ہماری لاڈلی افسر شاہی

عبدالقادر حسن  اتوار 11 نومبر 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

بیورو کریسی جسے ہم دیسی زبان میں طنزاً افسر شاہی کہتے ہیں ہر وقت کسی کی تنقید کا نشانہ بنی رہتی ہے، ان تنقید اور نکتہ چینی کرنے والوں میں خود میں بھی شامل ہوں، اس اعتراف کے باوجود کہ بعض افسروں کی اعلیٰ کار کردگی کا ایک زمانہ معترف رہا اور ان کی قدم بوسی کو جی کرتا تھاکہ جو لوگ حکومت کی پالیسیوں کے نفاذ کے ذمے دار ہیں ان میں کتنے اچھے لوگ بھی شامل تھے، بلکہ اب بھی موجود ہیں۔ ان میں سے بعض تو اپنی مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد ریٹائر ہو گئے یعنی بے فائدہ ہو جانے کے باوجود ان کا احترام دلوں میں موجود رہا اچھے لوگوں کے صحیح احترام کا یہی موقع ہوتا ہے، حاضر نوکری افسر کا ’احترام‘ کون نہیں کرتا۔

بیوروکریسی کی مثال اس گاڑی کے انجن کی ہے کہ آپ گاڑی کو کتنا ہی چمکائیں لشکائیں لیکن اس کے بونٹ کے نیچے بند اور آنکھوں سے اوجھل انجن اگر صحیح کام نہ کر رہا ہو تو گاڑی کے لشکارے کسی کام نہیں آتے۔ اس انجن کو چالو رکھنے کے لیے حکومت اور بیوروکریسی کا باہمی تعاون نہایت ضروری ہے، اس تعاون کے ساتھ ہی حکومت کی گاڑی لشکارے مارتی رہے گی اور افسر شاہی بھی مطمئن رہے گی۔

ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ملک کی سول سروس میں آنے والے نوجوان اپنے رعب داب کے لیے ایسے محکموں کو ترجیح دیتے ہیں جہاں پر ان کا حکم چلتا رہے اور معاشرے میں وہ تمکنت کے ساتھ زندگی گزر سکیں۔ اگر ہمارے نوجوان مقابلے کے امتحان میں پولیس جیسے عوامی رعب داب والے محکموں کے علاوہ تعلیم، صحت اور دوسرے قومی اہمیت کو محکموںکو بھی ترجیح دیں تو یہ نوجوان دماغ ملک کی ترقی میں اپنا بھر پور کردار ادا کر سکتے ہیں کیونکہ اگر ہمارے اپنے تازہ دم افسر ہی ان محکموں کے لیے اپنا تازہ دماغ استعمال نہیں کریں گے تو ہم ان محکموں کو چلانے کے لیے اچھے ذہن کہاں سے لائیں گے۔ پولیس جیسے محکموں  کی پسندیدگی کے اسباب ہم سب جانتے ہیں مگر ملک چلانے کے لیے دوسرے قومی اہمیت کے محکموں کو بھی اچھے افسر درکار ہیں ۔

جب سے ہمارے ایک سابقہ ڈکٹیٹر مشرف نے ہمارے بلدیاتی نظام میں تبدیلیاں کیں اور افسروں کو اَن پڑھ سیاسی لوگوں کے ماتحت کر دیا ہم دیکھتے رہے کہ ایک ضلعے کا افسر اعلیٰ یعنی ڈی سی ایک واجبی تعلیم والے ناظم کے ماتحت کام کر رہا ہے اور وہ ناظم اسے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ گو کہ بیورو کریسی عوام میں کبھی مقبول نہیں رہی۔ کبھی کبھارکوئی عوامی ہمدردی رکھنے والاافسر ضلع کا مالک بن گیا تو اس نے عوام کو مقدرو بھر سہولت فراہم کی لیکن عموماً ایسا کم ہی ہوتا ہے کیونکہ عوام کو بیوروکریسی سے واسطہ پڑتا ہے اور کوئی افسر ہر ایک کو خوش نہیں کر سکتا۔ پھر ان ہی افسروں میں ’افسر شاہ‘ بھی ہوتے ہیں جن کی وجہ سے اسے افسر شاہی یا نوکر شاہی کہا جاتا ہے۔ مگر اس سب کے باوجود ہماری بیوروکریسی کی کئی خرابیاں ہمارے سیاسی نظام کی پیداوار ہیں۔

ایک افسر اپنے دفتر کی الماری میں رکھی ہوئی قانون اور ضابطوں کی کتابوں کا پابند ہوتا ہے جب کہ  ایک سیاستدان حکمران اس کے برعکس ہر پابندی سے بے نیاز ہو کر اپنے ووٹروں کو خوش کرنے والے ضابطوں اور روایات کا پابند ہوتا ہے، یہیں سے اختلاف پیدا ہوتا ہے اور ابھی تک یہی دیکھا گیا ہے کہ ایک سرکاری افسر باوجود قانون اور ضابطوں کی پابندی کے سیاستدانوں کے مقابلے میں عموماً ہار جاتا ہے، ایسے سخت جان افسر بہت کم ہوتے ہیں جو اپنا ملازمانہ کیریئر دائو پر لگاتے کو تیار ہو جاتے ہیں۔

میرا یہ خیال ہے کہ بیورو کریسی ان سیاستدانوں کا مقابلہ کرتے کرتے اب کچھ تھک گئی ہے اور اس مسلسل جاری مقابلے میں ان کی ہمتیں کچھ کمزور پر گئی ہیں ورنہ یہی بیورو کریسی تھی جس نے اس بے سرو سامان ملک پاکستان کو اپنے قدموں پر کھڑا کیا تھا۔ پاکستان کے ابتدائی نازک وقت کے افسروں نے جس قدر محنت کی اور جس خوبصورت اور مفید انداز میں اپنی ذہانت اور تجربے کو استعمال کیا اس پر کسی کو لکھنا چاہیے۔

میں نے بیوروکریسی کی تھکاوٹ کا ذکر کیا ہے کچھ عرصہ پہلے میں گائوں میں ایک عمارت تعمیر کر ا رہا تھا اور جو بڑا مستری تھا وہ آرام آرام سے کام کرتا تھا اس دوران اس کا معاون کسی وجہ سے گھر چلا گیا تو مستری نے ایک دوسرے کو بلوا لیا جو نوجوان تھا اور بہت تیزی سے کام کرتا تھا۔ چند روز بعد جب وہ اچانک اپنے استاد کی طرح سست پڑ گیا تو معلوم ہوا کہ استاد نے اس نوجوان کو نصیحت کی کہ اگر وہ اس قدر جسمانی محنت سے کام کرتا رہا اور ایسی تیزیاں دکھاتا رہا تو کب تک چلے گا اس کے سامنے پوری زندگی پڑی ہے جس میں اسے یہی کام کرنا ہے اس لیے ہاتھ روک کر چلو اور تھکاوٹ سے بچو ورنہ کام سے رہ جائو گے۔

جب بیورو کریسی کو دیکھتے ہیں تو لگتا ہے کہ یہ بھی کام کر تے کرتے کچھ تھک سی گئی ہے اس میں بلا شبہ نیا خون بھی داخل ہوتا رہتا ہے جو تیزی کے ساتھ کام شروع کرتا ہے مگر کب تک وہ تھکنا شروع ہو جاتا ہے اور اس کی میزوں پر فائلوں کے ڈھیر میں اضافہ ہونا شروع ہو نے لگتا ہے جو اسے ڈرانے اور مزید تھکانے کے لیے کافی ہوتا ہے۔

آپ نے بعض اچھے افسروں کی تعریف سنی ہوگی کہ ان کی میز پر کوئی فائل دکھائی نہیں دیتی جو فائل آتی ہے فوراً ہی کاروائی کر کے اس کو متعلقہ آدمی کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔ ہمارے ایک دوست افسر تھے مظہر منیر مرحوم، جب میں پہلی بار ان سے ملنے جانے لگا تو مجھے میرے سفارشی نے بتایا کہ جس افسر کی میز بالکل صاف ہو اور اس پر کوئی فائل موجود نہ ہو اس کا نام مظہر منیر ہے اسی طرح ہمارے ایک اور مرحوم دوست ایس کے محمود کی میز بھی صاف رہتی تھی اور بھی ایسے افسر ہوں گے جو کام کو فوراً نپٹانے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے۔ میرے مشاہدے میں ایسے چند لوگ ہی آئے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ میں افسروں سے ڈرتا ہوں اور ان سے ملنے نہیں جاتا۔ افسر شاہی سے مجھے ایک مستقل شکایت ہے کہ اس کے مزاج میں عوام سے ہمدردی نہیں ہوتی اور ہر کام سے انکار ان کی عادت بن جاتی ہے۔ بڑے افسروں کی یہ عادت نیچے تک سرائیت کر جاتی ہے۔

اس وقت میں اپنی لاڈلی بیورو کریسی کے شکوے نہیں کرنا چاہتا عرض یہ کرنی ہے کہ ریاست کے اس نہایت اہم ستون کو مضبوط کرنے کی کوشش بہت ضروری ہے کہ اسے ہی عملاً ملک چلانا ہے اور نئی حکومت کی پالیسیوں کا نفاذ کرنا ہے۔ مگر اب تو اس شعبے میں خرابیاں اتنی بڑھ گئی ہیںاور حالات نے بڑھا دی ہیں کہ اس کو درست کون کرے، کیا اس کو خراب کرنے والے اس کو درست کریں گے مگرکسی نہ کسی کو آغاز تو کرنا ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔