چھوٹی بہنیں بھی کتنی معصوم ہوتی ہیں ناں

عبداللطیف ابو شامل  اتوار 11 نومبر 2018
پاگل یہ بال میں نے فیشن میں نہیں احتجاج کے لیے رکھے ہیں۔ فوٹو: فائل

پاگل یہ بال میں نے فیشن میں نہیں احتجاج کے لیے رکھے ہیں۔ فوٹو: فائل

قسط نمبر 20

آنسوؤں کی برسات تھم چکی تھی، برسات کوئی بھی ہو تھم ہی جاتی ہے، لیکن دیکھیے کیا یاد آگیا۔

وہ تو بارش کی طرح آیا، برس کر چل دیا
اُس نے کب دیکھا کہ کتنی دیر تک رویا شجر

ہاں ایسا ہوتا ہے۔ ماں جی تو ہَوا میں اُڑ رہی تھیں، میں نے انہیں بہت منع کیا کہ جو کچھ بھی موجود ہے، میں کھا لوں گا۔ نہیں جناب یہ مائیں کب مانتی ہیں، میں نے ذرا ضد کی کہ میں اب کوئی مہمان تو نہیں ہوں، بس آپ کوئی اہتمام نہیں کریں گی۔ جواب میں مجھے ڈانٹ سننے کے ساتھ خاموشی سے بیٹھ جانے کا حکم ملا۔ مرتا کیا نہ کرتا بس خاموشی اختیار کی کہ بتایا گیا ہے کہ جو خاموش رہا اس نے نجات پائی۔ میں نے آپ کو اپنی خوراک کا پہلے بھی بتایا تھا کہ کتنی ہے۔ جب میں نے اپنا مکان چھوڑا تھا تو کھانا پینا اور زندگی کی ساری آسائشوں کو بھی وہیں چھوڑا ہی نہیں تھا، انہیں بھول بھی چکا تھا۔

میری ایک رضاعی ماں کہتی ہیں جب گاؤں ہی چھوڑ دیا تو پھر اسے یاد رکھنے کا کیا جواز ہے، ہاں ماں بالکل درست کہتی ہیں۔ آج بھی میرے کھانے پینے کا حال ہے یہ کہ میری بیٹی جیسی بہو زرمینہ اکثر شکوہ کرتی ہے کہ ابّو آپ تو گُل مینہ جو میری چہیتی پوتی ہے اور اب ڈیڑھ برس کی ہے، سے بھی کم کھانا کھاتے ہیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ جو لوگ زیادہ کھانا کھائیں وہ اکثر بیماریوں کو خود دعوت دیتے ہیں کہ آئیے ہم آپ کے لیے چشم بہ راہ ہیں۔ ویسے بھی حکم ہے کہ کم کھائیں، کم سوئیں اور کم بولیں۔ میں نے ان پر عمل کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اپنی قینچی کی طرح چلنے والی زبان پر ہنوز قابو نہیں پاسکا۔

میری ایک اور رضائی ماں نے ایک دن مجھ سے کہا: اگر چُھری سونے کی بنی ہوئی ہو تو کیا اسے اپنے پیٹ میں گھونپ لیتے ہیں؟ مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا کہ میں سدا کا ناسمجھ اور بے وقوف ہوں، مجھے خاموش دیکھ کر انہوں نے مجھے سمجھایا کہ دیکھو اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر چُھری سونے سے بھی بنی ہوئی ہو تو اسے اپنے پیٹ میں اس لیے گھونپ لینا کہ وہ سونے کی ہے، پَرلے درجے کی حماقت ہے ناں کہ اس سے انسان زخمی ہوسکتا ہے، مر سکتا ہے، میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کھانا اچھا ہو تو زیادہ کھا کر اس سے اپنا پیٹ خراب نہیں کرنا چاہیے۔ جی مجھے سمجھ میں آگیا تھا۔ میں پھر پٹری سے اتر گیا ہوں کہ گم راہ جو ٹھہرا، سمجھ دار اور دانش مند انسان کو سیدھا چلنا چاہیے اور میں کملا دیوانہ احمق آدمی اِدھر اُدھر، دائیں بائیں، آگے پیچھے اور اوپر نیچے دیکھتا ہوا چلتا ہوں۔ چلیے اب واپس چلتے ہیں۔

صحن میں بچھے ہوئے ایک بڑے پلنگ جس کے پائے رنگین اور منقّش تھے پر میں اپنی بہنوں کے حصار میں بیٹھا ہوا تھا۔ کیا خوب صورت نام تھے ان کے واہ جی سبحان اﷲ! میمونہ، قُدسیہ، طاہرہ اور طیّبہ۔ گاؤں میں تو اس طرح کے نام نہیں ہوتے لیکن ان کے نام ان کے والد کے علم و دانش کے عکاس تھے۔

کہا جاتا ہے کہ ناموں کا بھی شخصیت پر اثر ہوتا ہے، ہاں بالکل درست ہے یہ بات، لیکن کچھ استثنا کے ساتھ۔ میمونہ اور قُدسیہ مجھ سے بڑی تھیں، طاہرہ میری ہم عمر ہوگی اور طیّبہ چھوٹی اور بہت چنچل۔ اس نے میرے بالوں سے کھیلنا شروع کردیا تھا، وہ میرے بالوں کی چُٹیا بناکر خوش ہورہی تھی۔ طاہرہ نے مجھ سے پوچھا: بھائی آپ نے کب سے بال نہیں کٹوائے۔ میں نے کہا معلوم نہیں کب سے۔ کیوں؟ اس کا سوال تھا۔ پیسے ہی نہیں ہیں میرے پاس کہ بال کٹواؤں۔ وہ تھوڑی پریشان ہوئی، اتنے میں میمونہ خاموشی سے اپنے کمرے میں چلی گئی اور واپس آکر میرے ہاتھ میں کچھ روپے رکھے۔ میں نے حیرانی سے پوچھا، یہ کیا ہے، کیا کروں اس کا۔ وہ مسکرائی اور کہا صبح اپنے بال کٹوا لینا۔

میں نے اسے بتایا کہ میں مذاق کر رہا تھا، بہت پیسے ہیں میرے پاس، یقین نہ آئے تو میرا سفری بیگ کھول کر دیکھ لیں۔ لیکن وہ بہ ضد تھیں کہ میں صبح اپنے بال کٹواؤں۔ آخر مجھے کہنا پڑا بہنیں بھائیوں کو پیسے نہیں دعائیں دیتی ہیں، اور بھائیوں کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنی بہنوں کا اپنی بیٹیوں کی طرح خیال رکھیں، رہی بات میرے بالوں کی تو میں اپنی گردن تو بہ خوشی کٹوا سکتا ہوں لیکن بال نہیں۔ وہ سب حیران ہوکر میری بات سن رہی تھیں کہ قدسیہ جو بہت کم گو تھی، نے سوال کیا۔ بھائی آپ بال کیوں نہیں کٹواتے۔ تب مجھے کہنا پڑا یہ بال میں نے فیشن میں نہیں احتجاج کے لیے رکھے ہیں۔ احتجاج کیوں؟ اس مرتبہ وہ بزرگ بھی حیران تھے، اس راز سے میں پھر کبھی پردہ اٹھاؤں گا، میں نے تو احتجاج میں رکھے تھے لیکن پھر میرے باباجی نے حکم دیا کہ اب اپنے بال مت کٹوانا، میں نے ان سے نہیں پوچھا کہ کیوں۔ طاہرہ نے پوچھا، کون ہیں آپ کے باباجی۔ بس ہیں ایک، چلو ہم پھر کبھی اس پر بات کریں گے۔

انسان کو آسائش و راحت ملے تو وہ اپنے رب کو بھول جاتا ہے، اور میں تو ہوں ہی کم ظرف۔ ماں کھانا بنا رہی تھیں اور میں اپنے بہنوں سے باتیں کرنے میں اتنا کھویا ہوا تھا کہ عشاء کی نماز کا خیال ہی نہیں رہا، میں کیا اور میری نماز کیا، لیکن پھر بھی۔ میں نے ان بزرگ جنہیں میں حکیم بابا کہنے لگا تھا، سے پوچھا، آپ نماز کے لیے کیوں نہیں گئے؟ بیٹا یہاں لوگ عشاء اور فجر کی نماز اپنے گھر پر ادا کرتے ہیں۔ کیوں! جب مسجد بھی قریب ہے تو پھر کیوں اپنے گھر پر نماز ادا کرتے ہیں۔

میرا سوال انہوں نے غور سے سنا اور پھر بولے: نمازی ویسے بھی کم ہیں اور جو ہیں وہ بوڑھے ہیں، اندھیرے میں ان کے لیے آنا مشکل ہوتا ہے اس لیے نہیں آتے۔ لیکن آپ تو جوان ہیں آپ کیوں نہیں جاتے۔ یہ سن کر وہ مسکرائے تو میں نے کہا چلیے مسجد چلتے ہیں، وہاں نماز ادا کریں گے۔ اب تو دیر ہوگئی بیٹا گھر میں ہی ادا کرلو، کل سے دیکھیں گے۔ لیکن میں مسجد جانے کے لیے کھڑا ہوچکا تھا، وہ میرے ساتھ نکلے۔ سناٹا، بالکل گُپ اندھیرا، کتّوں کی وحشت ناک آوازیں۔ مسجد پہنچ کے میں نے اذان دی اور پھر حکیم بابا نے نماز پڑھائی اور ہم واپس گھر آگئے۔ ہم صبح فجر کی نماز بھی مسجد میں ادا کریں گے، میں نے حکیم بابا سے کہا۔ ہاں ضرور اب سب نمازیں مسجد میں ہی ادا کریں گے ہوسکتا ہے باقی لوگ بھی آنے لگیں، انہوں نے کہا۔

دیسی گھی میں بنائے جانے والے کھانے کی خوش بُو سے گھر مہک رہا تھا لیکن اصل خوش بُو تو ماں جی کے پیار بھرے ہاتھوں کی تھی۔ ماں کے ہاتھوں کا کھانا بھی کیا خوش نصیبی ہے، اور اس وقت تو یہ خوش نصیبی اپنے مقدر پر اترانے لگتی ہے جب ماں اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹے کو کھانا کھلائے، واہ جی واہ، کیا بات ہے، شکر مالک کا احسان کہ مجھے یہ نصیب ہے۔ ماں جی تو سال بھر کا کھانا مجھے اسی وقت کھلانے پر تلی ہوئی تھیں، لاکھ منع کیا، لیکن وہ آخر ماں تھیں ناں۔ کچھ نہیں ہوتا حکیم جی تمہیں پھکی دے دیں گے، سب کچھ ہضم ہوجائے گا۔ اب اس دلیل کے بعد کیا کوئی جواز رہ جاتا ہے۔ ایسا سہانا وقت پَر لگا کر اڑتا ہے، بہت رات ہوچکی تھی، ماں نے ایک چارپائی کو اپنے پلنگ کے ساتھ لگایا، اس پر صاف ستھرا بستر لگا کر ایک اجلی چادر بچھائی اور پھر حکم دیا، چل میرا بیٹا اب سوتے ہیں، فجر میں تم نے مسجد بھی تو جانا ہے ناں۔ میں اپنے بستر پر دراز ہوا تو ماں نے میرا ہاتھ تھام لیا، نہ جانے کیا کیا پڑھتی رہیں اور مجھ پر پھونکتی رہیں۔

میں نے کہا بس آپ اب سو جائیں لیکن خاموشی سے وہ اپنا ورد وظیفہ جاری رکھے ہوئے تھیں، اور اشاروں سے مجھے سو جانے کا کہہ رہی تھیں۔ یہ مائیں بھی کیسی ہوتی ہیں ناں اور سارے جہاں کی مائیں، کوئی تخصیص نہیں، ماں چاہے کہیں کی ہو، کسی مذہب و ملت کی ہو، سب کی سب ایسی ہی ہوتی ہیں، لگتا ہے رب تعالٰی نے انہیں بہت خاص مٹی سے بنایا ہے۔ میں سوچ رہا تھا کیسی دنیا ہے یہ، اس میں ایسے لوگ نادر و کم یاب لوگ بھی بستے ہیں۔ کسی نے کچھ پوچھا ہی نہیں، کون ہو، کہاں سے آئے ہو، کیوں آئے ہو، کیا کرنے آئے ہو، بس نثار ہوگئے اور ایسے کہ مجسم ایثار ہوگئے۔ جائے امان گھر بھی ملا، ماں جی کے ساتھ بہنیں بھی ملیں، پس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔

ماں جی کی تسلی کے لیے میں نے آنکھیں میچی ہوئی تھیں، لیکن میں جاگ رہا تھا، میرا ہاتھ ماں جی کے ہاتھ میں تھا، میں نے اسے چھڑانے کی کوشش کی لیکن ان کی گرفت بہت مضبوط تھی، شاید انہیں میرے بچھڑنے کا ڈر تھا کہ سوتے ہوئے بھی میرا ہاتھ تھامے ہوئے تھیں، اور مائیں تو ویسے بھی اپنے بچوں کا ہاتھ تھامے رکھتی ہیں، ہم ہی ان کا ہاتھ جھٹک دیتے ہیں، بدنصیبی ہے یہ۔ رات ڈھل جاتی ہے، کیسی بھی ہو، اور سویرا اسے پسپا کردیتا ہے۔ میں نے ماں کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑایا، تو ان کی مدھر آواز سنائی دی، میرا بیٹا جاگ گیا۔ جی ماں جی میں جاگ گیا، جب کہ میری حالت یہ ہے کہ میں اب تک سویا ہوا ہوں، جاگ کر ہی نہیں دیتا۔ ماں جی نے لوٹے میں پانی بھرا اور مجھے وضو کرنے میں مدد کرنے لگیں، میں نے کہا بھی کہ میں آسانی سے کرلوں گا لیکن ماں، ماں ہوتی ہے، اپنا راحت و آرام تج دینے والی ایثار کیش۔ میں اور حکیم بابا مسجد پہنچے، میں نے اذان دی تو مجھے حافظ طاہر درویش یاد آئے، انہوں نے ہی مجھے اذان کا زیر و بم سکھایا تھا، میں جیون بھر انہیں یاد رکھوں گا، وہ تھے ہی ایسے۔ حکیم بابا نے نماز پڑھائی اور کچھ دیر وظیفہ کیا اور پھر ہم گھر آگئے۔ کبھی آپ نے کھیتوں کے درمیان فجر دیکھی ہے۔ واہ واہ جی پھر آپ واقعی دیدہ ور ہیں۔

کیسا سہانا منظر، دور تلک کھیت کھلیان، شجر اور ان پر بیٹھے ہوئے رنگا رنگ پرندے، اپنی اپنی بولیوں میں حمد باری تعالٰی کرتے ہوئے۔ نہیں میں قاصر ہوں، اس منظر کو بیان کرنے سے، آپ کو خود دیکھنا ہوگا یہ منظر، تبھی یہ آپ محسوس کر سکیں گے۔ گھر پہنچے تو ماں جی سمیت میری ساری بہنیں بہ آواز بلند تلاوت قرآن حکیم میں مصروف تھیں، ایسا لگ رہا تھا جیسے بہت سارے فرشتے اپنے مالک کا ترانۂ حمد پڑھ رہے ہوں، دلوں میں اتر جانے والا نغمۂ سکون و قرار۔ ہاں یہ ہوتی ہے جی تربیت۔

ماں جی نے مجھ پر پھونکا اور پھر پراٹھے بنانے لگیں، میں ان کے قریب بیٹھ کر انہیں دیکھنے لگا، دیسی گھی میں ترتراتے ہوئے لچھے دار پراٹھے، مکھن، شہد اور لسّی۔ ہم سب نے ناشتہ کیا، بل کہ ماں جی نے اپنے ہاتھوں سے کرایا، لیکن میں سوچ رہا تھا کہ چائے کہاں ہے جس کے بغیر میں چل ہی نہیں سکتا، دور تلک چائے کا نام و نشان نہیں تھا۔ مجھے خاموش دیکھ کر میمونہ نے کہا، بھائی آپ کیا سوچ رہے ہیں۔ طاہرہ نے گرہ لگائی بھائی کہیں گم ہیں۔ میں مسکرایا، کچھ دیر میں نے سوچا کہ مجھے اسی وقت کہہ دینا چاہیے اور میں نے آخر کہہ ہی دیا، ماں جی مجھے چائے چاہیے۔

سب ہنسنے لگے جیسے میں نے کوئی لطیفہ سنایا ہو۔ بیٹا چائے تو نہیں بنتی ہمارے ہاں، تمہیں بھی پرہیز کرنا ہوگا، یہ کوئی اچھی چیز تھوڑی ہے، صحت برباد ہوتی ہے اس سے۔ لیکن ماں جی میں تو نہیں چل سکتا چائے کے بغیر۔ اتنے میں حکیم دادا نے ماں جی سے کہا: کیوں تنگ کر رہی ہے اپنے بیٹے کو، ہم لوگ چائے نہیں پیتے، یہ تو پیتا ہے تو اسے بناکر دو۔ نہیں جی جب ہم نہیں پیتے تو یہ کیسے پیے گا، یہ ہم میں سے نہیں ہے کیا، چائے نہیں ملے گی اسے بس، آج چائے کی ضد پوری کردوں تو کل کوئی اور ضد پکڑ لے گا، نہیں بس چائے نہیں ملے گی۔ ماں جی نے اپنا فیصلہ سنادیا تھا جو میرے لیے کسی پھانسی کی سزا سے کم نہیں تھا۔ کچھ دیر تو میں خاموش رہا، میں سوچ  چکا تھا کہ اب مجھے کیا کرنا ہے۔

ٹھیک ہے ماں جی جیسے آپ کا حکم، نہیں پیوں گا چائے۔ دیکھا کتنا سوہنا ہے میرا بیٹا۔ ماں جی نے میری پیشانی چومی۔ اچھا جی اب میں چلا تم لوگ مزے کرو، حکیم بابا نے کہا۔ میں بھی آپ کے ساتھ چلتا ہوں۔ آج تم اپنے ماں بہنوں سے باتیں کرو، پھر کل سے چلنا میرے ساتھ، ویسے بھی بہت قریب ہے میرا مطب۔ میں نے چائے کے لیے سوچنا شروع کیا، اس موقع پر بہنیں ہی سب سے اچھی اور بااعتماد رازدار ثابت ہوتی ہیں۔ میں نے میمونہ سے کہا آپ تو میری سب سے اچھی بہن ہیں، میرا ایک کام کردیں۔ کیا کام اس نے پوچھا، مجھے چائے چاہیے۔ نہیں بالکل بھی نہیں، اماں نے منع کیا ہے ناں، اس نے مجھ سے بڑی ہونے کا فائدہ اٹھایا۔ اچھا صحیح ہے، چائے نہ ملی تو مجھے کچھ ہوجائے گا، میں نے اداس شکل بنا کر کہا۔ کچھ نہیں ہوتا، کچھ ہوا تب دیکھا جائے گا۔ میرا نشانہ ہمیشہ کی طرح خطا چلا گیا تھا۔ کچھ دیر بعد میں نے قدسیہ سے یہی کہا۔ اچھا آپ صبر سے رہیں، میں کوشش کروں گی، موقع ملا تو بنا دوں گی۔ قدسیہ کی ہامی سے امید کی کرن روشن ہوئی تھی، مگر صبر کہاں سے لاتا۔ تھوڑی دیر بعد ماں جی نے ہم سب سے کہا کہ وہ یہیں قریب کسی سے ملنے جارہی ہیں۔ بس وہی لمحہ تھا، جیسے ہی ماں جی باہر نکلیں، قدسیہ نے اپنے منصوبے پر کام شروع کیا۔

میں بھائی کے لیے چائے بنا رہی ہوں اور اگر کسی نے اماں سے شکایت کی تو اس کی خیر نہیں ہوگی۔ سب مسکرا رہی تھیں، طیبہ نے دھمکی دی کہ وہ ضرور بتائے گی۔ اچھا ضرور بتانا ماں جی کی مار کھانے کو میں ہر وقت تیار ہوں لیکن سوچ لو پھر میں تم سے کُٹّی ہوجاؤں گا۔ میری دھمکی کام کر گئی تھی جب وہ میرے پاس آکر کہنے لگی اچھا نہیں بتاؤں گی۔ چھوٹی بہنیں بھی کتنی معصوم ہوتی ہیں ناں، بالکل پاگل۔ اچانک مجھے خیال آیا کہ جب یہاں کوئی چائے پیتا ہی نہیں تو چائے کی پتی رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ میں نے قدسیہ جسے سب پیار سے قدسی کہتے تھے، سے یہ معمہ پوچھا تب اس نے انکشاف کیا کہ ابا اور ان کے دو دوست کبھی کبھار سوغات کے طور پر چائے پیتے ہیں۔ اس وقت سمجھ میں آیا کہ حکیم بابا نے میری سفارش کیوں کی تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔