی ہیں یعنی ایک پدر سری معاشرے کا حصہ ہیں، اس لیے خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے ایک محتاط حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے جس میں مردوزن ایک ساتھ عملی زندگی میں آگے بڑھیں۔

دنیا بھر میں سلامتی کے شعبے میں آنے والی انقلابی تبدیلیوں کے نتیجے میں ’’ہائبرڈ وارفیئر‘‘ ایک نئے چیلنج کے طور پر سامنے آیا ہے جس سے آگاہی انتہائی ضروری ہوچکی ہے۔ آج دنیا میں روایتی جنگ کے لیے غیر روایتی حربوں کی مدد سے اکسایا جاتا ہے، اس لیے افواہ سازی، حکومت میں تبدیلی کے لیے گروہوں کی بیرونی مدد یا دشمنوں کی خفیہ کارروائیوںجیسے ہتھکنڈوں کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان کو  ہر دَم تیار رہنا چاہیے۔ کسی بھی چیلنجز سے نمٹنا ایک طرح نسبتاً آسان کام بھی ہے لیکن اصل حکمت عملی وہی ہے جس میں اخلاقی سوالوں کے جواب بھی موجود ہوں اور انھیں لائحہ عمل ترتیب دیتے ہوئے نظر انداز نہ کیا جائے۔

میں اپنے عزیز دوست ، 34ویں پی ایم اے لونگ کورس کے ساتھی اور پاک فوج کے قابل ترین افسران میں سے ایک  بریگیڈیئر شیر افگن کی بات یہاں نقل کرنا چاہوں گا:’’ ہم پاکستان کے جغرافیائی محل وقوع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایس سی او میں انتہائی اہم کردار ادا کرسکتے ہیں، لیکن اس کے لیے ہمیں معاشی، سیاسی اور سماجی استحکام حاصل کرنا ہوگا۔ بدقسمتی سے ہم ابھی تک قوت کے ان اہم ترین ستونوں کو جمائے رکھنے کی  جستجو میں ہیں۔ کیا نئی حکومت نئے وژن اور تحرک کے ساتھ اس عمل کو تیز کرسکتی ہے، یہی اہم ترین سوال ہے۔

داخلی سلامتی کا استحکام ہماری شاندار ترقی کو بنیاد فراہم کرے گا۔  انتشار پسند عناصر سے نمٹنے کے لیے حکومت اور افواج کو مشترکہ طور پر بے خوف اور بے لاگ کوششیں کرنا ہوں گی۔ یہ تبھی ممکن ہے کہ ایسے عناصر سے نمٹنے والی حکومت کو اخلاقی برتری بھی حاصل ہو۔ کیا حکومت ہمارے معاشرے کے نام نہاد مذہبی عناصر کے ساتھ نرمی کا رویہ چھوڑ کر آہنی ہاتھوں سے نمٹے گی، خاص طور پر اس وقت جب کچھ مذہبی(جن میں سے کچھ کو غیر ملکی مالی معاونت بھی حاصل ہے) اور دیگر سیاسی پارٹیاں خفیہ طور پر ایسے انتشار پسندوں کی پشت پناہی کررہی ہیں۔ صرف عمران خان جیسا قومی لیڈر ہی یہ کام کرسکتا ہے۔ اگر ہم ان عناصر سے اپنی جان چھڑانے میں کام یاب ہوجاتے ہیں تو پاکستان ایس سی او میں اپنا صحیح مقام حاصل کرلے گا۔‘‘

(فاضل کالم نگار کے نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی میں قومی سلامتی کے موضوع پر منعقدہ ورکشاب میں دیے گئے لیکچر کے اقتباسات)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔