ایک روزہ سیریز بھی اپنے نام کرنے کا سنہری موقع

میاں اصغر سلیمی  اتوار 11 نومبر 2018
کیویز کے خلاف گرین شرٹس کا شاندار کم بیک۔ فوٹو: فائل

کیویز کے خلاف گرین شرٹس کا شاندار کم بیک۔ فوٹو: فائل

پاکستان کرکٹ ٹیم نیوزی لینڈ کے خلاف ایک روزہ سیریز کے ابتدائی میچ میں جس طرح شکست سے دو چار ہوئی، اس کے بعد کوئی توقع کر سکتا تھا کہ گرین شرٹس دوسرا مقابلہ اس قدر آسانی سے اپنے نام کرنے میں کامیاب رہیں گے۔

سرفراز الیون نے تمام تبصروں اور دعوؤں کے برعکس انہونی کو ہونی کر دکھایا اور چار سال کے طویل عرصہ کے بعد کیویز کے خلاف فتح سمیٹ کر شائقین کے چہروں پر خوشیاں بکھیر دیں، بلاشبہ یہ پاکستانی ٹیم کا ایک ایسا کارنامہ ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے ، وہ کم ہے۔ پاکستانی ٹیم نے کیویز کے خلاف جس عمدگی کے ساتھ کم بیک کیا ہے، اب کھلاڑیوں کے پاس ٹوئنٹی20 کے بعد ایک روزہ کرکٹ سیریز بھی اپنے نام کرنے کا سنہری موقع ہے۔

اگر ماضی کے اوراق میں جھانکا جائے تو یہ حقائق کھل کر سامنے آئیں گے کہ وسیم اکرم، وقار یونس جیسے ورلڈ کلاس بولرز اور ممتاز بیٹسمینوں کی موجودگی کے باوجود پاکستانی ٹیم کو جنوبی افریقہ کے خلاف اس قدر شکستوں کا سامنا کرنا پڑاکہ ایک ریکارڈ بن گیا، حالت یہ تھی کہ پاکستان ٹیم جنوبی افریقہ جاتی یا ساؤتھ افریقہ کی ٹیم پاکستان کا دورہ کرتی، جیت ہمیشہ ہنسی کرونیے الیون کی ہی ہوتی،یوں 1995 سے 2000 تک کے درمیان پاکستان کو مسلسل چودہ میچز میں ساؤتھ افریقہ سے شکستوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے بعد دوسرا ایسا بدترین ریکارڈ پاکستان کے حصے میں آیا جب گزشتہ چار برسوں کے دوران پاکستانی ٹیم کو مسلسل 12 ناکامیوں کا منہ دیکھنا پڑ گیا۔

پاکستان کی بدقستمی یہ بھی رہی ہے کہ پہلی بار چیمپئنز ٹرافی جیتنے کے بعد پاکستان کو بڑی ٹیموں کے خلاف کھیلنے کا کم ہی موقع ملا، پاکستان نے رواں سال کے آغاز میں ہی نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز کھیلی تھی جہاں پاکستان کو پانچ میچز کی سیریز میں وائٹ واش کا سامنا کرنا پٖڑا۔ بعدازاں کمزور حریف زمبابوے کو پاکستان نے انہیں کے ہوم گراؤنڈز میں وائٹ واش کیا۔ اس کے بعد پاکستان کی ٹیم ایشیا کپ میں ایکشن میں دکھائی دی، ایشیائی ایونٹ میں گرین شرٹس کی مایوس کن کارکردگی کے بعد پاکستان کی ورلڈ کپ کی تیاریوں کو شدید دھچکا لگا، رہی سہی کسر نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز کے پہلے میچ میں قومی ٹیم کی شکست نے پوری کر دی۔

مسلسل ناکامیوںکے بعد مبصرین کا خیال تھا کہ دوسرا میچ بھی ہار کر پاکستانی ٹیم سیریز بھی اپنے ہاتھ سے گنوا بیٹھے گی تاہم کھلاڑیوں نے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھ کر اس قدر شاندار کھیل پیش کیا کہ47 گیند قبل ہی چھ وکٹوں سے میچ کا نتیجہ اپنے نام کر لیا۔ نیوزی لینڈ کے خلاف اس ایک روزہ میچ میں فہیم اشرف نے بولنگ کا آغاز کیا تو وکٹ سے کوئی خاص مدد مل رہی تھی نہ ہی کوئی سوئنگ دیکھنے میں آ رہی تھی، مگر جونہی دوسرے اوور کے لئے شاہین شاہ آفریدی آئے، میچ کا رخ ہی تبدیل ہونے لگا، آف سٹمپ کے باہر فل لینتھ پر پھینکی گئی گیندیں ذرا دیر سے ہلکی ہلکی سوئنگ ہونے لگیں،اس دوران اچانک ایک گیند پر منرو نے چھکا مار کر شائقین سے بھر پور داد وصول کی۔

ایسے مواقع پر زیادہ تر بولرز محتاط رویہ اختیار کرتے ہیں تاہم شاہین آفریدی نے منرو سے بچنے کا فیصلہ کرنے کی بجائے انہیں کے فیورٹ زون میں دوبارہ ایسی گیند کرائی کہ انہیں اونچا شاٹ کھیلنا ہی پڑا اور حفیظ نے خوبصورت کیچ پکڑ کر پہلی کامیابی پاکستان کی جھولی میں ڈال دی۔اس کے بعد ولیمسن کے ساتھ جو بدقسمتی ہوئی، اس میں بھی شاہین آفریدی کا کردار تھا۔ کیوی بیٹنگ آرڈر کاالمیہ یہ ہے کہ ایشین کنڈیشنز میں اس کے بہترین بیٹسمین روس ٹیلر ہی سست ترین بھی ہیں۔

ان کے برعکس وہ واحد کیوی بیٹسمین جن کا ہوم کنڈیشنز کی بجائے ایشیا میں ریکارڈ زیادہ متاثر کن ہے، وہ ٹام لیتھم ہیں، لیتھم سلو پچز سے جلدی ہم آہنگ ہو جاتے ہیں اور ان کی خوبی یہ ہے کہ وہ سست ترین وکٹوں پر بھی نہایت تیزی سے رنز بٹورتے جاتے ہیں۔ ان کی موجودگی میں رن ریٹ غیر محسوس انداز سے بڑھنے لگتا ہے، اگر ٹیلر کے ساتھ ان کی پارٹنرشپ جم جاتی تو میچ پھر پاکستان کے ہاتھ سے سرکنے لگتا لیکن جب ٹام لیتھم کریز پہ قدم جمانے کا سوچ ہی رہے تھے، تبھی شاہین آفریدی نے انہیں بھی پویلین کا راستہ دکھا کر پاکستانی ٹیم پر سے ایک بڑا خطرہ ٹال دیا۔ پہلے میچ میں صرف ایک رن پر اپنی وکٹ گنوانے والے اوپنر فخر زمان نے دوسرے میچ میں بیٹنگ کے خوب جوہر دکھائے اورصرف اٹھاسی گیندوں پر 88 رنز کی عمدہ اننگز کھیل کر پاکستانی ٹیم کی فتح کی راہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔قومی ٹیم کی کامیابی میں بابر اعظم کی عمدہ بیٹنگ کا بھی خاصا عمل دخل رہا جو 46 رنز کی اننگز تراشنے میں کامیاب رہے۔

اوپنر امام الحق کیوی بولر فرگوسن کے خطرناک باؤنسرکی وجہ سے زخمی ہوگئے، گیند ان کے جبڑے پر لگا تاہم ہلیمٹ کی وجہ سے وہ بڑی انجری سے بچ تو گئے لیکن 16 کے انفرادی سکور پر انہیں گراؤنڈ سے باہرجانا پڑا۔ بولنگ میں شاہین آفریدی اور حسن علی کے ساتھ شاداب خان بھی نمایاں رہے۔

ٹیم کے ایک اور اہم کھلاڑی محمد حفیظ کی واپسی سے پاکستانی ٹیم کو یقینی طور پر فائدہ ہوا ہے، ایشیا کپ میں آل راؤنڈر کو نہ کھلانا سلیکٹرز کی بڑی غلطی تھی جس کا خمیازہ ٹیم کو ناکامیوں کی صورت میں ادا کرنا پڑا تاہم سلیکشن کمیٹی نے اپنی غلطی کا احساس کرتے ہوئے انہیں ٹیسٹ کے بعد ٹوئنٹی ٹوئنٹی اور ایک روزہ سیریز میں بھی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع فراہم کیا۔محمد حفیظ کی کارکردگی کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس وقت بھر پور فارم میں ہیں، اگر وہ مستقبل میں بھی قومی ٹیم کا حصہ رہتے ہیں تو اس کا یقینی طور پر فائدہ ٹیم کو ورلڈ کپ کے دوران ہوگا۔

اگر کپتان سرفراز احمد کے حوالے سے بات کی جائے تو وہ گزشتہ 2سال سے قومی ٹیم کی قیادت کر رہے ہیں ، اس دوران انھوں نے جو کارنامے انجام دیئے ہیں، اتنے بہت ہی کم کپتانوں کے حصے میں آئے ہیں۔

بلاشبہ پاکستانی ٹیم کی تشکیل میں سرفراز احمد کی انتھک محنت شامل ہے، نوجوان کھلاڑی ٹیم کا حصہ بن کر اپنے عمدہ کارکردگی سے ملک وقوم کا نام روشن کر رہے ہیں، سرفراز ہی کی کپتانی میں ٹیم پہلی بار چیمپینز ٹرافی جیتی اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ ورلڈ کپ بھی اب انگلینڈ میں ہی ہے، اس مرحلے پر سرفراز احمد کو ورلڈ کپ تک ٹیم کا کپتان بنانے کا واضح اعلان نہ کرنا سمجھ سے بالا تر ہے۔

دنیا میں کوئی بھی کپتان ایسا نہیں جو ہر وقت جیتے اور یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ جب آپ اچھی کارکردگی دکھائیں تو ہر کوئی اس میں شریک ہو لیکن خراب کارکردگی پر منہ پھیر لے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سرفراز احمد کو بھر پور سپورٹ کیا جائے تاکہ وہ بھرپور اعتماد اور یکسوئی سے ورلڈ کپ کی تیاری کر سکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔