کروں شکر کیسے ادا ؟

شیریں حیدر  اتوار 11 نومبر 2018
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’ الحمد للہ!!‘‘ کہتے ہیں تو صرف زبان سے ہی شکر کر رہے ہوتے ہیں، دل سے علم ہی نہیں ہوتاکہ واقعی ہم اس کے شکرگزار اور احسانمند ہیں بھی کہ نہیں جو خود ہم سے قرآن پاک میں بار بار پوچھتا ہے، فبای الا ربکما تکذبن۔

قرآن میں پوچھا ہے تو ایسا کیا اللہ تعالی صرف ہر مسلمان سے سوال کرتا ہے؟

نعمتیں تو اللہ تعالی نے ہر انسان بلکہ ہر جاندار کو دی ہیں… مجھے یقین ہے کہ جب اللہ تعالی نعمتیں تفویض کرتا ہے تو اس میں کسی مذہب ، ملک یا علاقے کی تخصیص نہیں کرتا!! ’ہر انسان ایک ہی طرح سے تو نعمتوں سے مالا مال نہیں ہے تو پھر ہر شخص کس طرح ایک برابر مشکور ہو سکتا ہے اور ایک ہی انداز سے اللہ کا شکر ادا کر سکتا ہے؟ ‘ ابہام ختم ہی نہیں ہوتا۔ ’ جو کچھ آپ کے پاس ہے وہ اگر میرے پاس نہیں ہے تو پھر ہم دونوں پر ایک جیسا شکر کیوں واجب ہے؟ ‘ میں خود بھی کوئی عالم دین ہوں اور نہ ہی کسی لحاظ سے خود کو اس قابل سمجھتی ہوں کہ مذہب کے حوالے سے اٹھنے والے کسی سوال کا ایسا جواب دے سکوں کہ کوئی سوالی حتی کہ اپنا دل ہی مطمئن ہو جائے۔ اطمینان ہی تو ساری زندگی کی دوڑ کا حاصل ہے… جہاں انسان مطمئن ہو گیا وہاں اس کی زندگی کی ساری دوڑ اور جدوجہدختم۔

’ بنیادی نعمتیں تو ہم سب کے پاس ایک سی ہیں… زندگی سب سے بڑی نعمت ہے، وہ نعمتیں جن کے لیے ہم کچھ خرچ نہیں کرتے، جو نعمتیں زندگی کے ساتھ ہمیں بونس میں ملتی ہیں، جنھیں ہم نعمتیں بھی نہیں سمجھتے۔‘

’ اچھا، ایسی کون سی نعمتیں ہیں جو سب کو ملتی ہیں؟ ‘ ابرو اچکا کر ہم سوچتے ہیں۔

’ پہلے آپ مجھے یہ بتائیں کہ آپ کے نزدیک کیا چیزیں ہیں جو نعمتوں میں شمار ہوتی ہیں؟ ‘

گھر، بیوی بچے، تعلیم، دولت، ملازمت اور اچھی قسمت!!‘ آپ کا عمومی جواب یہی ہو گا۔

’ آپ بتائیں، آپ کن چیزوں کو نعمتیں کہتی ہیں ، زندگی کے علاوہ؟ ‘ مجھ سے جو کوئی سوال کر بیٹھے تو۔

’ مجھے تو اپنے ہر طرف جو کچھ نظر آتا ہے اسے میں اللہ تعالی کی نعمت ہی سمجھتی ہوں … جو لسٹ میںنے آپ کی طرف سے بتائی ہے اسے بھی ایک طرح سے ہم نعمت کہہ سکتے ہیں مگر یقین کریں کہ اگر ان میںسے کچھ نہ بھی ہو تو زندگی گزر سکتی ہے ۔ بہت سے لوگوں کو یہ سب کچھ میسر نہیں ہوتا یا ان میں سے کچھ چیزیں مگر وہ پھر بھی اچھی زندگی جی لیتے ہیں، سکون کی زندگی!! ‘‘

’ تو پھر اصل نعمت کیا ہے؟‘ سوال وہیں کا وہیں ہے۔

’ وہ سب کچھ جس کا ہمیں احساس تک نہیں ہوتا، ہمارے ارد گرد غلاف کی طرح ہم سے لپٹی ہوئی ایک طویل نعمتوں کی فہرست ہے، جن کی موجودگی ہمیں شاید محسوس بھی نہیں ہوتی مگر جب ان میں سے کچھ کم ہوتا ہے یا چھن جاتا ہے تو ہمیں احساس ہوتا ہے ۔‘

’ مثلا؟؟‘ اب آپ جاننا چاہتے ہیں ۔

ایک انگلی کی حرکت سے لے کر پلک کے ایک ایک بال کی جنبش تک کے لیے ہم خود سے کچھ نہیں کر سکتے، اسی ذات کا کرم ہے جو کیڑے کو پتھر میں بھی رزق دیتا ہے۔ پانی اور ہوا جیسی ایسی غیر محسوس نعمتیں، سانس کا چلنا… دل کا دھڑکنا، دماغ کا سوچنا، اعضاء کا مکمل اور نارمل ہونا۔ ہم تو شمار ہی نہیں کر سکتے کہ ہمارے پاس کیا کیا خزانے ہیں۔ اگر ہمارا دل اپنے معمول سے دھڑک رہا ہے، اس کی دھڑکنوں میں تبدل نہیں، شریانیں پورے بدن کو خون کی ترسیل کر رہی ہیں۔ گردے خون کو صاف کرنے کی مشین ہیں، وہ اپنا کام کر رہے ہیں، دماغ تک آکسیجن اور خون مسلسل پہنچ رہا ہے، ہماری عقل اور فہم ان چیزوں کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ اس کے کارخانۂ قدر ت میں کتنی قوت اور ندرت ہے۔ ایک ذرا سی نس دبتی ہے، جسم کا کوئی معمولی سا حصہ سن ہوتا ہے تو سارا نظام متاثر ہو جاتا ہے، آنکھ میں ذرا سی سوجن ہو جائے یا ناک میں سوزش یا حلق میں رطوبت، تو علم ہوتا ہے کہ جب ایسی کوئی علامت نہیں ہوتی تو ہم کتنے سکون میں تھے۔

صحت اللہ کی عطا کردہ وہ نعمت ہے جس کی قدر اس وقت آتی ہے جب ہم خود یا ہمارا کوئی پیارا اس سے محروم ہوتا ہے۔ اگر آپ کے ہاں ایک ایسے بچے کی ولادت ہوتی ہے جس میں کوئی کمی یا کجی ہوتی ہے تو آپ کی دنیا ہی الٹ جاتی ہے، امید بندھتی ہے تو ہم بیٹے اور بیٹیاں مانگنا شروع کرتے ہیں۔ جب کوئی ابنارمل بچہ پیدا ہو تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہمیں اولاد مانگتے وقت اللہ تعالی سے کیا مانگنا چاہیے اور ایک مکمل اور صحت مند بچہ پیدا ہونا کتنی بڑی نعمت ہے نہ کہ بیٹا اور بیٹی۔

ایک دانت تک کا ٹوٹ جانا تو بہت بڑا صدمہ ہوتا ہے، کسی دانت میں ایک چھوٹی سی cavity ہو جانا ہمیں ایسے صدمے سے دوچار کر دیتا ہے کہ منہ میں بتیس صحت مند دانتوں کے ہونے کی کبھی اتنی خوشی نہیں ہوئی ہوتی، کھانے کا مزہ رہتا ہے نہ ہنسنے کا۔ کان میں کوئی مسئلہ ہوجائے اور سماعت متاثر ہو جائے تو انسان بہرہ ہونے کے ساتھ ساتھ چڑچڑا ہو جاتا ہے۔ کسی کی بات سننا اتنا بڑا مسئلہ تو کبھی بھی نہ تھا جو سماعت کے متاثر ہونے سے ہو جاتا ہے۔ لوگوں کے لب ہلتے نظر آئیں مگر سنائی نہ دے تو انسان جانے کیا کیا سوچتا ہے کہ اس نے یہ کہا ہو گا یا وہ، تب اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے پاس کان جیسی چھوٹی سی مشین کتنی بڑی نعمت ہے۔

ہمارے ہاتھ، جس میں کل ملا کر دس انگلیاں ہیں، ان میں سے کوئی ہم سے کہے کہ اپنی ایک انگلی بھی کاٹ کر اپنی خوشی سے قربان کر دو تو ہم کبھی نہ کریں ۔ یہ ہاتھ ہی تو ہیں جو ہمیں کسی کا محتاج نہیں ہونے دیتے… ان سے ہم اپنا اور دوسروں کا کام کرتے ہیں۔ انھیں کھونے کا، ان کے مفلوج ہونے کا تصور محال ہے۔ دروازے میں ہاتھ آجائے، چھری سے چھوٹا سا کٹ کسی انگلی میں لگ جائے، کھانا پکاتے ہوئے ذرا سا جل جائے تو ہم کتنی تکلیف محسوس کرتے ہیں اور کام کاج کرنے سے معذور ہوجاتے ہیں ۔

اس دنیا میں ہم آتے ہیں تو ہماری دیکھ بھال کے لیے اللہ تعالی نے افراد اور اسباب پہلے سے پیدا کر رکھے ہوتے ہیں۔ یہی ہمارا خاندان ہوتا ہے، ہمارے لیے یہ تعلق اور ناطے بھی ایسی ہی ایک نعمت ہیں۔ ان رشتوں کا ہمارے ساتھ ہمیشہ رہنا اور وقت کے ساتھ ان میں اضافہ ہوتے رہنا، اپنے سامنے اپنے بچوں کو پروان چڑھتے ہوئے دیکھنا، ان کا فرمانبردار ہونا، ان کی ترقیاں اور کامیابیاں ہمارے لیے ایسی نعمتیں ہیں جو ہر کسی کا نصیب نہیں ہوتیں۔ ہمیں رات کو پرسکون اور بے مداخلت نیند آ جانا، ہمیں سوتے وقت اپنے اور اپنے پیاروں کے لیے دعا کرنا یاد رہنا… اذان کی آوازکے ساتھ ہماری آنکھ کھلنا ہم پر اللہ کے خاص کرم کی علامت ہے کہ اس نے ہمیں اس قابل کیا، ہمیں توفیق دی کہ ہم نرم و گرم بستر چھوڑ کر عاجزی سے ہاتھ باندھ کر اس کے سامنے کھڑے ہوں ۔ رات کو سو جانا اور ایک نئی صبح کے طلوع ہونے پر جاگ جانا بھی نعمتیں ہیں۔

اپنے قدموں پر اٹھنا، اپنے ہاتھ منہ خود دھونا، خود اپنے ہاتھ سے غسل لینا ، اس بات کی علامت ہے کہ ہم ابھی زندہ ہیں ایک اور دن ہماری زندگی میںنعمت کی صورت شامل ہو گیا ہے ۔ اپنے ہاتھ سے کھانا کھانا کہ کئی لوگ ایسا نہیں بھی کر سکتے… اس کھانے کا ہمارے حلق سے اتر کر بغیر کسی رکاوٹ کے معدے تک پہنچنا، اس کا ہضم ہو جانا اور اس کے اثرات جسم کو پہنچ جانے کے بعد اس کے فاضل موادکا جسم سے خارج ہو جانا، کتنی ہی ان گنت اور غیر محسوس نعمتیں ہیں جن کا ادراک ہمیں ہو ہی نہیں پاتا۔ ہم میں سے بیشتر تو ایسے لوگ ہیں جو مرتے دم تک اسی بات کا رونا روتے رہتے ہیں کہ ہمیں کوئی نعمت ملی ہی نہیں۔ کافی ہیں جنھیں یہی شکوہ رہتا ہے مگر ان کی زندگی میں ہی ان کے اپنے یا اپنے کسی پیارے کے ساتھ ہونے والا کوئی سانحہ یہ احساس دلا دیتا ہے کہ ان کے پاس کیا کیا کچھ ہے جس کے لیے وہ کبھی شکر ادا ہی نہیں کرتے۔

ہم کر ہی نہیں سکتے… خود کو نظر آنے والی کائنات کی ایک ایک خوبصورتی کو شمار کریں ، ایک ایک سانس کے جسم میں جانے اور اپنا عمل مکمل کر کے خارج ہونے کو گنیں، ہر بار پلکیں جھپکتے ہوئے شمار کریں ، ہر ہر دھڑکن کے ساتھ اس کو یاد کریں کہ وہی ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے… کیا ہم اس کی اتنی بے مول نعمتوں کا شکر اداکر سکتے ہیں؟؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔