بینش حیات؛ ہاکی امپائرنگ میں رول ماڈل پاکستانی خاتون

محمد یوسف انجم  ہفتہ 10 نومبر 2018
ورلڈکپ اور اولمپکس میں امپائرنگ کرنا خواب ہے، بینش حیات فوٹو: سوشل میڈیا

ورلڈکپ اور اولمپکس میں امپائرنگ کرنا خواب ہے، بینش حیات فوٹو: سوشل میڈیا

 لاہور: پاکستان کھلاڑی انٹرنیشنل ہاکی میں اپنا کھویا ہوا مقام پانے کی جستجو میں ہیں تو دوسری طرف امپائرنگ جیسے مشکل شعبے میں ایک ایسی پاکستانی خاتون ہیں جنہوں نے نہایت کم عرصے میں انٹرنیشنل ہاکی امپائرنگ میں ملک کانام روشن کیا ہے۔

لاہور سے تعلق رکھنے والی بینش حیات کا کہنا ہے کہ 2018 ان کے لیے بہت یادگار رہا۔ پہلے ہاکی پلیئر کے طورپر ملک کی نمائندگی کی اور اب امپائرنگ میں اتنی جلدی عزت اور شہرت مل چکی ہے، جس کا کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔بینش حیات نے 2003 سے 2011 تک بطور لیفٹ آؤٹ پاکستان کی طرف سے کھیلیں، پھر امپائرنگ میں قدم رکھا اور اس کو بطور امتحان سمجھ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اگر محنت ، ایماندار، سچی لگن کے ساتھ پاکستانی خواتین کسی بھی شعبے میں کام کریں تو منزل مل سکتی ہے۔

ایف آئی ایچ کوالیفائیڈ امپائر بینش حیات نے 2018 میں ایشین گیمز سمیت ایشین گیمز کوالفیائنگ ٹورنامنٹ اور سنگاپور ہاکی سیریز کے 14 میچز سپروائز کرنے کا اعزاز حاصل کیا، وہ اب تک مجوعی طور پر 44 انٹرنیشنل میچز میں امپائرنگ کی ذمہ داریاں نبھاچکی ہیں۔ 2018 میں بینش نے ایف آئی ایچ ٹرین فار دی ٹرینر کوچنگ کورس میں شرکت کی اور عمدہ کارکردگی پر انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن نے انہیں پرومسنگ امپائر کیٹگری میں اپ گریڈ کردیا۔

ایشیاکپ، ورلڈکپ اور اولمپکس مقابلوں میں امپائرنگ کی اہل بینش حیات کہتی ہیں کہ ” 2018 میں میرے کیے گئے فیصلوں کو بہت سراہا گیا، اب خواہش ہےکہ اس شعبے میں مزید محنت کرکے 2019 میں بہترین خاتون امپائَر کا ایوارڈ اپنے نام کروں۔ میدان میں گیند کی موومنٹ کے ساتھ ہروقت بھاگنا ، گیند اور کھلاڑیوں کی ہر حرکت پر نظر رکھنا آسان کام نہیں۔ مشکل اس وقت ہوتی ہے جب کسی امپائر کو قوانین سے مکمل آگاہی نہ ہو، وہ بغیر تیاری میچ کھیلا رہا ہوں۔ آپ کو اپنے کام پر مہارت ہوگی تو پھر مشکل نہیں ہوتی۔ میچ کے دوران درست وسل کرنا ایک اہم ذمہ داری ہے، جس کو پورا کرنے کی ہر امپائر کوشش کرتا ہے۔”

کرکٹ کے بعد اب ہاکی میں بھی تھرڈ امپائِر یعنی ٹی وی ریفری متعارف ہوچکا ہے، اس ریفرل سسٹم کے پریشر کے سوال پر بینش نے کچھ یوں موقف پیش کیا “میچ کے دوران کوشش ہوتی ہے کہ ہر فیصلہ میرٹ اور قوانین کے تحت ہو، انسان ہیں، کبھی کبھار اتنی تیزی سے چیزیں ہوجاتی ہے کہ اوورلک ہوجاتی ہیں، ریفرل سسٹم سے دونوں ٹیموں کو بہتر فیصلوں میں مدد دینا ہے،بطور امپائر اگر آپ اپنے فیصلے پر مطمئن ہیں تو پھر ٹیموں کے چیلنج کرنے کے باوجود کوئی فکر نہیں ہوتی۔ ٹی وی ریفری اگر آپ کے فیصلے کو برقرار رکھے تو خوشی ہوتی ہے اور اعتماد میں اضافہ ہوتاہے، اگر خدانخواستہ فیصلہ واپس لینا پڑے تو پھر بھی کوئی ٹینشن نہیں ہوتی۔ اس سے سیکھنے کو ملتا ہے تاکہ اگلی بار غلطی نہ ہو۔”

بینش حیات کا کہنا ہے کہ میراسب سے بڑا خواب ورلڈکپ اور اولمپکس میں خواتین کے میچز میں امپائرنگ کرکے تاریخ میں نام درج کراناہے تاکہ جب بھی امپائرنگ کا ذکر ہوتو پاکستان کا نام ضرور لیا جائے۔ خود کو فٹ رکھنے کےلیے روز گراونڈ جانا معمول ہے، امپائرنگ اتنی آسان نہیں، جتنی لوگ سمجھتے ہیں، اس کے لیے بہت زیادہ محنت اور فوکس رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی بھی لمحے ریلیکس نہیں کرسکتے۔ سب کی نظریں آپ کی طرف ہوتی ہے اور امپائر کی ایک وسل پر ٹیموں کی ہار جیت اور ان کا مستقبل ہوتا ہے،اس لیے کوشش ہوتی ہے تو جب میچ ختم ہو، سب تعریف کریں۔

لاہوری گولڈن گرل کی اب تک ایف آئی ایچ کے ویمنز کے تمام اہم ایونٹس میں تقرری ہوچکی ہے، ان کا ڈیبیو ایونٹ 2013 میں ایشین چیلنج کپ تھا، جس کے بعد انہوں نے ایشین گیمز کوالیفائنگ ، جونیئر ایشیا کپ، ساؤتھ ایشین گیمز ،ویمنز اے ایچ ایف کپ، سی گیمز، ویمنز ایشین گیمز کوالیفائر، ہاکی سیریز اوپن، اور ایشین گیمز جکارتہ میں فرائض انجام دے کر ملک کی نیک نامی میں اضافہ کیاہے۔

بینش حیات کے نزدیک امپائرنگ میں مقام پانے کے لیے فٹنس، چابکدستی، ذہانت، بروقت فیصلہ کرنے کی قوت بہت لازمی ہے، اس کے بغیر ایک اچھے امپائر کے طورپر نام نہیں کمایا جاسکتا۔ پاکستان میں بہت سی ایسی لڑکیاں ہیں، جو امپائرنگ اور ٹیکنیکل آفیشلز بن کر ملک کی پہچان بنانا چاہتی ہیں، کوشش ہے کہ ان لڑکیوں کی ڈویلپمنٹ پر کام کیاجائے، اس کے لیے والدین کے ساتھ ہاکی فیڈریشن کی سپورٹ بہت ضروری ہے، پی ایچ ایف حکام نے آگے بڑھنے میں میری بہت معاونت کی ہے، اس پر مزید توجہ دے کر ہم ویمنز کیٹگری میں زیادہ کام کرسکتے ہیں۔

لڑکیوں کے لیے رول ماڈل امپائر نے لاہور کے پسماندہ علاقے برکی روڈ پر ایک ہاکی اکیڈمی بھی بنارکھی ہے، جہاں چالیس کے قریب چودہ سال سے کم عمر بچیاں زیر تربیت ہیں۔ ان بچیوں کے والدین بہت غریب ہیں، زیادہ تر اکیڈمی کی بچیاں اپنے والدین کے ساتھ کھیتوں میں کام کرتی ہیں، پھر وہ اکیڈمی آکر کھیلتی ہیں، جہاں ان کو مفت یونیفارم ، شوز اور کوچنگ فراہم کی جاتی ہے، اس حوالے سے بینش کا کہنا ہے کہ میرا یقین ہے کہ پاکستانی بچیوں میں بہت ٹیلنٹ ہے، درست ڈائریکشن دےکر ان سے ملک کی تعمیر وترقی میں بہت مدد لی جاسکتی ہے۔

بینش نے اس مقام تک پہنچانے میں سپورٹ کرنے پر پاکستان ہاکی فیڈرےشن، توقیر ڈار اکیڈمی ، کوچ رانا ظہیر اور ان کی ٹیم کے ساتھ ایشین ہاکی فیڈریشن حکام کا شکریہ ادا کیا ہے اور کہا کہ اگر ان کا تعاون نہ ہوتا تو ملک کا نام میں روشن کرنے کا خواب پورا نہیں ہوسکتا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔