- ملک بھر میں خواتین ججز کی تعداد 572 ہے، لاء اینڈ جسٹس کمیشن
- امریکی فوجی نے ایک دھڑ اور 2 سر والی بہنوں سے شادی کرلی
- وزیراعظم نے سرکاری تقریبات میں پروٹوکول کیلیے سرخ قالین پر پابندی لگادی
- معیشت کی بہتری کیلیے سیاسی و انتظامی دباؤبرداشت نہیں کریں گے، وزیراعظم
- تربت حملے پر بھارت کا بے بنیاد پروپیگنڈا بے نقاب
- جنوبی افریقا میں ایسٹر تقریب میں جانے والی بس پل سے الٹ گئی؛ 45 ہلاکتیں
- پاکستانی ٹیم میں 5 کپتان! مگر کیسے؟
- پختونخوا کابینہ؛ ایک ارب 15 کروڑ روپے کا عید پیکیج منظور
- اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی رہنما کو عمرے پرجانے کی اجازت دے دی
- مشترکہ مفادات کونسل کی تشکیل نو، پہلی بار وزیر خزانہ کی جگہ وزیر خارجہ شامل
- پنجاب گرمی کی لپیٹ میں، آج اور کل گرج چمک کیساتھ بارش کا امکان
- لاہور میں بچے کو زنجیر سے باندھ کر تشدد کرنے کی ویڈیو وائرل، ملزمان گرفتار
- پشاور؛ بس سے 2 ہزار کلو سے زیادہ مضر صحت گوشت و دیگر اشیا برآمد
- وزیراعلیٰ پنجاب نے نوازشریف کسان کارڈ کی منظوری دے دی
- بھارتی فوجی نے کلکتہ ایئرپورٹ پر خود کو گولی مار کر خودکشی کرلی
- چائلڈ میرج اور تعلیم کا حق
- بلوچستان؛ ایف آئی اے کا کریک ڈاؤن، بڑی تعداد میں جعلی ادویات برآمد
- قومی ٹیم کی کپتانی! حتمی فیصلہ آج متوقع
- پی ایس 80 دادو کے ضمنی انتخاب میں پی پی امیدوار بلامقابلہ کامیاب
- کپتان کی تبدیلی کیلئے چیئرمین پی سی بی کی زیر صدارت اہم اجلاس
ترقی یافتہ اور پسماندہ ممالک میں شرح پیدائش کا تفاوت
ترقی پذیر ملکوں میں بچوں کی پیدائش کی شرح میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے جب کہ امیر ممالک میں شرح پیدائش کم ہے۔ اس کے نتیجے میں ترقی یافتہ ملکوں میں آبادی کا توازن خراب ہو رہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں بوڑھوں کی تعداد بہت زیادہ بڑھ رہی ہے جب کہ ان اقوام کے جسم میں نوزائیدہ بچوں کی صورت میں نیا خون بہت کم داخل ہو رہا ہے ۔
اس صورتحال سے ترقی یافتہ ممالک کے پالیسی ساز فکر مند ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کو آبادی کے ایٹم بم سے تشبیہ دیتے ہیں۔ انھیں یہ خوف بھی لاحق ہے کہ آنے والے وقت میں غریب ملکوںمیں بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث وہاں سے نقل مکانی بڑھے گی اور لوگ ترقی یافتہ ممالک کا رخ کریں گے جس سے مقامی نسلیں اقلیت میں تبدیل ہوسکتی ہیں۔
اس لیے ان کا ترقی یافتہ ملکوں کا خیال ہے کہاگر وہ اپنی آبادی بڑھانے میں کامیاب نہیں ہو سکتے تو کم ازکم پسماندہ ملکوں کو مزید بچے پیدا کرنے سے کسی نہ کسی طریقے سے روک دیا جائے مگر انھیں اس میں بھی کوئی نمایاں کامیابی نہیں ہو سکی۔
امیر ممالک شرح پیدائش میں اضافے کے لیے اپنے شہریوں کوپرکشش ترغیبات دے رہے ہیں، ان میں بچہ پیدا کرنے والی عورت کو پورے سال کی تنخواہ اور دیگر تمام مراعات ملتی رہتی ہیں جب کہ نوزائیدہ بچے کے باپ کو بھی تنخواہ سمیت تین مہینے کی چھٹی کی سہولت موجود ہے تا کہ وہ ابتدائی ایام میں بچے کی پرورش میں اپنی بیوی کا ہاتھ بٹا سکے۔ بہرحال آبادی میں اضافے کا ایشو ہمیشہ سے زیر بحث ہے۔
امیر اور غریب ملکوں کے چکر سے نکل کر کرہ ارض کو دیکھیں تو یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے ، بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث کرہ ارض کا ماحول تبدیل ہورہا ہے، اس پر ایٹمی اور کیمیاوی ہتھیاروں اور گیسیز کے تجربات نے مسائل پیدا کیے ہیں ۔ وقت کا تقاضا ہے کہ آج کا انسان وقت کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر سوچے اور کرہ ارض اور اس پر بسنے والے انسانوں اورماحول کی بقا کے لیے پالیساں بنائے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔