چربہ سازیؔ۔۔۔ بالی وڈ لے گیا بازی

قیصر افتخار  اتوار 11 نومبر 2018
ہالی وڈ اور دوسری فلمی صنعتوں کی نقل سے’’ راج ‘‘ کرنے والوں پرایک رپورٹ۔ فوٹو: فائل

ہالی وڈ اور دوسری فلمی صنعتوں کی نقل سے’’ راج ‘‘ کرنے والوں پرایک رپورٹ۔ فوٹو: فائل

بالی وڈ میں کروڑوں روپے میں بننے والی فلمیں اب اربوں روپے میں بنائی جانے لگی ہیں اور اس طرح اُن کی فلمی صنعت میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

ایک طرف فلموں کی پسندیدگی بڑھ رہی ہے اوردوسری جانب بالی وڈ سٹارز اب شہرت کی بلندیوں پربراجمان ہیں۔ شاید یہی وجہ ہو گی کہ بہت سے غیرملکی فنکاراب بھارتی فلموں میں کام کرنے کو اہمیت دینے لگے ہیں اوردوسری جانب بالی وڈ کے فنکاروں کو ہالی وڈ جیسی فلم نگری میں کام دیا جا رہا ہے مگر بالی وڈ میں لیڈنگ کردارنبھانے والے فنکاروں کوہالی وڈ میں مرکزی نہیں بلکہ سپورٹنگ کردارہی دیئے جاتے ہیں، جن سے ان کے کریڈٹ پرہالی وڈ فلم توآجاتی ہے لیکن وہ مقام نہیں مل پاتا، جوانہیں بالی وڈ میں ملتا ہے۔

موجودہ دور میں جدید ٹیکنالوجی کی تمام سہولیات بالی وڈ فلموں کوبنانے کے مراحل میں استعمال میں لائی جا رہی ہیں اوراس کیلئے کسی بھی طرح کا سمجھوتہ نہیں کیا جاتا لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اتنی مقبولیت تک پہنچنے کا کریڈٹ کس کودیا جائے؟ بالی وڈ کے فنکاروں یا تکنیک کاروں کویا ان مصنفوں کو جو شب وروزمحنت کے بعد ایسی کہانیاں تخلیق کرتے ہیں، جس کومحض اتفاق ہی کہہ سکتے ہیں کہ کسی نہ کسی دوسرے ملک میں بنی فلم سے ہوبہوجاملتی ہے۔

پہلے توزیادہ ترایسا ہی ہوتا تھا کہ بھارت کے معروف موسیقاروں کی دھنیں ان کی جانب سے متعارف کروانے سے کئی برس پہلے ہی کسی اور ملک میں بنے میوزک سے جاملتی تھیں لیکن اس کے باوجود وہ خود کو ’’ لیجنڈ ‘‘ کہلواتے تھے۔

اس طرح کی لاتعدادمثالیں توپاکستانی فلموں کے میوزک کے ساتھ ساتھ دوسرے گلوکاروں کے گیتوں سے بھی دی جاسکتی ہیں، لیکن اس وقت ہمارا فوکس صرف پاکستانی فلموں کے میوزک اور کہانیوں کو چوری کرنے کا نہیں بلکہ اس بات کو لوگوں تک پہنچانے کا ہے کس طرح سے بالی وڈ میں رائٹر، ہدایتکار، فلمساز، فنکار اور تکنیک کار مل کر ہندی سینما دیکھنے اورپسند کرنے والوںکو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ اس لئے بھارتی فلم انڈسٹری کی کامیابی کا کریڈٹ توان تمام ’’ نقالوں‘‘ کوبھی جاتا ہے، جو دنیا جہان کی تخلیقی سوچ کی نقل کرنے میں ایسی مہارت دکھاتے ہیں کہ کچھ ہی عرصہ بعد حقیقت سامنے آجاتی ہے۔

اب ہم اپنے موضوع کا آغاز پاکستان سے کرتے ہیں ، تاکہ آج جوپاکستان کی نوجوان نسل ، بالی وڈ کے گن گاتی ہے اورسینما گھروں میں صرف بالی وڈسٹارز کی فلمیں دیکھنے کی خواہش رکھتی ہے، ان کوپتہ چل سکے کہ کس طرح سے پاکستانی فلموںکو وہاں کاپی کیا گیا۔ یہ بات توطے ہے کہ پاکستان میں ہمیشہ ہی ٹیلنٹ موجود رہا ہے۔ اداکاری، گلوکاری، موسیقی کی دھنوں، شاعری اور دیگر شعبوں میں کام کرنے والوں نے اپنے فن سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنایا ہے۔

اس کی عمدہ مثال ہم ان فلموں سے بھی دے سکتے ہیں جن کوبڑی مہارت کے ساتھ کاپی کیا گیا۔ ان پاکستانی فلموں میں ’ نوکرووہٹی دا، دہلیز، پیاسا، حق مہر، بندش، گھرپیاراگھر، آسمان، بازارحسن، مولا جٹ، طاقت کاطوفان، مہربانی، آئینہ، باؤجی، جلتے بدن، گناہ، سوکن کی بیٹی، قید ، عابدہ ، خدا کیلئے اورایکٹران لاء‘ سمیت بے شمار دیگرفلمیں شامل ہیں، جن کی کہانی چرائی گئی اوربالی وڈ فلمیں ’ کھل نائیک، اونچے لوگ، صنم بے وفا، ہم آپ کے ہیں کون، روپ کی رانی چوروں کا راجا، پتی پتنی اورطوائف، ساجن، خاموش پانی، سوکن کی بیٹی، شکتی، لاگا چنری میں داگ، الگ الگ، پیا جھکتا نہیں ، بتی گل میٹرچالواورلشکاراسمیت دیگرناموں سے فلمیں بنائی گئیں۔

کاپی ہونے والی فلموں میں بالی وڈ سٹارز سنجے دت، سلمان خان، مادھوری ڈکشٹ اوردھرمیندر سمیت بہت سے معروف فنکاروں نے وہی کردارنبھائے جوہمارے ہاں ندیم، بابرہ شریف، منورظریف اوردیگراداکرچکے تھے۔ یہ فہرست توبہت لمبی ہے، مگرمثال کیلئے یہ نام بھی کافی ہیں۔

اسی طرح ہالی وڈ اورمغربی ممالک کی فلموںکی بات کریں تویہ فہرست بھی انتہائی لمبی ہے۔ کیونکہ بھارت میں شروع سے ہی اس بات پرزیادہ توجہ دی جاتی رہی ہے کہ خود سے محنت کی بجائے اگرکسی کی نقل کوبہتراندازمیں پیش کریں گے توزیادہ اچھا رسپانس ملے گا۔  ہالی وڈ فلم ’ دی فیوجیٹو، سائی بورگ، ریمبو، بریکنگ آوے، نائٹ اینڈ ڈے، لٹل بوائے،  دی گاڈ فادر، دی ریپلیسمنٹ کلر، اولڈ بوائے، ہیری پوٹر، کل بل اوربہت سی فلمیں ہیں، جن کی کہانیوں اورسین کوکاپی کیا گیا۔ ان فلموں کی کاپی پرنظرڈالیں توپھر’ جوجیتا وہی سکندر، بینگ بینگ، ٹیوب لائٹ، سرکار، راؤڈی راٹھور، زندہ، ہیری پتر اورابھے سمیت بہت سی فلمیں سامنے آجائیں گی، جن کی کہانی، مناظراورانداز کولوگوں نے بے حد سراہا۔

اکثریت توبالی وڈ کے مصنفوں، ہدایتکاروں، فنکاروں اور تکنیک کاروں کے علاوہ میک اپ آرٹسٹ ، ڈریس ڈیزائنرزکی بھی تعریف میں لگ جاتے ہیں لیکن اس تعریف اورتخلیقی سوچ کے مستحق اور لوگ ہوتے ہیں۔ اس لئے بھارت کو نقل کرنے پرجہاں شرم آنی چاہئے اوردنیا بھر سے معافی مانگنی چاہئے، وہیں انہیں اپنے فنکاروں اور تکنیک کاروںکو تنقید کانشانہ بھی بنانا چاہئے۔ خاص طور پر ان فنکاروں سے بھی یہ سوال ضرور پوچھنا چاہئے کہ وہ جن کرداروں  کو نبھانے کیلئے کروڑوں روپے معاوضہ لیتے ہیں، اس کردارکیلئے انہوں نے کوئی محنت کی یا ساری توجہ نقل کرنے پرمرکوزرکھی۔

اس صورتحال میں پاکستان میں فلم کے سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ بھارتی فلم نگری کا شماربلاشبہ مقبول ترین فلم انڈسٹریوں میں ہوتا ہے، مگراس مقام پرپہنچنے کیلئے جس طرح سے انہوں نے دنیا بھرکے لوگوںکی تخلیقات کی نقل کی ہے، اس پرانہیں فخرنہیں بلکہ شرمندہ ہونے کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے کوئی ایک نہیں بلکہ ہروہ شخص ذمہ دار ہے، جس نے سب کچھ سمجھتے اورجاننے کے بعد بھی پہلے چوری کی اورپھرنقل کوپیش کرنے کیلئے کسی بھی طرح کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔

فلم کے پوسٹر، سین، لباس اورہیئر سٹائل تک کاپی کئے گئے اوراس پر ایوارڈ وصول کرنے والوں سے تمام اعزازات واپس لینے پرغورکرنا چاہئے۔ پہلے پہل توصرف پاکستانی فلموں کی کہانیاں کاپی کی جاتی تھیں لیکن اب توبالی وڈ کا دائرہ وسیع ہوچکا ہے۔ اب تویہ لوگ دنیا میں کہیں بھی بننے والی فلم کوکاپی کرنے میں پیچھے نہیں رہتے۔ اس کے علاوہ بالی وڈ میں تواب حالات اس قدر خراب دکھائی دے رہے ہیں کہ ہندی زبان کی فلموں کی اکثریت تامل، مدراسی، بنگالی اور دیگر زبانوں میں بننے والی فلموں سے کاپی کی جارہی ہیں۔

سین ٹوسین فلموں کوپکچرائز کیا جانے لگا ہے۔ اس کی بہترین مثال ’’ وانٹڈ‘‘ اور ’’او مائی گاڈ ‘‘ جیسی فلموں سے دی جاسکتی ہے۔ دونوں ہی فلموں کو پہلے ساؤتھ انڈین میں کام کرنے والے فلم انڈسٹری میں پروڈیوس کیا گیا اوراس کے بعداسے ہندی فلم کے طور پر دوبارہ شوٹ کیا گیا تھا۔

دونوں ہی فلموں نے زبردست بزنس کیا اورمرکزی کردارنبھانے والے فنکاروں کے پرستاروں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا لیکن جونہی یہ بات منظرعام پرآئی کہ یہ فلمیں ساؤتھ انڈین فلموں کا چربہ ہیں توتنقید بھی ہوئی، مگریہ بات بھی کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ جس طرح بالی وڈ والے ہالی وڈ اوردوسری فلم انڈسٹریوں کوکاپی کرنے میں مصروف ہیں،اسی فہرست میں ساؤتھ انڈیا میں فلمیں بنانے والے بھی شامل ہیں۔ سب کے سب نقل کررہے ہیں اورپیسہ کمار رہے ہیں۔

ایسے میں ایک ہی بات سمجھ آتی ہے کہ بھارتی فلم انڈسٹری سے وابستہ لوگوں کیلئے اس وقت یہ بات معنی نہیں رکھتی کہ وہ چوری اورنقل سے گریز کریں، وہ توبس اتنا چاہتے ہیں کہ نقل کریں یا چوری ، پیسہ آنا چاہئے اورشہرت ملنی چاہئے، مگرانہیں یہ بات ضروریارکھنی چاہئے کہ ’’نقل کیلئے بھی عقل کی ضرورت ہوتی‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔