نیٹو افواج کے انخلاء سے پہلے ۔۔۔ ڈرون حملے نہیں رک سکتے

غلام محی الدین  اتوار 23 جون 2013
ڈرون حملے اس وقت تک جاری رہیں گے جب تک امریکا اپنے وہ خفیہ اہداف حاصل نہیں کر لیتا جو اس نے طے کر رکھے ہیں۔  فوٹو: فائل

ڈرون حملے اس وقت تک جاری رہیں گے جب تک امریکا اپنے وہ خفیہ اہداف حاصل نہیں کر لیتا جو اس نے طے کر رکھے ہیں۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: وزیراعظم نواز شریف نے حلف اٹھانے سے پہلے جب امریکا کی جانب سے پاکستان پر  ڈرون حملے کو پاکستان کی خود مختاری اور سلامتی پر حملہ قرار دیا تھا تو دوسری جانب سے امریکا نے اس حملے کو قانونی کہ کر مستقبل کی منظر کشی کر دی تھی، جس کے بعد کچھ کہنے کی گنجائش باقی نہیں رہی تھی۔۔۔۔۔۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ خطے میں ڈرون حملوں سے  بے گناہ لوگوں کی ہلاکتوں کا پرانا سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک امریکا اپنے وہ خفیہ اہداف حاصل نہیں کر لیتا جو اس نے طے کر رکھے ہیں۔ 

نواز شریف نے اپنے جذبات ایک ایلچی کے ذریعے امریکا کے خصوصی نمائندہ برائے افغانستان اور پاکستان رچرڈ ہوگلینڈ کو پہنچائے تھے۔ انھوں نے امریکی صدر کی جانب سے ڈرون ٹیکنالوجی کے استعمال کی نئی پالیسی بنانے کے اعلان، بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی کے حوالے بھی دیے مگر کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی تھی۔ پاکستان اور امریکا کے درمیان بامقصد مشاورت اور باہمی تعاون کو اپنانے اور یک طرفہ کارروائی سے گریز کرنے کی بات بھی کی گئی لیکن بے سود۔ نواز شریف نے جرمنی اور فرانس کے سفیروںسے ملاقاتوں میں بھی اپنے موقف کا اظہار کیا مگر! اے بسا آرزو۔۔۔۔۔  تاہم مبصرین کی بڑی تعداد اب بھی اس بات پر متفق ہے کہ ڈرون طیاروں کے استعمال کے سلسلے کے نئے رہ نما اصول، واشنگٹن اور اسلام آباد کو ایک دوسرے کے قریب لاسکتے ہیں، خاص طور پر ایک ایسے وقت پر، جب پاکستان میں نواز شریف کی نئی حکومت  بن چکی ہے ۔

دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے ڈرون حملوں کا دفاع  کرتے ہوئے جو کہا وہ نہ صرف قابل غور ہے بل کہ ان اہداف کی نشان دہی بھی کرتا ہے جن کا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔ جان کیری کے مطابق ’’ امریکا، القاعدہ اور طالبان کے خلاف حالت جنگ میں ہے، ڈرون حملے قانونی حیثیت رکھتے ہیں‘‘۔ امریکی اخبار نیوز ڈے نے جان کیری کے حوالے سے جو لکھا وہ صورت حال کی مکمل وضاحت کے لیے کافی تھا، جو کچھ یوں تھا کہ ’’ ڈرون حملوں میں القاعدہ کے تربیت یافتہ کمانڈر ، بم بنانے والے مارے گئے ہیں، ڈرونز کے ذریعے امریکی طیاروں،  ٹرانزٹ نظام اور امریکی فوجیوں کے خلاف منصوبے پکڑے گئے، ڈرون حملوں کی وجہ سے ہزاروں جانیں بچائی گئی ہیں‘‘۔

اسی دوران امریکی  محکمۂ خارجہ کی طرف سے تیار کردہ سال 2012 کی دہشت گردی سے متعلق سالانہ رپورٹ کانگریس کو پیش کی گئی، جس میں یکم جنوری سے 31دسمبر 2012 کے دوران بین الاقوامی سطح پر مختلف ممالک میں پیش آنے والے دہشت گردی کے واقعات اور رجحانات پر ایک تجزیہ پیش کرنے کے علاوہ دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والی حکومتوں، دہشت گردی کی محفوظ پناہ گاہوں اور غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں کی تفصیل پیش کی گئی تھی  ۔ رپورٹ میں ایران  کودہشت گردی کی سرپرستی کرنے والی ریاستوں کے زمرے میں نمایاں قرار دیا گیا ، پاکستان میں القاعدہ کی قیادت کو کم زور کرنے کی کوششوں کا ذکر ہوا۔ القاعدہ کی لیڈرشپ کی ہلاکتوں کے نتیجے میں اس کی براہ راست کارروائیوں کی استعداد  میں کمی کو کام یابی کہا گیا ، القاعدہ کی قیادت کو شکست اور اس سے منسلک دو خطرناک ترین  تنظیموں کی کمر توڑنے کی بات کی گئی اور دہشت گردی کی مرکزیت میں اپنے دعوے کے مطابق دراڑیں پڑنے کے بعد، اس خطرے کو جغرافیائی لحاظ سے بڑے علاقے میں پھیلنے کا ذکر بھی کیا گیا تھا۔

پاکستان میں گیارہ مئی کو ہونے والے عام انتخابات کے بعد پہلے امریکی ڈرون حملہ شمالی وزیرستان میں ایسے وقت میں کیا گیا تھا جب عام انتخابات کے بعد انتقال اقتدار کے  مراحل شروع ہوئے تھے اور پاکستان ایک تاریخی جمہوری سفر سے گزر رہا تھا، اس سے قبل نیٹو کی فوجی کمیٹی کے سربراہ جنرل نوڈ بارٹلز نے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی سے ملاقات میں افغانستان کی سکیورٹی صورت حال پر بات چیت کی تھی ۔

دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ نیٹو افواج کے کمانڈروں کی پاکستانی فوجی قیادت سے حالیہ ملاقاتوں کا مقصد افغانستان سے بین الاقوامی فوج کی پر امن واپسی اور بعد کی صورت حال کو قابو میں رکھنا تھا ۔

امریکی صدر واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ وہ افغانستان سے انخلاء کے بعد بھی یہاں امن قائم رکھنے کے لیے بات چیت اور مذاکرات کے ساتھ ساتھ طاقت کا استعمال بھی جاری رکھیں گے۔ امریکا افکار اور ہتھیارکی جنگ دونوں سے ہی کام چلائے گا ۔ ڈرون حملے اس کی ہتھیاروں کی جنگ کا حصہ ہیں۔ صدر اوباما نے صاف کہا ہے  ’’اگر ہم چلے بھی جائیں تو یہاں انسداد دہشت گردی کے لیے ایک مؤثر طاقت ضرور رہے گی اور اس فورس کا سب سے اہم حصہ ڈرون حملے ہی ہو ں گے۔ گو کہ صدر باراک اوباما نے امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف لامحدود عالمی جنگ والی پالیسی کو تبدیل، ہلاکت خیز ڈرون حملوں کو محدود اور گوانتانامو بے جیل کو بند کرنے سے متعلق کئی اقدامات کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن اس میں پاکستان کے موقف کا ذکر ہر گز نہیں تھا۔

باراک اوباما نے جب واشنگٹن کی نیشنل ڈیفنس یونی ورسٹی میں دفاعی پالیسی کا اعلان کیا اورنئے صدارتی رہ نما اصولوں پر دست خط کیے جن کے تحت ڈرون حملوں کا کنٹرول خفیہ ادارے سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی یا سی آئی اے سے لے کر محکمۂ  دفاع یا پینٹاگون کے حوالے کر دیا گیا تو یہ امید ہو چلی تھی کہ امریکی ڈرون حملے اب کانگریس کی طرف سے جانچ پڑتال کی زد پر آ سکیں گے لیکن یہ امید بھی دم توڑ گئی۔ اوباما کا کہنا تھا ’’ہماری قوم کو اب بھی دہشت گردوں سے خطرہ ہے، ہمیں  یہ ماننا چاہیے کہ یہ خطرہ نائین الیون والے خطرے سے ایک نئی شکل میں بدل چکاہے۔‘‘

صدر باراک اوباما نے پاکستانی مطالبات کے برعکس اگرچہ ڈرون حملے بند کرنے کا اعلان نہیں کیا تاہم کچھ مبصرین اور حکومتی ذرائع  ابھی تک پرامید ہیں کہ ڈرون حملے محدود کرنے کا اعلان بھی دو طرفہ تعلقات میں بہتری کا سبب بن سکتا ہے، بہ قول ان کے امریکی صدر نے اپنے پالیسی بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ ڈرون حملوں نے پاکستانی قبائلی علاقوں میں القاعدہ کی قیادت کو ختم کر دیا ہے تاہم انھوں نے یہ بھی تسلیم کیا تھا کہ یہ مسئلے کا واحد حل نہیں ۔ اوباما نے ڈرون حملوں میں شہری ہلاکتوں کو تسلیم کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب تک وہ زندہ ہیں، انھیں اس کا ذاتی طور پر ملال رہے گا۔

ماضی میں ڈرون حملوں سے متعلق اسلام آباد اور واشنگٹن کے مابین جو بداعتمادی رہی، اس پر امریکا کا خیال ہے کہ پاکستان اور عسکریت پسندوں کے کچھ گروپوں کے مابین روابط موجود تھے، جنہیں پاکستانی حکومت مبینہ طور پر افغانستان میں اثر و رسوخ کے لیے استعمال کرتی تھی۔ پاکستان نے ان الزامات کو بارہا مسترد کیاہے اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 17اپریل 2013  تک 272 ڈرون حملوں میں 2509 افراد جاں بہ حق جب کہ 299 سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔

ڈرون حملوں کے حوالے سے پارلیمینٹ کی متفقہ قراردادیں، کمیٹیوں کے تبصرے اور آنے والی حکومت کے ممکنہ خدشات کے علاوہ بھی معاملات ایسے ہیں جن پر توجہ دیے بغیر اصل کہانی سمجھ نہیں آسکتی۔ ڈرون حملوں کے حوالے سے پاکستان کا مقدمہ موثر طور پر ابھی تک عالمی سطح پر اٹھایا ہی نہیں گیا۔ ظاہر ہے یہ کام عسکری کے بجائے سیاسی قیادت کے کرنے کا ہے ۔ دوسری جانب بْش سے اوباما انتظامیہ تک بغیر کسی قانونی بنیاد اور لیگل جواز کے ان حملوں کو جائز قرار دیا جا رہا ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ بین الاقوامی طور پر معروف قانون دان اور آئین کے ماہرین امریکا کے مقابلے میں پاکستان کے موقف کی کھل کر نہ صرف تائید کرتے ہیں بل کہ کئی حوالوں سے ہم سے بہتر وکالت بھی کرتے ہیں۔ بعض ماہرین قانون کے مطابق’’امریکی انتظامیہ  ڈرون حملوں سے ٹارگٹ کلنگ کا جواز اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل51 سے پیش کرتی ہے،یعنی’’حفاظتِ خود اختیاری کا نظریہ‘‘ حاؒل آں کہ اقوامِ متحدہ کے اسی چارٹر کے آرٹیکل 2 (ذیلی) اور آرٹیکل 4 میں قوت کے استعمال پر پابندی کا بھی ذکر ہے ۔ قانونی صورت میں لازم ہے کہ دو مما لک کے درمیان اعلان شدہ جنگ یا تسلیم شدہ مسلح تصادم جاری ہو۔ اس وقت پاکستان اور امریکا کی ریاستوں کے مابین نہ تو مسلح تصادم ہے اور نہ ہی اعلان شدہ جنگ ہے۔اس لیے پاکستان کی سرزمین پر ڈرون حملوں کا یو این چارٹر   اور    بین الاقوامی  قوانین کے  اصولوں  کے  مطابق   کوئی  جواز  نہیں  بنتا ہے‘‘۔

صدر اوباما کے سابق ایڈوائزر برائے کاؤنٹر ٹیررازم ڈائریکٹر سی آئی اے جون برنن  کے مطابق امریکا کے ڈومیسٹک لا کے تحت ڈرون استعمال کرکے ٹارگٹ کلنگ کرنے کی ہمیںاجازت ہے مگر انسانی حقوق کی تنظیموں اور امریکی وکلا  سمیت آئین وقانون کے اکثر ماہرین نے اسے کبھی تحسین کی نظر سے نہیں دیکھا۔ دوسری جانب اقوامِ متحدہ کے اسپیشل رپورٹر برائے ’’ماورائے عدالت اور ماورائے قانون قتل‘‘ مسٹر کرسٹو ہینز نے امریکی حکومت کے ’’ٹارگٹ کلنگ‘‘ کے نظریے پر کھل کر تنقید کی ہے۔ اس تناظر میں  پاکستان کا مقدمہ مضبوط تو ہوا ہے لیکن عملی سطح پر کچھ بھی نہیں ہوا، سوائے اس کے کہ سابق امریکی نائب وزیرِ خارجہ پی جے کراؤلی اوباما کی خفیہ ڈرون جنگ کے حوالے سے لکھتے ہیں ’’ باہر کی دنیا ڈرونز کے استعمال کی قانونی حیثیت کے آگے سوالیہ نشان لگاتی ہے‘‘۔

اسی طرح صدر اوباما کے  سی آئی اے کے نئے ڈائریکٹر جان برنن نے جب امریکی سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے سامنے تین گھنٹے کی شہادت دی تو دو باتیں واضح ہوئیں؛ پہلی یہ کہ جان برنن کی اس عہدے کے تصدیق ہو گئی، دوسری یہ کہ جنگ کے بارہ سال بعد بھی امریکا کے اندر اور باہر جنگ کے انداز سے متعلق شدید اختلافات موجود ہیں۔ جان برینن نے اوباما انتظامیہ کی طرف سے گذشتہ چار برسوں میں القاعدہ کے خلاف جنگ کا بھرپور دفاع پیش کیا اور انھوں نے خاص طور پر مختلف ملکوں میں ڈرون حملوں کے بڑھتے ہوئے استعمال پر بھر پور توجہ مرکوز رکھی ۔ امریکی انتظامیہ میڈیا میں بڑے پیمانے پر رپورٹوں کے باوجود یہ تسلیم نہیں کرتی کہ وہ پاکستان میں ڈرون حملے کر رہی ہے بل کہ وہ اسے اپنا دفاع قرار دیتی ہے۔ یہ حکمتِ عملی کس حد تک اور کتنے عرصے تک پائیدار رہے گی؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا کوئی آسان جواب نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔