کوچۂ سخن

عارف عزیز  اتوار 11 نومبر 2018
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل

غزل


پسند آجاتی دنیا کو نموداری ہماری
مگر وہ کیا کہ آئی ہی نہیں باری ہماری
اگر ہم ہوش کرتے تو جنوں باقی نہ رہتا
ہمیں نقصان دے جاتی سمجھ داری ہماری
تجھے ہنسنے نہیں دیں گے کبھی آنسو ہمارے
تجھے سونے نہیں دے گی یہ بیداری ہماری
فقط اس باغ سے تھی اپنی موسم بھر کی دوری
ہوئی ہے وقت سے پہلے گرفتاری ہماری
یہ تیرے نام پر ہم مارتے مرتے ہیں جیسے
کسی دن خود سے ہو جائے گی منہ ماری ہماری
ہمیں اک آنکھ نے کچھ اعتبار ایسا دیا ہے
کبھی بھی کم نہیں ہو گی یہ سرشاری ہماری
کئی دن تک ہم اپنے ساتھ بھی ملتے نہیں ہیں
تجھے اب کیا بتائیں، کیا ہے دشواری ہماری
(حسن ظہیر راجا، کہوٹہ، راول پنڈی)

۔۔۔
غزل


شہرِ دل پر کبھی تم نے بھی صدارت کی تھی
خامیوں پر مری ہر بار رعایت کی تھی
یاد رکھنا تجھے یہ فرض نہیں تھا مجھ پر
تیرا مقروض نہ تھا تجھ سے محبت کی تھی
بے وفائی، غم و رسوائی، پریشانی، گلہ
اس نے کس زندہ دلی سے یہ عنایت کی تھی
یہ صداقت جو ہے اب حرف و بیاں میں میرے
مدتوں اس کے لیے میں نے ریاضت کی تھی
چھوڑ کر جا نہیں سکتا کسی صورت میں وطن
اس کی خاطر مرے اجداد نے ہجرت کی تھی
وہ بچھڑ کر بھی رہا ویسا کا ویسا ہی سروش ؔ
دیکھ کر اہلِ جنوں نے اسے حیرت کی تھی
(نوید سروش، میر پور خاص)

۔۔۔
غزل


رنگ ظلمت کا ترے کردار پر تحریر ہے
غم مرا ہر شہر کی دیوار پر تحریر ہے
سہمی سہمی سی دبی سرگوشیاں، خاموش گھر
خوف کا عالم عجب اظہار پر تحریر ہے
وائے حیرت مانگتا ہے میری ہجرت کا ثبوت
قطرۂ خوں دیکھ نوکِ خار پر تحریر ہے
یہ ہمارے خواب کا یکسر نہیں ہے ترجماں
واقعہ جو صفحۂ اخبار پر تحریر ہے
آسماں پر ڈھونڈتے ہو اور منزل کا نشاں
پاؤں کے نیچے دبے انگار پر تحریر ہے
تو اگر نہ چاہتا تو خوش بھی رہ سکتا تھا میں
غم مرے دل میں ترے اصرار پر تحریر ہے
وہ گواہی دے گا ناصرؔ یہ قلم قرطاس پر
جو مزاجِ محرمِ افکار پر تحریر ہے
(ناصر انجم، کراچی)

۔۔۔
’’تمہید‘‘
تجھ کو معلوم کیا
یہ محبت نہایت کٹھن چیز ہے
ایک پتھر کی سل
دل کے مدفن پہ رکھی ہوئی
یاد کی بائیں ایڑھی میں گھستا ہوا کیل ہے
وقت کے گال پر ایک تھپڑ سے پڑتا ہوا نیل ہے
درد سے بلبلاتے رہیں
چار سمتوں سے اس کو بلاتے رہیں
چیخ لیں!
ایک مدت تلک ایک مجمع کو ہمدم بناتے رہیں
زخم کھاتے رہیں
(حنا عنبرین، لیہ)

۔۔۔
غزل


ہے گرچہ فکروفن کا دریچہ کھلا ہوا
لیکن قلم ہے خدشوں میں یکسر گھرا ہوا
گو اہتمامِ قتل پہ خوش تھے میرے رقیب
لیکن میں سوئے دار چلا ناچتا ہوا
میرے لہو کے نور سے روشن ہیں بام و در
ابھرا نہیں ہے آج بھی سورج تو کیا ہوا
ہے آرزوئے قرب تو بن کر ہوا مچل
جھونکا ہوا کا بات یہ کہہ کر ہوا ہُوا
فاروقؔ ان کے پاؤں کی ٹھوکر تھا میرا جسم
میں بھی تھا ان کی راہ میں پتھر پڑا ہوا
(رائے امتیاز فاروق، کمالیہ)

۔۔۔
غزل


گر چاہتے ہو فرش سے افلاک پہ رکھو
اک بار مجھے پھر سے ذرا چاک پہ رکھو
اک برف کی سل قلبِ پریشاں پہ اتارو
اک دشت مرے دیدۂ نمناک پہ رکھو
تم رمزِ شہادت کے معانی نہیں سمجھے
سر نوک کی سدرہ پہ، بدن خاک پہ رکھو
لازم ہے کہ چابک سے تراشو مرا پیکر؟
واجب ہے کہ تم ترش روی ناک پہ رکھو؟
پھر پشت پہ ہر خواب کی، زنجیر زنی ہو
جب شامِ غریباں مری پوشاک پہ رکھو
یوں قیس کے رتبے کی خبر ہونی ہے راہبؔ
صحرا کو اگر شانۂ تیراک پہ رکھو
(عمران راہب، بھکر)

۔۔۔
’’گزارش‘‘


شام کے گہرے سائے ہیں
پھیلی ایک اداسی ہے
اک میں ہوں
اک تیری یاد
اور اوپر مہتاب
اشکوں کی بھی بارش ہے
دل کی ایک گزارش ہے
آج کی رات
تم لوٹ آؤ
تم لوٹ آؤ
(نادیہ حسین، کراچی)

۔۔۔
غزل


تمہیں تو اب بھی لگے ہے کہ کچھ ہوا ہی نہیں
تو جھانک دیکھ ذرا مجھ میں کچھ رہا ہی نہیں
میں گنگناؤں تو کس دھن پہ گنگناؤں اسے
وہ سازِ زیست، وہ لے اور وہ فضا ہی نہیں
میں مر چکا ہوں بہت پہلے راکھ ہو بھی چکا
تمہارے شہر کی آتی یہاں ہوا ہی نہیں
سنو اے جِن و ملک خاک پھر نہ کہیو مجھے
ازل بھی نام ہے میرے فقط بقا ہی نہیں
جو پوچھتا ہے کہ یہ راکھ کیسی ہوتی ہے
وہ شخص جیسے کبھی شادؔ سے ملا ہی نہیں
(شاد مردانوی، کراچی)

۔۔۔
’’مسیحا‘‘
بہت دن سے
طبیعت میں
حرارت سی حرارت تھی
بدن یوں ٹوٹتا تھا ہجر کے بیمار کا جیسے
اسے جلتی زمیں پر پھینک کر نوکیلے پتھر سے
کئی ضربیں لگائی ہوں
مسیحا سے کہا، دیکھو!
ذرا سی دیر کو آؤ
ہمیں جلتے، سلگتے، ٹوٹتے بیمار لمحے میں
شفا کا لمس دے جاؤ
عجب انداز سے بولا
ذرا سا صبر تم کرلو
ذرا سا کرب تو سہہ لو
تمھیں اک دن سنواریں گے
مزے سے دیکھتے جاؤ
تمھیں تو ہم ہی ماریں گے
(سباس گل، رحیم یار خان)

۔۔۔

غزل


کیسی تقسیم تھی، سب ایک ہی گھر کے نکلے
تیرے دربار سے جو جھولیاں بھر کے نکلے
دشت کو روند کے دریاؤں کو بھی پار کیا
اپنے پاؤں تو کسی اور سفر کے نکلے
جن کی دستار کو میں چوم لیا کرتا تھا
وقت بدلا تو وہ دشمن مرے سر کے نکلے
ہم کو درکار تھی چھاؤں سو عطا کی اس نے
بعد میں لاکھ بھلے شجرے شجر کے نکلے
بکھری زلفوں سے چھپاتے ہوئے چہروں کے نقوش
گدڑیوں والے حسیں چاند نگر کے نکلے
بد دعا دیتے ہوئے اشک بہاتا تھا بہت
ہم ترے شہر کے مجذوب سے ڈر کے نکلے
ہائے وہ لوگ کفن کا جنہیں ٹکڑا نہ ملا
ہائے وہ لوگ جو زندان سے مر کے نکلے
(راکب مختار، شور کوٹ)

۔۔۔

نصیب

میں غمِ جہاں سے نڈھال ہوں کہ سراپا حزن و ملال ہوں
جو لکھے ہیں میرے نصیب میں وہ الم کسی کو خدا نہ دے
٭٭٭
ہزار مرتبہ بہتر ہے بادشاہی سے
اگر نصیب ترے کوچے کی گدائی ہو
٭٭٭
مت بختِ خفتہ پر مرے ہنس اے رقیب تو
ہوگا ترے نصیب بھی یہ خواب دیکھنا
٭٭٭
خدا کی دین ہے جس کو نصیب ہو جائے
ہر ایک دل کو غمِ جاوداں نہیں ملتا
٭٭٭
فراز ملتے ہیں غم بھی نصیب والوں کو
ہر اک کے ہاتھ کہاں یہ خزانے لگتے ہیں
٭٭٭
اک زندگی عمل کے لیے بھی نصیب ہو
یہ زندگی تو نیک ارادوں میں کٹ گئی
٭٭٭
وہ خوش نصیب تھے جنہیں اپنی خبر نہ تھی
یاں جب بھی آنکھ کھولیے اخبار دیکھیے
٭٭٭
نفس نفس پہ یہاں رحمتوں کی بارش ہے
ہے بد نصیب جسے زندگی نہ راس آئی
٭٭٭
میں نے سوالِ وصل جو ان سے کیا کبھی
بولے نصیب میں ہے تو ہو جائے گا کبھی
٭٭٭
ملتی ہے غم سے روح کو اک لذتِ حیات
جو غم نصیب ہے وہ بڑا خوش نصیب ہے
٭٭٭
آئیں ہیں وہ مزار پہ گھونگھٹ اتار کے
مجھ سے نصیب اچھے ہیں میرے مزار کے
٭٭٭
یوں باغباں نے مہر لگا دی زبان پر
رودادِ غم نصیب کے مارے نہ کہہ سکے
٭٭٭
خدا کسی کو گرفتار زلف کا نہ کرے
نصیب میں کسی کافر کے یہ بلا نہ کرے
٭٭٭
وہی آگ اپنا نصیب تھی کہ تمام عمر جلا کیے
جو لگائی تھی کبھی عشق نے وہی آگ دل میں بھری رہی
٭٭٭
کسی کے تم ہو کسی کا خدا ہے دنیا میں
مرے نصیب میں تم بھی نہیں خدا بھی نہیں
٭٭٭

آپ کا صفحہ
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے۔ قارئین! یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ، آپ کے تخیل سے مزین اور آپ کی پسند کے اشعار سے سجے گا۔ آپ ہمیں اپنی نظمیں، غزلیں اور کسی بھی موضوع پر پسندیدہ اشعار اپنی تصویر کے ساتھ بھیج سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔ ہمارا پتا ہے: روزنامہ ایکسپریس(سنڈے میگزین)،
5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی email:[email protected]

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔