دنیا کا سب سے بڑا دکھ

شاہد سردار  اتوار 11 نومبر 2018

دنیا میں اولاد کو انسان کے لیے سب سے اچھی نعمت کہا جاتا ہے، جو اللہ کی طرف سے اسے ملتی ہے لیکن اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اولاد کا دکھ دنیا کا سب سے بڑا دکھ ہوتا ہے۔اولاد کو والدین کا امتحان بھی کہا جاتا ہے اور آج ہمارے معاشرے کے 80 فیصد گھرانوں میں یہ امتحان والدین کے لیے عذاب بنا ہوا ہے اور وہ اسے خون جگر سے دے رہے ہیں۔ اسی لیے نافرمان یا سرکش اولادوں کے عذاب سے بچنے کی دعائیں مساجد میں مانگی جا رہی ہیں۔

ایک وقت تھا کہ خونی رشتوں کا بڑا مان بڑا احترام ہوتا تھا مگر افسوس کہ اب رشتوں کا خون ہوتا ہے اور ہر دوسرا ہاتھ اس کرہ ارض پر کسی نہ کسی کے خون سے رنگا ہوا ہے۔ مشاہدہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں والدین اپنی اولادوں کے ہاتھوں بہت ارزاں اور بہت سطحی ہوگئے ہیں اور ان کے بچے ان سے محبت کرنا تو درکنار ان کی عزت تک کرنے پر تیار نہیں ہیں۔

ابن الوقتی و مطلب براری، حرص و ہوس، افراتفری اور نفسانفسی نے اپنوں کو پرائے میں بدل دیا ہے۔ اب بزرگوں یا والدین کے لیے نئی نسل یا ان کی اولادوں کے پاس نہ وقت رہا ، نہ ان کی اہمیت رہی، نہ ان کی عزت رہی اور نہ ہی ان کا احترام۔ اب تو جوان لڑکے اور لڑکیاں تک والدین کے سامنے سینہ ٹھونک کر ان کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اصل میں انسانی حقوق کے لیے انسان ہونا بنیادی شرط ہوتی ہے اور آج کے دور میں انسان صرف آدمی بن کر رہ گیا ہے۔

ماضی میں مادر علمی درسگاہوں کو کہا اور سمجھا جاتا تھا اور اساتذہ کو باپ کا درجہ حاصل تھا جو انھیں تعلیم و تربیت کے ساتھ رشتوں کی اہمیت اور ان کا احترام بھی سکھاتا تھا لیکن معاشرتی زبوں حالی کی وجہ سے ہمارے تعلیمی ادارے درسگاہوں کی بجائے ٹیوشن سینٹر اور تجارتی مراکز بن چکے ہیں۔ اساتذہ طلبا کی ذہنی تربیت اور اصلاح کی بجائے پیسے بنانے اور کمانے کی مشین بن چکے ہیں اور خود ان (استاد کا) دامن ہر قسم کی اخلاقی قدروں، علم کی تشنگی اور تربیت کی خواہش سے خالی ہوچکا ہے۔ یہ ہے ہمارا وہ معاشرتی منظر نامہ جو ہماری اور آپ سبھی کی نگاہوں کے سامنے ایک تھرا دینے والی حقیقت بن کر موجود ہے اور جس کی سزا ہم اور ہماری آیندہ نسلیں بھگتیں گی۔

یہ بجا کہ مکان ریت، سیمنٹ، بلاک اور لوہے وغیرہ سے بنتے ہیں لیکن گھر صرف اور صرف رشتوں سے قائم رہتا اور روشن ہوتا ہے اور گھر محض اپنی ڈیکوریشن، خوبصورت یا کشادگی سے اچھے یا خوش نما نہیں لگتے بلکہ ان میں رہنے والے رشتوں اور ان کے احترام سے اچھے اور دلکش لگتے ہیں اور ہمیشہ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ غلط صرف ایک صفحہ ہوتی ہے، مگر رشتہ پوری کتاب ہوتا ہے اورکبھی بھی کسی کو بھی یہ کتاب خراب نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن کیا ہے کہ ہم انسان شاید دوسرے انسانوں سے زیادہ بے بس ہیں یہاں خوشیوں کے لیے سازشیں کرنا پڑتی ہیں اور محبتوں کے لیے لڑائیاں۔ یہاں رشتے منافقتوں پر پلتے ہیں اور دوستی غرض کے لیے۔

قرآن، اللہ ، رسول اور ہمارا مذہب سبھی والدین کی اہمیت اور اطاعت پر زور دیتے ہیں اور والدین کی ناراضگی یا نافرمانی خدا کی ناراضگی سمجھی جاتی ہے لیکن 80 فیصد سے زائد اولادیں ہمارے معاشرے ہمارے گھروں یا اردگرد ایسی ہیں جنھیں اس فرمان سے کچھ لینا دینا نہیں۔ شاید اس لیے بھی کہ جو لوگ اپنے لیے جینا چاہتے ہیں انھیں کسی کی فکر نہیں ہوتی۔ ماں باپ سے حالانکہ منہ موڑنے کا مطلب قدرت سے منہ موڑنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ جیتے جی والدین کو ان کی اولادیں چھوڑ جاتی ہیں بیشتر تو دکھ تکلیف تک میں انھیں دیکھنے کی روادار نہیں ہوتیں لیکن جب اولاد کو باپ کے سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے تو فلیٹ خریدنا ہے، زمین خریدنی ہے، کاروبار کرنا ہے، پیسے کم پڑ رہے ہیں، دے دیں کے مطالبات اولادوں کے منہ سے نکل رہے ہوتے ہیں اور والدین کو چونکہ اللہ کی طرف سے قناعت پسندی کی عادت ملی ہوتی ہے اس لیے وہ جو بن پڑتا ہے اس اولاد کو دے دیتے ہیں صرف اپنے بیوی بچوں کا ہی بن کر رہ گیا ہوتا ہے۔ بعض اولادیں والدین کا مرا ہوا منہ تک دیکھنے نہیں آتے، نہ ان کے جنازے کو کاندھا دیتے ہیں لیکن باپ کی جائیداد میں سے حصہ لینے کے لیے وہ ایک دن ضرور پہنچ جاتے ہیں۔

اولاد لاکھ خدا کی دی ہوئی نعمت کیوں نہ سہی لیکن جب یہ زحمت بنتی ہے تو اچھا بھلا انسان اس زحمت کا تذکرہ تک کسی سے نہیں کرسکتا۔ اس لیے کہ اپنی اولاد کی برائی والدین کی اپنی برہنگی ہوتی ہے اور یہی وہ ناقابل تلافی دکھ ہوتا ہے جو والدین کو روز بروز موت سے قریب کرتا جاتا ہے۔ اولاد پر سب سے زیادہ حق ماں باپ کا ہوتا ہے لیکن لڑکے کے سسرال والے کہتے ہیں کہ اس پر سب سے زیادہ حق اس کی بیوی اور اس کے بچوں کا ہے۔

ایسا سن کر یا ایسی سچویشن پر بے اختیار یہ خیال آتا ہے کہ زندگی میں سبھی رشتے اپنے بن کر نہیں آتے کچھ لوگ سبق بن کر بھی آتے ہیں۔ ویسے بھی چھوڑنے والے چھوڑ ہی جاتے ہیں، چاہے مقام کوئی بھی ہو، جواز یا بہانہ کیسا ہی کیوں نہ ہو اور نبھانے والے نبھاتے ہیں حالات چاہے جیسے ہی کیوں نہ ہوں۔ تاہم خاکی انسان غیروں سے ملی عزت اور اپنوں سے ملے دکھ کبھی نہیں بھولتا ۔

زندگی میں ویسے بھی لوگوں سے ایک اچھا سبق یہ بھی ملتا ہے کہ جن کو ہم جتنا خاص کرتے جاتے ہیں ان کے لیے ہم اتنے ہی عام ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یہ بجا یہ درست کہ رشتے اور راستے زندگی کے دو اہم پہلو ہوتے ہیں کبھی کبھی رشتے نبھاتے نبھاتے راستے کھو جاتے ہیں اور کبھی راستوں میں چلتے چلتے رشتے بن جاتے ہیں، کسی کو رشتے راس آجاتے ہیں اور کسی کو راستے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ راستوں کے دکھ برداشت ہوجاتے ہیں لیکن رشتوں خاص طور پر اولادوں کی طرف سے ملے دکھ کبھی برداشت نہیں ہوتے اورکینسر کی طرح آہستہ آہستہ پورے وجود کو کھا کر اسے بالآخر پیوند خاک کرکے ہی چھوڑتے ہیں۔

اور سب سے بڑی بات اس ضمن میں یہ ہے کہ والدین ہوں یا پھر کوئی اور کبھی کبھی کوئی رشتہ آزمائش بن جاتا ہے اور اس رشتے کی زندگی انسان کو اپنی خوشیاں دے کر بچانی پڑتی ہے۔ کاش ! ہماری نئی نسل جس نے خود کو صرف ’’اسکرینوں‘‘ کے حوالے کردیا ہے وہ ایک لمحے کو یہ سوچے کہ جب ’’غلط پاس ورڈ‘‘ سے موبائل فون کا لاک نہیں کھلتا تو پھر غلط طریقہ زندگی سے جنت کے دروازے کیسے کھل سکتے ہیں؟ والدین سے صرف نظر کرنے والی اولادوں کو یہ بات بھی اپنی گرہ میں باندھ لینی چاہیے کہ کبھی کبھی معافی وہ کھوٹا سکہ بن جاتی ہے جو نہ دینے والے کے کام آتی ہے اور نہ لینے والے کے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔