بھیدوں بھری دنیا

ذیشان محمد بیگ  اتوار 11 نومبر 2018

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

عام طور پر جب دنیا میں موجود ایسے عجوبوں کا ذکر ہو جن کی ابھی تک کوئی قابل قبول تشریح سامنے نہ آسکی ہو تو ذہن میں زیادہ تر برمودا ٹرائی اینگل یا مصر کے اہراموں کا تصور ہی ابھرتا ہے لیکن یہ عجائبات تو محض ایک نمونہ ہیں۔

نہ جانے ایسے کتنے ہی معمے ہماری اس زمین پر موجود ہیں جو آج کے ترقی یافتہ اور ٹیکنالوجی کے عروج کے زمانے میں بھی ہماری ذہانت کو چیلنج کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ ’’بوجھو تو جانیں‘‘۔ ان میں سے کچھ تو قدرت کے چھپائے ہوئے بھید ہیں جبکہ چند قدیم انسانی تہذیبوں کے وہ راز ہیں جو بے حد کاوشوں کے باوجود جدید انسانوں کے لیے سربستہ ہی ہیں اور ان پر منکشف نہیں ہوپائے۔ بہرحال یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم سہی لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ حضرت انسان نے اس ضمن میںہتھیار ڈال دیئے ہیں۔ انسان ابھی بھی ان کی اصل جاننے کی کھوج میں لگا ہوا ہے۔

-1 ’’اینٹی کیتھرا میکانزم‘‘  (Antikythera Mechanism)

ایک تباہ شدہ قدیم یونانی بحری جہاز سے ملنے والا ’’اینٹی کیتھرا میکانزم‘‘ نامی یہ آلہ 17 مئی 1902ء کو دریافت ہوا۔ یہ تقریباً 2000 سال پرانا بتایا جاتا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ آلہ دنیا کا پہلا کمپیوٹر تسلیم کیا گیا ہے۔ یہ آج کی جدید گھڑیوں کے ڈائل سے مشابہہ ہے اور اس میں انھیں کی طرح گراریاں لگی ہوئیں ہیں۔  اس آلے کے ذریعے سورج کی نقل و حرکت کا حساب کتاب لگا کر وقت کا درست اندازہ قائم کرنا ممکن تھا۔ اس آلے کی مدد سے ناصرف سورج بلکہ چاند اور پانچ دیگر سیاروں کی گردش کا بھی حساب لگایا جاسکتا تھا اور اسی طرح اس میں ایک کیلنڈر بھی مرتب کیا گیا تھا۔

نیز یہ چاند کی گردش کے ساتھ ساتھ چاند گرہن کے اوقات کے تعین میں بھی استعمال ہوتا تھا۔ اس کے ذریعے دھائیوں پہلے اجرام فلکی کا پیشگی حساب کتاب صحیح صحیح ظاہر کیا جانا بھی ممکن تھا۔ یہ اولمپکس گیمز کے چار سال سائیکل کے حساب لگانے کے لیے بھی استعمال ہوتا تھا۔اس کا گیئرنما نظام اس کے کثیر المقاصد استعمال کو آسان بناتا تھا۔ یہ آلہ اتنی مستند معلومات فراہم کرتا تھا کہ اس کی ایجاد کے اگلے ایک ہزار سال تک اس سے زیادہ بہتر آلہ نہیں بنایا جاسکا۔ اس بنا پر اس کے متعلق یہ نظریات بھی گردش میں آئے کہ یہ انسانوں کا بنایا ہوا نہیں بلکہ کسی خلائی مخلوق کی دین ہے تاہم بیشتر محققین اس نظریے سے اتفاق نہیں کرتے۔ البتہ وہ اس بات پر حیران ضرور ہیں کہ قدیم یونانیوں نے آخر کس طرح یہ آلہ بنایا کہ جو اپنے دور کی ترقی کے لحاظ سے بہت آگے کی چیز تھا ۔

-2 ’’وونیچ مینیوسکرپٹ‘‘ (Voynich Monuscript)

چند صفحات پر مشتمل یہ عجیب و غریب تحریر آج سے 600 سال پہلے وسطیٰ یورپ میں لکھی گئی لیکن محققین یہ بتانے سے ابھی تک قاصر ہیں کہ اس تحریر کا کیا مطلب ہے بلکہ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ یہ کون سی زبان کی تحریر ہے کیونکہ یہ دنیا بھر میں اپنی طرز کا واحد نمونہ ہی دستیاب ہے جس کے حروف کی مثال کسی بھی زبان کے حروف تہجی کے ساتھ نہیں ملتی اور بظاہر یہ حروف لایعنی اور بھدے سے دکھائی دیتے ہیں۔ اس تحریر کے 240 صفحات ملے ہیں جبکہ خیال ہے کہ کچھ اوراق ابھی گمشدہ ہی ہیں۔ ان صفحات پر اشاراتی نشانوں کی زبان میں کچھ تحریر ہے اور بعض جگہوں پر ڈائیاگرام بھی بنے ہوئے ہیں۔

محققین ہر سال اس کے نت نئے ترجمے شائع کرتے رہتے ہیں مگر اب تک کوئی ترجمہ بھی ذہنوں کو مطمئن نہیں کرسکا۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ یہ اس دور کی ادویات کے بارے میں جدید معلومات پر مشتمل تحریر ہے لیکن اس میں دی گئیں جڑی بوٹیوں اور پودوں کی تصاویر سے ان کو پہچانا نہ جاسکا کہ یہ پودے اور جڑی بوٹیاں کون سی ہیں۔ حال ہی میں جب یہ تحریر کمپیوٹر میں ڈال کر مصنوعی ذہانت کے استعمال کے ذریعے اس کو جانچنے کی کوشش کی گئی تو کمپیوٹر نے اسے ایک ایسی تحریر قرار دیا جو عبرانی زبان کے خفیہ کوڈ ورڈز میں لکھی گئی تھی۔ گو بہت سے محققین قبل ازیں یہی نظریہ پیش کرچکے ہیں لیکن یہ تمام تر تحقیقیں اس تحریر کا صرف 80 فیصد حصہ ہی عبرانی زبان کے حروف تہجی سے ملا پائیں اور اس کے باوجود بھی جو تحریر سامنے آئی وہ بے معنی اور بے ربط جملوں پر مشتمل تھی۔

-3 ’’پتھریلے مرتبانوں کا میدان‘‘ (Plain of Jars)

انڈونیشیا کے قریب و جوار میں واقع جنوب مشرقی ایشیا کا وہ واحد ملک جو چاروں طرف سے خشکی میں گھرا ہوا ہے اور جس کو کوئی سمندر نہیں لگتا، وہ ’’لاؤ پیپلز ڈیموکریٹک ریپبلک‘‘ ہے جسے عرف عام میں ’’لاؤس‘‘ (Laos) کہتے ہیں۔ ’’لاؤس‘‘ کے پہاڑی سلسلے ’’امیڈ ماؤنٹینس‘‘ (Amid Mountains) کے درمیان واقع ہموار میدان دیوہیکل پتھریلے مرتبانوں سے اٹا پڑا ہے جن میں سے چند تو دس فٹ تک بھی اونچے ہیں۔ یہ پتھریلے مرتبان گزشتہ 2500 سال سے اس جگہ موجود ہیں اور کسی کو نہیں معلوم کہ یہ وہاں کیسے آئے؟ کون لایا یا ان کو کس نے بنایا اور ان کا مصرف کیا ہے؟ ان مرتبانوں کے پاس سے ملنے والی انسانی ہڈیوں کی بنا پر ماہرین بس یہ اندازہ ہی لگاسکے ہیں کہ شاید یہ مردوں کو دفن کرنے کے کام آتے ہوں گے یا پھر گھروں میں اپنی آخری آرام گاہ میں تدفین کے لیے پہنچائے جانے کی منتظر میتوں کے عارضی مدفن کے طور پر استعمال میں لائے جاتے ہوں۔

دوسری جانب مقامی افراد ان مرتبانوں کے بارے میں اپنی ہی ایک قدیم روایتی سی داستان سناتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ مرتبان دراصل ان کی دوست ماورائی قوتوں اور جنات کے شراب پینے کے جام ہیں اور جب بھی ان مقامی قبائل کو ان جنات کی مدد سے اپنے دشمنوں پر فتح حاصل ہوتی ہے تو وہ جنات اس خوشی میں یہاں جشن فتح کی تقریبات کا اہتمام کرتے اور ان دیوہیکل مرتبانوں میں شراب پی کر فتح کا جشن مناتے ہیں۔ اس پورے علاقے میں امریکہ اور ویت نام جنگ کے دور میں امریکی فضائیہ کی طرف سے برسائے جانے والے بہت سے ایسے بم ابھی تک بھی بکھرے پڑے ہیں جو کسی وجہ سے پھٹ نہیں سکے۔ اسی لیے حکومت نے پتھریلے مرتبانوں والے ان 60 میدانوں میں سے صرف  7میدان ہی  سیاحوں کے لیے کھولے ہوئے ہیں تاکہ کسی ناخوشگوار واقعے سے بچاجاسکے۔

-4 ’’رومن ڈوڈیکا ہیڈرونس‘‘ (Roman Dodecahedrons)

کیا یہ چیز کوئی ہتھیار ہے یا کھلونا ؟ یا پھر اس کی کوئی مذہبی حیثیت ہے؟ کچھ ماہرین کے نزدیک یہ شاید نجومیوں کے استعمال کا کوئی آلہ ہے کیونکہ اس کے بارہ رخ یا پہلو ہیں اور ہر رخ کے بیچ میں سوراخ ہے جبکہ درمیان سے یہ کھوکھلا ہے۔ اس کے بارہ رخ شاید بارہ برجوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ بہرحال حقیقت یہ ہے کہ پتھروں یا کانسی سے بنائے جانے والی یہ چیز قریباً سترہ اٹھارہ سو سال پرانی ہے اور ابھی تک اس کا مصرف نامعلوم ہے۔ مختلف علاقوں سے ملنے والے اس عجوبے کا سائز ڈیڑھ سے سوا چار انچ تک ناپا گیا ہے۔ اکثر پرانی تجوریوں میں ملنے کے باعث خیال ہے کہ اس دور میں یہ کوئی بہت ہی قیمتی چیز تصور کی جاتی تھی۔

-5  ’’نازکا لائنز‘‘ (Nazca Lines)

’’ناز کالائنز‘‘ زمین پر کھود کر بنائی گئی ان اشکال کو کہتے ہیں جو براعظم جنوبی امریکہ کے مغرب میں واقع ملک ’’پیرو‘‘ (Peru) میں موجود ہیں۔ یہ پرندوں، جانوروں، انسانوں اور جیومیٹری کی اشکال اور شبیہوں پر مشتمل ہیں۔ ان میں کچھ تو 1200 فٹ تک طویل ہیں۔ ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ شبیہیں ڈھائی ہزار سال قبل اس علاقے میں پنپنے والی ’’نازکا‘‘ تہذیب کے لوگوں نے بنائی تھیں۔ تاہم ان کوبنانے کے مقصد کے بارے میں ماہرین کی آراء مختلف ہیں جوبظاہر ابھی تک ٹھوس حقائق تک پہنچنے میں مددگار ثابت نہیں ہوئیں۔ ان اشکال کو زمین کے اوپری ہلکی رنگ دار چٹانوں میں لکیریں کھود کر زمین کی نچلی سطح کی گہرے رنگ والی چٹانوں کے رنگ نمایاں کرکے اجاگر کیا گیا ہے۔

ان کی دریافت کے ابتدائی دور سے ہی ان کو بنانے کے مقاصد کا کھوج لگانے کے لیے کوششیں شروع ہوگئیں اور مختلف نظریات سامنے آئے، جن میں سے ایک نظریہ یہ تھا کہ یہ خلائی مخلوق کی اڑن طشتریوں کو زمین پر بحفاظت اترنے کے لیے راہنمائی فراہم کرنے اور علاقے کی نشاندہی کے لیے بنائی گئی ہیں۔ دوسرا نظریہ یہ تھا کہ یہ علم نجوم کے حوالے سے بنائی گئی  ہیں یا ان کا تعلق فلکی اجرام کی گردش کے نظام الاوقات سے ہے۔  یہ تھا کہ یہ مذہبی علامتیں ہیں اور ان کے ذریعے دیوتاؤں سے مدد مانگی جاتی تھی۔

-6 ’’پاراکس کینڈیلابرا‘‘ (Paracas Candelabra)

یہ شبیہہ بھی ’’پیرو‘‘ (Peru) کی خلیج ’’پسکوبے‘‘ (Pisco Bay) کے جزیرہ نما علاقے کے ساحلوں پر کھو دی گئی ہے۔ اس کو ’’کینڈیلابرا آف دی اینڈیز‘‘ (Candelabra of the Andes بھی کہتے ہیں۔ گو یہ ’’نازکا لائنز‘‘ (Nazca Lines) کے مقابلے میں قدرے چھوٹی ہے تاہم یہ بھی انہیں کی طرح زمین میں 2 فٹ گہری لکیریں کھود کر بنائی گئی ہے اور تقریباً 595 فٹ طویل ہے۔ یہ شبیہہ ’’پاراکس‘‘ (Paracas) تہذیب سے منسوب ہے، جن کا زمانہ 200 قبل از مسیح کے لگ بھگ کا ہے۔

آرٹ کے اس نمونے کو بنانے کا مقصد بھی تاحال نامعلوم ہی ہے۔ مختلف ماہرین کا اس بارے میں الگ الگ نظریہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کو بنانے کا مقصد یہ تھا کہ بحری جہاز کے عملے کو سمندر میں 12 میل دور سے ہی دکھائی د ے جائے اور انھیں اندازہ ہو جائے کہ ساحل  آنے والاہے۔ کچھ محققین کے نزدیک یہ ’’ویرا کوچا‘‘ (Viracocha) نام دیوتا کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے بنائی گئی جو ’’انکا‘‘ (Inca) تہذیب میں تخلیق کا دیوتا مانا جاتا ہے، جبکہ چند ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ کہ یہ اس خطے میں پائے جانے والے ایک پودے کی شبیہہ ہے جس سے نشہ آور اشیا تیار کی جاتی تھیں۔

-7 ’’تھونس ہراکلیون‘‘ (Thonis Heracleion)

2700 برس پہلے یہ مصری بندرگاہ یعنی ’’تھونس ہراکلیون‘‘ بحر روم میں داخلے کا دروازہ سمجھی جاتی تھی، پھر گردش دوران میں یہ اہم شہر وقت کے دھندلکوں میں گم ہوگیا۔ ہزاروں سال بیت گئے اور بالآخر 2000ء میں غوطہ خوروں کے ایک گروہ کو سمندر میں اچانک کچھ قدیم دور کی چیزیں ملیں۔ مزید کھوج لگانے پر انہوں نے مصر کے ساحلوں کے قریب زیر سمندر دفن شدہ یہ پورا شہر دریافت کرلیا۔ یہ ایک مکمل شہر تھا جس میں پل تھے، 16 فٹ اونچے مجسّمے اس میں استعادہ تھے، جانور کی شکل والے پتھر کے تابوت جن میں ممیاں موجود تھیں۔ غرض دیگر بہت سے ایسے ہی قدیم عجائبات اس شہر میں موجود تھے۔ ماہرین آثار قدیمہ حیران تھے کہ آخر کیسے ایک پورے کا پورا شہر سمندر برد ہوگیا۔ ان کا اندازہ ہے کہ پہلی صدی عیسوی میں بیک وقت آنے والے سونامی، زلزلے اور سمندر کی سطح بلند ہونے سے اس جگہ کی مٹی پگھل کر دلدل میں تبدیل ہوگی اور اگلے 700 سال میں آہستہ آہستہ یہ پورا شہر مکمل طور پر زمین میں دھنس گیا اور اس علاقے میں سمندر در آیا۔

-8 ’’لائنر اے‘‘ (Linear A)

یونان کے جزیرے ’’کیریٹ‘‘ (Crete) اور آس پاس کے جزائر میں پنپنے والی قدیم تہذیب ’’منیوان‘‘ (Minoan) کے زیر اثر فروغ پانے والے دو طرز تحریر ’’لائنرA‘‘ اور ’’لائنرB‘‘ الگ الگ ہونے کے باوجود آپس میں ملتے جلتے ہیں مگر ماہرین ’’لائنر A‘‘ کے نام سے پہچانے جانے والی طرز تحریر کے متعلق ابھی بھی تذبذب کا شکر ہیں۔ یہ طرز تحریر 1800 تا 1450 قبل از مسیح میں رائج تھا۔ یونانی زبان کی بنیاد پر استوار ’’لائنرB‘‘ کو تو 1952ء میں سمجھ لیا گیا، جو حروف کی بجائے زیادہ تر نشانات پر مشتمل ہے لیکن اس کامیابی کے باوجود ’’لائنرA‘‘ کے طرز تحریر کو ماہرین ابھی تک سمجھنے اور پڑھنے سے قاصر ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ طرز تحریر مذہبی تحریروں کے لیے استعمال ہوتا تھا اور صرف مذہبی راہنما ہی اس کو پڑھ سکتے تھے۔

-9 ’’ڈاگو‘‘ (Dogu)

چکنی مٹی سے بنے انسانوں اور جانوروں کی شکلوں سے ملتے جلتے 10 تا 30 سینٹی میٹر اونچے یہ مجسّمے جاپان میں 14000 سے لے کر 400 سال قبل از مسیح میں بنائے جاتے تھے۔ یہ زمانہ جاپان کی تاریخ میں ’’جومون‘‘  (Jomon) دور کہلاتا ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ نے تقریباً 18000 مجسّمے دریافت کیے ہیں۔ مگر بات وہی ہے کہ ان کو بنانے کا مقصد ابھی تک سمجھ سے باہر ہے۔ ماہرین کا ایک طبقہ ان کو محض کھلونے قرار دیتا ہے جبکہ دوسروں کے نزدیک یہ کوئی مذہبی اہمیت رکھتے تھے۔ تاہم اصل بات ابھی تک صیغۂ راز میں ہی ہے۔

-10 ’’سکسے ہیوامن‘‘ (Sacsay Huaman)

ایک مرتبہ پھر براعظم جنوبی امریکہ کے ملک ’’پیرو‘‘ (Peru) کا ذکر کرتے ہیں جو اپنی ’’انکا‘‘ (Inca) تہذیب اور اس کے عجائبات کے لحاظ سے مالا مال ہے۔ ’’پیرو‘‘ کے مشہور شہر ’’کسکا‘‘ (Cusca) میں پتھروں کے چوکور ٹکڑوں سے بنا ہوا وسیع و عریض عمارتی ڈھانچہ بھی انہیں عجائبات میں سے ایک ہے جس کے بنانے کی وجہ سے ماہرین تاحال لاعلم ہیں۔ اس کی دریافت پر ماہرین آثار قدیمہ کا خیال تھا کہ شاید یہ کوئی قلعہ ہے لیکن بعد میں انہوں نے چند شواہد کی بنا پر اندازہ لگایا کہ یہ جگہ تقریبات منعقد کرنے کے لیے استعمال ہوتی تھی۔

وجہ استعمال چاہے کچھ بھی رہی ہو مگر یہ بات ماننے کی ہے کہ اس کا طرز تعمیر حیران کن ہے۔ کیونکہ ان پتھروں کو بہت خوبصورتی کے ساتھ کاٹ کر انتہائی مضبوطی سے ایک دوسرے پر جما جما کر یہ تعمیر کی گئی ہے اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان پتھروں کو جوڑنے کے لیے کوئی مسالحہ (یعنی سیمنٹ کی طرح کی کوئی چیز وغیرہ) بھی استعمال نہیں کیا گیا۔ اگرچہ یہ پتھر بہت آرام سے ایک دوسرے پر جمے ہوئے ہیں لیکن ان کی شکل ایک دوسرے سے مختلف ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسے تعمیر کرنے والوں نے کوئی خاص ڈیزائن تخلیق کرنے کے لیے مختلف شکلوں کے پتھر کاٹے اور ان سے اس کا یہ ڈیزائن بنایا۔ یاد رہے کہ اس دور کی ٹیکنالوجی کے لحاظ سے 100 ٹن تک وزن کے پتھروں کو اوپر اٹھانااور اس طرح ایک دوسرے پر جما کر کوئی چیز تعمیر کرنا بجائے خود ایک معمہ ہے کہ اس دور میں یہ کام کیسے سرانجام دیا گیا ہوگا ؟ کیونکہ یہ تعمیر 9 ویں سے لے کر 13 ویں صدی کے دوران کی گئی۔ اسی لیے ’’سکسے ہیوامن‘‘ ایک قدیم اور تاریخی اسرار اور عجوبہ ہے۔

ذیشان محمد بیگ
[email protected]

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔