مصیبتوں کے بچے

آفتاب احمد خانزادہ  اتوار 11 نومبر 2018
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

آئیں! معروف نفسیات ڈان آر ڈی لیننگ کے اقتباس کو پڑھیں، سوچیں اور پھر پڑھیں ۔’’ہمارے سوچنے اور عمل کرنے کی وسعت اس لیے محدود ہوجاتی ہے کہ ہم اندازہ لگانے میں ناکام رہتے ہیں چونکہ ہم یہ بات سمجھنے میں بھی ناکام رہتے ہیں کہ ہم اندازہ لگانے میں ناکام رہے ہیں، چنانچہ ہم تبدیل ہونے کے لیے جوکچھ کرسکتے ہیں وہ معمولی ہوتا ہے جب تک ہمیں یہ معلوم نہ ہو کہ ہم اندازہ لگانے میں کیوں ناکام رہے ہیں ، ہم اپنے خیالات اور افعال کو بہتر شکل نہیں دے سکتے‘‘ ذہنی طور پر آج ہم اسی مقام پر کھڑے ہوئے ہیں جہاں بنی اسرائیل اپنی ہجرت کے فوراً بعد پہنچے تھے۔ ہم ماضی اور حال کو توکوس رہے ہیں لیکن کسی نئی تعمیرکا نقشہ ہمارے ذہن میں موجود ہی نہیں ہے، ہم ہر بات کا اندازہ لگانے میں مکمل ناکام رہے ہیں ہمیں تو یہ بھی اندازہ نہیں تھا کہ مصیبت بانجھ نہیں ہوتی ہے اور جب یہ آدھمکتی ہے تو پھر اپنے بچے دینا شروع کردیتی ہے اور پھر ایک روز آپ کے آنگن میں چاروں طرف اس کے بچے اچھل کود کررہے ہوتے ہیں اورپھر آپ روز یہ سوچتے ہیں کہ کل ان سے نمٹ لوں گا لیکن وہ کل کبھی نہیں آتی ہے اور مصیبت اور اس کے بچے پھر آپ سے خوب نمٹ رہے ہوتے ہیں ۔

جب دو آئینے ایک دوسرے کے سامنے رکھ دیے جاتے ہیں تو عکسوں کا ایک لامتناہی سلسلہ بنتے چلا جاتا ہے،کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ آخری عکس کونسا ہے۔ اسی طرح جب مصیبت ایک دفعہ بچے دے دیتی ہے تو پھرکوئی نہیں بتاسکتا کہ آخری بچہ کونسا ہے؟ ایسا کیجیے آپ ایک چھوٹا سا تجربہ کرکے دیکھ لیجیے، پہلے روز سے لے کر آج تک کی اپنی ساری مصیبتوں کی فہرست بنانا شروع کردیجیے ۔ پھر آپ جیسے جیسے آگے بڑھتے جائیں گے بس آگے ہی آگے بڑھتے رہیں گے اور مصیبتوں کے آخری بچے تک زندگی بھر نہیں پہنچ پائیں گے، آپ جس کو چاہیں کوستے رہیں چاہے تقریر کرنیوالے کو یا تقریر نہ کرنیوالے کو یا تقریر کرنے کا سو چنے والے کو آپ کا کوسنا یا ناکوسنا دونوں برابر ہے کیونکہ دنوں ہی صورت میں کچھ بھی بدلنے والا نہیں ہے اور جب تک آپ پیچھے مڑکر دیکھیں گے مصیبت اور نئے بچے دے چکی ہوگی ۔

دنیا بھرکے تمام فلسفی اور نفسیات دان اس بات پر متفق ہیں کہ جب ہم اپنی سوچ بدل لیتے ہیں تو اپنی دنیا تبدیل کرلیتے ہیں۔ مصر کے سابق مرحوم صدر انور سادات نے کہا تھا ’’جو شخص اپنی سوچوں کے تانے بانے کو تبدیل نہیں کرسکتا وہ کبھی بھی حقیقت کو تبدیل نہیں کرسکتا، چنانچہ کبھی بھی کوئی پیش رفت نہیں کرسکتا ‘‘۔اسرائیل کے بارے میں اپنی سو چ میں تبدیلی لانے سے پہلے سادات ایک مقبول ترین صدر اور عرب کاز کے سرگرم کا رکن بن چکے تھے انھوں نے مصر بھر کا دورہ کیا اور اپنی سیاسی تقریروں میںکہتے رہے جبتک مصرکی ایک انچ سر زمین بھی اسرائیل کے قبضے میں ہے، میں کبھی بھی اسرائیل سے دوستی کا ہاتھ نہیں ملائوں گا کبھی نہیں ،کبھی نہیں ۔ ان کے جلسوں میں موجود بے پناہ ہجوم چلا اٹھتا کبھی نہیں ۔کبھی نہیں ۔

نامور ادیب سٹیفن آر کو وے لکھتے ہیں۔ ہم نے انور سادات کی بیوی جیہان سادات کو اپنے ایک انٹرنیشنل سمپوزیم میں خصوصی مقررکی حیثیت سے مدعوکیا، مجھے بیگم سادات کے ساتھ لنچ کرنے کا اعزاز حاصل ہوا میں نے ان سے پوچھا ’’انور سادات کے ساتھ زندگی گذارنے کا تجربہ کیسا رہا ،بالخصو ص اس وقت کیفیت کیا تھی جب انھوں نے امن کے لیے جرأت مندی سے قدم اٹھاتے ہوئے یروشلم کے یہودی معبدکا دورہ کیا اور اس پیش رفت کوکیمپ ڈیوڈ میں حتمی صورت دی ‘‘ بیگم سادات نے کہا ’’میرے لیے یقین کرنا مشکل تھا کہ ان کی سوچ میں اس طرح کی بنیادی تبدیلی آچکی ہے میں نے سرکاری رہائش گاہ میں ان سے ملتے ہی پوچھا۔میرا خیال ہے آپ اسرائیل جانے کے بارے میں سوچ رہے ہیں کیا یہ درست ہے ‘‘ ’’ہاں ‘‘ ’’اسرائیل کے خلاف اتناکچھ بولنے کے بعد آپ یہ کیسے کرسکتے ہیں ‘‘’’میں غلط تھا اور اب جوکرنے والاہوں درست ہے ‘‘۔ ’’آپ قیادت بھی کھو دیں گے اور عرب دنیا کی حمایت بھی‘‘۔ ’’ ایسا ہو تو سکتا ہے لیکن میں نہیں سمجھتا کہ ایسا ہوگا ‘‘ ۔

’’آپ سے اپنے ملک کی صدارت بھی چھین لی جائے گی ‘‘ ۔’’ ہاں ۔ایسا بھی ہوسکتا ہے‘‘ ۔’’ آپ کی زندگی بھی جاسکتی ہے‘‘ ( سب جانتے ہیں بعد میں ایسا ہی ہوا)’’ میری زندگی نوشتہ تقدیر ہے اس میں نہ تو ایک لمحے کااضافہ ہوسکتا ہے اور نہ ایک لمحے کی کمی ‘‘ بیگم جیہان سادات کا کہنا ہے کہ میں وفور جذبات سے ان سے لپٹ گئی اور کہا آپ بلاشبہ عظیم انسان ہیں‘‘ میں نے بیگم جیہان سادات سے پوچھا کہ اسرائیل سے واپسی پہ کیا صورت حال تھی بیگم سادات نے بتایا ’’ ائیر پورٹ سے قصرصدارت کا فاصلہ عام طور پر تین منٹ کا ہوتا ہے لیکن اس روز ہمیں تین گھنٹے لگ گئے گلیاں اور سٹرکیں ہزاروں لوگوں سے بھری پڑی تھیں، لوگ سادات کے حق میں نعرے لگا رہے تھے وہ ہی لوگ جو ایک ہفتے پہلے مخالفت میں گلے پھاڑ رہے تھے اب وہ ہی حمایت کررہے تھے لوگوں کو یقین ہوگیا تھا کہ سادات جو کچھ کررہا ہے وہ درست ہے روحانی ذہانت ، جذباتی ذہانت سے بڑی نعمت ہے، انھوں نے سمجھ لیا تھا کہ آپ اس باہمی انحصارکی دنیا میں نہ تو الگ تھلگ رہ سکتے ہیں اور نہ سوچ سکتے ہیں۔‘‘

ایک بڑے دانشورکا کہنا ہے ’’اس میں کبھی تاخیر نہیں ہوتی کہ ہم وہ کچھ نہیں جو ہمیں بننا چاہیے تھا ‘‘ اپنے بائیس کروڑ لوگوں میں ہم کسی سے بھی پوچھیں گے تو وہ یہ ہی کہتا ہوا ملے گا کہ بہت تاخیر ہوچکی ہے لیکن اب بھی اتنی تاخیر نہیں ہوئی ہے کہ سب کچھ بدل نہ سکے سب کچھ بدلنے کے لیے سب سے پہلے ہمیں اپنی ذات کے اندر جھانکنا ہوگا اور اپنی آواز سننا ہوگی۔ جبتک ہم اپنی آواز نہیں سنیں گے جو ہم کو خواب دکھا رہی ہے، بہ الفا ظ دیگر تاریکی میں دروازے پہ دستک کا جواب نہیں دیتے۔اس وقت تک ہم اس لمحے کوگرفت میں نہیں لے سکتے، جس میں ہم قید ہیں۔

بیرونی فتح سے پہلے اندرونی فتح ضروری ہوتی ہے، اندرونی فتح کے لیے تین عادتوں کا ہونا بہت ضروری ہے۔ پہلی عادت Proactiveبنیے یعنی یہ کہ زندگی میں چیزیں شروع کرنے والے بنیے۔ دوسری عادت ،آخرکو ذہن میں رکھ کر شروع کیجیے۔ تیسری عادت ۔ اہم چیزیں پہلے اور ہروقت صرف جیت کا سوچیے ۔ یاد رکھیے یہ جو مصیبتیں ہوتی ہیں یہ انسانوں سے زیادہ بزدل ہوتی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ مصیبتیں زیادہ بزدل ہیں یا ہم ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔