سات دن تہران میں

تابان ظفر  اتوار 23 جون 2013
خان صاحب کی ایرانی صدر کو ’’پگڑی بدل بھائی‘‘ بنانے کی کوشش، ایران کا سفرنامہ۔ فوٹو: فائل

خان صاحب کی ایرانی صدر کو ’’پگڑی بدل بھائی‘‘ بنانے کی کوشش، ایران کا سفرنامہ۔ فوٹو: فائل

 ایک ایرانی دوست سے بات ہورہی تھی، میں نے کہیں کہہ دیا اصفہان نصف جہان، فوراً بولا اگر تبریز نہ باشد، پتا چلا کہ جناب ایرانی ترک اور تبریزی ہیں۔ مجال ہے جو اپنے شہر کے مقابلے میں اصفہان کی تعریف سن لیں۔

یہ جھگڑا تو ایرانیوں پر چھوڑتے ہیں کہ تبریز برتر ہے یا اصفہان۔ ہمارا تو تجربہ یہ رہا کہ تہران نصف ایران۔ سات دن میں ایران کے طول وعرض میں رہنے والی تقریباً سبھی نسلی اکائیوں کے نمائندوں سے ملاقات ہوگئی۔ اپنے ہی ہوٹل میں دو تین تبریزی تُرک نکل آئے۔ میدان آزادی میں دو کرد نوجوانوں سے گپ شپ رہی۔ زابلی عربوں سے بھی دعا سلام ہوگئی اور تو اور بلوچ پھل فروش سے بھی اردو میں بھائو تائو ہوا۔ لیکن وہ پھل فروش خاصا تائو میں تھا۔ کہنے لگا ایک دفعہ کوئٹہ گیا تھا پکڑ کر جیل میں ڈال دیا۔ چھے مہینے بعد رہائی ملی۔ اسی غم یا غصے میں اس نے رعایت بھی نہیں کی۔ لاکھ سر پھوڑا کہ بھائی ہم بھی اردو داں ہیں اور تو بھی بھلی بری ہماری زبان بول لیتا ہے۔ لیکن کہاں جناب۔ جب تخفیف یعنی رعایت کے لیے کہو فوراً فارسی پر اتر آتا۔ ہم نے فارسی آزمائی تو بلوچی میں من وشما کرنے لگا۔

بچت ہوگئی

کراچی سے ایران ایئر کا جہاز اُڑا تو دل میں ہزار وسوسے تھے، کہیں ایسا نہ ہوجائے، کہیں ویسا نہ ہوجائے، فضائی حادثوں کے حوالے سے ’’ہما‘‘ کا ریکارڈ زیادہ اچھا نہیں۔ لیکن خوش قسمتی کا یہ پرندہ ہمارے لیے تو خوش قسمت ہی ثابت ہوا۔ سارا سفر آرام دہ، جہاز بھی اچھا اور میزبان بھی، کھانا سادہ لیکن خوش مزہ اور مقدار میں زیادہ، جہاز ایران کی حدود میں داخل ہوچکا تھا، تہران قریب تھا کہ اچانک ہوا کے زور دار تھپیڑوں نے دھنک کر رکھ دیا۔ ایسے ایسے جھٹکے لگے کہ ’’ڈبلیوگیارہ‘‘ یاد آگئی۔ لگتا تھا کپتان نے جہاز ہوا کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے۔ کبھی اوپر کبھی نیچے، کبھی دائیں کبھی بائیں۔ اﷲ جانتا ہے سارا کھانا ہضم ہوگیا۔ خوف سے دل بیٹھنے لگا۔ ایران ایئر کے سارے حادثے آنکھوں میں گھوم گئے۔ آیت الکرسی بھی یاد نہیں آرہی تھی۔ زبان پر استغفار جاری ہوگئی، یا اﷲ تیرے پاس آرہے ہیں، معاف کردیجیو، خوبانِ ایران تو نہ دیکھ سکیں گے، جنت کی حوریں ہی بخش دیجیو!

تسکیں کو ہم نہ روئیں جو ذوق نظر ملے

حوران خلد میں تیری صورت مگر ملے

کپتان کو تو رحم نہ آیا اﷲ کو آگیا، جہاز جھٹکے اور ہچکولے کھاتا امام خمینی ایئرپورٹ تہران پر اترگیا، میں نے اور سید کاشف رضا نے فوراً ہی سیٹیں چھوڑدیں، بہانہ تو یہ تھا کہ تہران کی جدائی مزید برداشت نہیں کرسکتے لیکن حقیقت یہ کہ کہیں جہاز کپتان سے چھوٹ کر پھر نہ اڑجائے۔

تہران کی پہلی جھلک

میں، کاشف رضا، وسیم بادامی، احسان احمد،  غلام نبی چانڈیواور چار خاتون پروفیسرز۔ کراچی سے نو افراد کا وفد امام خمینی کی برسی پر ایرانی حکومت کا مہمان تھا۔ ایئرپورٹ دیکھ کر پہلا تاثر۔ سادگی وپرکاری۔ سطحی نگاہ سے دیکھیے تو کچھ زیادہ متاثر کن نہیں۔ نہ بڑے بڑے فانوس اور جھالر۔ نہ مہنگے غیر ملکی ٹائلز سے سجی دیواریں اور فرش، نہ قیمتی نشستیں۔ لیکن اس کے باوجود صفائی اور خوش ذوقی سے آنکھوں اور دلوں کو تراوٹ مل رہی تھی، سامان اٹھاکر جیسے ہی میزبانوں کی طرف بڑھے ایک حسینہ نے گلاب کی کلی ہماری طرف بڑھائی، ابھی بانچھیں اپنی جگہ واپس بھی نہیں آئی تھیں کہ اس نے ایک کلی ہمارے پیچھے آتے 60سالہ سینیگالی کو بھی تھمادی، ساری خوش فہمی ہوا ہوگئی، یعنی یہ بھی کوئی بات ہوئی، ہم تو سمجھے تھے کہ یہ اہتمام خاص ہمارے لیے ہے۔ لیکن یہاں تو اپنوں پرائیوں میں کوئی تمیز ہی نہیں۔ بد تمیز کہیں کی۔

تہران ایئرپورٹ پر ایک اور چیز چونکادینے والی تھی، خواتین کا غیرمعمولی میک اپ اور فیشن، اول تو تقریباً ہر خاتون کم از کم مس ورلڈ بننے کی قابلیت رکھتی تھی، اس پر انتہائی سلیقے سے کیا گیا میک اپ اور بالوں کی جدید تراش خراش، دوپٹہ یا اسکارف تو بس کسی کھچا کھچ بھری مزدا سے لٹکتا مسافر تھا۔ ایک زور دار جھٹکا لگا اور نیچے۔ اس زوردار جھٹکے سے بچنے کے لیے ایرانی حکومت پورا زور لگارہی ہے۔ خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ ایئرپورٹ سے دین وایمان بچاکر نکلے تو تہران کی سڑکوں پر لٹنے کا وافر انتظام تھا۔ سڑکیں بھی ایسی صاف شفاف اور چمک دار کہ پھسلنے کو بہانہ بھی درکار نہیں۔ ہر سڑک کے ساتھ پیدل چلنے والوں کے لیے سر سبز وشاداب راستے۔ جا بجا فوارے۔ سنگی اور چوبی نشستیں، یا خدا یہ سڑکیں ہیں یا باغ بغیچے۔ ہم تو پہلی ہی نظر میں تہران والوں کے سلیقے، خوش ذوقی اور حسن انتظام کے قائل ہوگئے، سڑکوں پر کئی جگہ ٹریفک جام بھی ملا لیکن مجال ہے جو ایک بار بھی ہارن سنائی دیا ہو۔ سجا سجایا شہر بنے سنورے لوگ۔ پہلے ایک ڈیڑھ گھنٹے میں ہی اچھا خاصا احساس کمتری محسوس ہونے لگا۔

I Will do it

فندق کوثر، خیابان ولی عصر، میزبانوں کی ہدایت تھی یہ پتا یاد رکھیں، بھٹک جائیں تو پوچھ پاچھ کر پہنچ جائیں، پاسپورٹ ہوٹل والوں کے قبضے میں چلاگیا، ایرانی حکومت نے کچھ نوجوانوں کو گائیڈ اور ٹرانسلیٹر مقرر کیا تھا۔ پاکستان والوں کے حصے میں آئے آقائی شوقی۔ کچھ گھبرایا گھبرایا سا وہ نوجوان انگریزی سے وہ سلوک کرتا جیسے یہ صرف امریکیوں کی زبان ہو۔ عربوں کے حصے میں آئیں خانم نجمہ۔ خوش شکل خوش مزاج، خانم نجمہ سب سے سمجھ دار تھیں، ضرورت پڑنے پر دوسرے مہمانوں کی راہ نمائی بھی کرتیں۔ ہمیں تو اپنا نام نجمہ بتایا تھا، لیکن ان کے ساتھی خانم جولائی پکارتے، مجھے اس سرنیم پر بڑی حیرت تھی، یعنی جون کے بعد جولائی۔ ایران میں یہ بھلا کیسا سرنیم ہے۔ موقع ملنے پر پوچھا تو پتا چلا جولائی نہیں جولاہی یعنی جولاہے کی بیٹی۔ ہمارا زیادہ واسطہ آقائی شوقی سے پڑتا، جن کا تکیہ کلام تھا:

I Will do it

آقا ہمیں ابھی تک سم نہیں ملی۔ آئی ول ڈو اٹ۔ ڈالر دے کر تو مان کہاں سے لیں۔ آئی ول ڈو اٹ۔ واپسی کے ٹکٹ کنفرم نہیں ہوئے۔ آئی ول ڈو اٹ۔ شوقی بھائی سے کچھ بھی کہیے ان کا یہی جواب ہوتا۔ کرنا کرانا کچھ نہیں بس آئی ول ڈو اٹ۔ ہم بھی مزے لینے لگے۔ اردو میں چھچورپن کرتے۔ یار کمر میں خارش ہورہی ہے۔ آئی ول ڈو اٹ۔ جرابیں میلی پڑی ہیں۔ آئی ول ڈو اٹ۔ اسے سمجھنا تھا نہ کچھ کرنا تھا۔ کیا پتا دل میں ہم پر ہنستا بھی ہو۔

جس دن تہران پہنچے جمعے کی چھٹی تھی۔ جیب میں ڈالر دھرے تھے لیکن ایرانی کرنسی کے نام پر پھوٹی کوڑی نہیں تھی۔ میزبانوں نے مہربانی کی کہ آج کوئی سرکاری تقریب نہیں آپ تہران میں گھوم پھر سکتے ہیں۔ ہم نے سوچا پہلے ڈالر بُنھالیں پھر کریں گے عیاشی۔ باہر نکلے تو تقریباً ہوکا عالم، زیادہ تر دکانیں اور تمام بینک بند۔ پیدل چلتے چلتے ایڑھیاں دکھنے لگیں لیکن کسی صرافی یعنی کرنسی ایکسچینج کا سراغ تک نہ ملا۔ تھک ہار کر ہوٹل واپس آگئے۔ ہوٹل والوں سے پوچھا تو ٹکاسا جواب ملا کہ آرام سے بیٹھے رہو! بینک اور صرافی کل کھلیں گے سو کل ہی ڈالر بھنانا۔ بے بسی سی بے بسی۔ تہران میں بیٹھے ہیں۔ جیب میں ڈالر پڑے ہیں۔ کہیں آسکتے ہیں نہ جاسکتے۔ دو تو مان کی موم پھلیاں تک نہیں خرید سکتے۔ خدایا یہ دن بھی دیکھنا تھا۔ ہوٹل کے سامنے سنیما گھر تھا بڑا دل چاہا کہ چل کر فلم ہی دیکھ لیں۔ بورڈ پر فلم کا نام لکھا تھا۔ خوب کردی کہ برگشتی۔ اچھا کیا جو لوٹ آئے۔ کاشف کو جیسے ضد ہوگئی کہ فلم دیکھنی ہے تو دیکھنی ہے۔ ہوٹل کا منیجر اچھا آدمی تھا آتے ہی دوستی بھی ہوگئی۔ سوچا چلیے ایرانیوں کی دوستی آزماتے ہیں، حالاںکہ حافظ تو کہہ چکے ہیں:

ایں زماں درکس وفداری نہ ماند

آن وفاداراں ویاراں یاد باد

پھر بھی آزمانے میں کیا حرج۔ آقائی دبیر ذرا بات سنیے! ہم پردیسیوں کو آپ کے ملک کی فلم دیکھنی ہے، جیب میں صرف ڈالر ہیں، کیا آپ چند ڈالرز کے بدلے ڈھیر سارے تومان دے سکتے ہیں۔ دبیر یعنی منیجر صاحب پہلے تو مسکرائے پھر فرمایا دے تو سکتا ہوں لیکن زیادہ نہیں۔ ہم نے کہا خیر ہے کچھ تو گرہ ڈھیلی کیجیے۔ یوں ہم چند تو مان لیکر سینما جا پہنچے، ٹکٹ خریدنے کے بعد پتا چلا اگلا شو ڈیڑھ گھنٹے بعد ہے۔ کچھ دیر یونہی بیٹھے ٹامک ٹوئیاں مارتے رہے۔ پھر سوچا وقت بہت ہے کیوں نہ آوارہ گردی کرآئیں۔ سوا گھنٹے بعد لوٹے تو ٹکٹ کی کھڑکی پر بیٹھے آقا نے بے ساختہ کہا خوب کردی کہ برگشتی۔ فلم کے انتظار میں پندرہ منٹ تک لابی میں بیٹھنا قیامت ہوگیا۔ ایسی ایسی قیامت، ایسا ایسا رخِ زیبا اور ان کے ساتھ بیٹھے جوان رعنا۔ 6،6 فٹ قد، گٹھا ہوا بدن اوپر سے غضب کے خوش پوش۔ ہمارے اور ان کے بیچ کوئی ایک بھی قدر مشترک تو نہ تھی۔ صاف لگ رہا تھا ادھر ہم ادھر تم۔ اﷲ اﷲ کرکے قیامت کے وہ پندرہ منٹ ٹلے۔ ہال کے اندھیرے میں محمود وایاز ایک ہی صف میں آگئے۔ فلم ایک امریکا پلٹ ایرانی ڈاکٹر کی تھی، جس کا پڑوسی بچپن کا دوست بھی تھا۔

جان دار اداکاری اور مزاحیہ حرکتوں سے کچھ دیر تو ہم بھی محظوظ ہوتے رہے، لیکن جب ہوا کے گھوڑے پر سوار فارسی  مکالمے سر پر سے گزرنے لگے تو بوریت ہونے لگی، کاشف رضا تو باقاعدہ سوگئے۔ میں اس خیال سے جاگتا رہا کہ خراٹوں سے کہیں باقی لوگوں کی نیند خراب نہ ہوجائے۔ تین گھنٹے کی فلم تھی، لیکن ہم دونوں ڈیڑھ گھنٹے ہی میں کانوں کو ہاتھ لگاتے بھاگ نکلے۔ ایرانی فلمیں منفرد موضوعات، جان دار کہانی اور بہترین ٹریٹمنٹ کی وجہ سے ساری دنیا میں مقبول ہیں۔ لیکن یہاں مسئلہ یہ تھا کہ مزاحیہ فلم کے مکالمے پوری طرح سمجھ نہ آئیں تو خاک لطف آتا۔ ایران میں فلم انڈسٹری بہت مضبوط ہے۔ سرکاری سرپرستی بھی حاصل ہے۔ یونیورسٹی کی سطح پر فلم سازی باقاعدہ پڑھائی جاتی ہے۔ تہران میں تو فلمی عجائب گھر بھی ہیں۔ ہم پانچوں صحافی وقت نکال کر اس کی زیارت کے لیے گئے تھے، لیکن بد قسمتی سے دیر سے پہنچے، باہر ہی سے دیکھ کر واپس لوٹنا پڑا۔ کاشف کہنے لگا یار ہمارے یہاں تو فلمیں نہیں بنتیں یہاں فلموں کا میوزیم بھی بن گیا۔

میوزیم ہی میوزیم

تہران میں درجنوں میوزیم ہیں تاریخی، عسکری، مذہبی، فنی وغیرہ وغیرہ، قالینوں اور قیمتی پتھروں تک کے الگ میوزیم ہیں، فارسی میں میوزیم کو موذہ کہا جاتا ہے۔ ہمارا پہلا دورہ موذہ قصر کا تھا۔ تہران کے شمال مشرق میں وسیع وعریض باغ میں فتح علی شاہ قاچار نے تقریباً دو سو سال پہلے یہ باغ اور محل بنوایا تھا۔ محمد رضا پہلوی نے محل کو زندان بنادیا۔ یعنی زندان درگلستان، اب اسے میوزیم کی شکل دے دی گئی ہے۔ ایرانی انقلاب کے جدوجہد کے بڑے بڑے نام یہاں قید رہے، جن پر انسانیت سوز تشدد ہوا۔ میوزیم کے مختلف حصوں میں تصویروں اور آوازوں کے ذریعے ان کی کہانی بڑے موثر انداز میں بیان کی گئی ہے۔۔۔ایک سیل میں مشہور شاعر فرخی یزدی کا مجسمہ دیوار پر شعر لکھتا دکھایا گیا ہے:

بہ زندان قفس مرغ ولم کی شادمی گردد

مگر روزی کہ از ایں بندِ غم آزارمی گردد

میزبانوں نے ہمیں عسکری میوزیم بھی دکھایا۔ یہ میوزیم جتنا جدید ہے اتنا حسین بھی، یہاں جدید ٹیکنالوجی کے کرشمے حیران کرتے ہیں تو تخلیقی اپچ بھی ششدر کردیتی ہے۔ سب سے پہلے ایک نقشے پر نظر پڑی، جس میں قدیم ایران کی سرحدوں کی وسعت سندھ اور ملتان تک دکھائی گئی ہے۔ آگے بڑھے تو زیادہ زور عراق ایران جنگ پر نظر آیا۔ یہاں خرم شہر کا ایک محلہ بنایا گیا ہے جس میں حملے کے بعد کی کیفیت دکھائی گئی ہے، گولیوں سے چھلنی درودیوار، تباہ شدہ اسکول، گرد آلود گلیاں، چھت اور دیواروں سے محروم گھر، جن میں ٹوٹا پھوٹا فرنیچر اور کھلونے۔

ہمیں ایک کمرے میں داخل کیا گیا جہاں ایران کے سرد ترین خطے کا فوجی بنکر بنایا گیا ہے۔ سردی سے ایک بار تو دانت بج گئے، دوسرے دروازے سے جس کمرے میں داخل ہوئے وہ گرم ترین خطے کے بنکر کی نمائندگی کر رہا تھا، ایسا لگا جیسے کسی تنور میں آگئے۔ لمحوں میں احساس ہوگیا کہ گرم ترین اور سرد ترین خطوں میں فوجی کس طرح رہتے ہیں۔ بڑی سادگی اور سہولت سے بات سمجھا دی گئی۔ میوزیم میں دیکھنے، سیکھنے اور سمجھنے کو بہت کچھ تھا، صرف ہم ہی نہیں تقریباً ہر ملک کے لوگ متاثر نظر آئے، فیڈ بیک کے رجسٹر پر اتنا رش تھا کہ لائن بنانا پڑی، میوزیم میں کچھ عام سیاح بھی آئے ہوئے تھے جن میں عربوں کی خاصی بڑی تعداد تھی، خدا جانے سعودی تھے، بحرینی یا کوئی اور، عرب ملکوں کی طرح ایران میں بھی غیرملکیوں کو خارجی ہی کہا جاتا ہے، میں اور کاشف ساتھ تھے کہ کان میں آواز پڑی، این ایرانی نیست، خارجی است، میں نے کاشف سے کہا لو بھئی! پاکستان سے تو آپ شیعہ آئے تھے، یہاں ’’خارجی‘‘ ہوگئے۔

چُلّو کباب یا پلاؤ

کراچی میں چُلو کباب کھانا ہو تو خاص طور پر ایرانی ریستوراں کا رخ کرنا پڑتا ہے، جو لوگ اس ڈش کے شوقین ہیں وہ بھی کبھی مہینے میں دو چار بار ہی یہ عیاشی کرتے ہیں، لیکن تہران میں چُلو کباب روز مرہ کا کھانا ہے۔ اس کے مقابلے میں پلاؤ یا تو گھروں میں خاص خاص موقعوں پر بنتا ہے یا پھر صرف منہگے ہوٹلوں میں ملتا ہے۔ یوں کہہ لیجیے کہ چُلو کباب غریبوں کا کھانا ہے تو پلاؤ امیروں کا۔ تہران جاکر سمجھ آیا کہ واقعی ایک پلیٹ خشکا اس پر دو کچے پکے کباب دھر دیے، بھلا خرچہ ہی کتنا آتا ہوگا۔ یہ کراچی کے ایرانی ہوٹل والے تو خوب لوٹ رہے ہیں۔ تہران میں پلاؤ بھی طرح طرح کے کھائے۔ سبزیوں کے بھرتے اور دالوں کے سوپ بھی نوش جان کیے۔ لیکن نہیں بھائی! جو مزہ چھجو کے چوبارے۔۔۔۔وہ بلخ نہ بخارے۔ بے چارے کاشف رضا کو تو کہنا پڑا کہ بھائی! زبان کا مزہ تو ہم پر ختم ہے۔ میں نے کہا جی ہاں زبان کا مزہ ہم پر اور زبان دانی کا ایرانیوں پر۔

ہمہ زن ہا خوبان، ہمہ مردہا عاشقان

وہ جو چچا کہہ گئے ہیں

ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو

بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر

لاکھ دامن بچانے کی کوشش کیجیے لیکن پری وشوں کے ذکر کے بغیر گاڑی آگے ہی نہیں بڑھتی۔ تہران جاتے ہوئے وہم و گمان بھی نہ تھا کہ ایسے ایسے فتنے منتظر ہیں۔ حافظ نے ایسی ایسی کمال غزلیں کہہ ڈالیں تو بھائی کوئی کمال نہیں کیا۔ جلوؤں کا یہ ازدحام ہو تو کوئی کیسے شاعر نہ بنے، اور شاعر نہ بھی بن سکے تو شعر سے محبت کیے بغیر رہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بازار تو کچھ اور خریدنے نکلے تھے لیکن راستے میں سی ڈیز کی دکان پڑ گئی، باہر لکھا تھا کلام شاعر بہ زبان شاعر، اندر داخل ہوئے تو ایک خزانہ دھرا تھا، فرخ فروغ زاد سے احمد شاملو تک تقریباً ہر اہم فارسی شاعر کا کلام اس کی آواز میں دست یاب، حافظ، فردوسی، سعدی، مولوی اور جانے کتنے اساتذہ کا کلام بھی مختلف آوازوں میں موسیقی اور بغیر موسیقی تحت الفظ میں حاضر، بولو جی تم کیا کیا خریدوگے۔ دل تو چاہا پوری دکان خرید لیں، لیکن اتنے تومان اپنے پاس کہاں، چند سی ڈیز پر اکتفا کرنا پڑا۔ ہمارے یہاں مشاعرے تو بہت ہوتے ہیں لیکن اس طرح پروفیشنل انداز میں شاید ہی کسی شاعر کی سی ڈی مل سکے۔ ایرانیوں نے جدت اور روایت کو ساتھ ساتھ رکھا ہے۔

اس کا احساس تہران میں زیر زمین چلنے والی میٹرو ٹرین میں سفر کرکے بھی ہوا۔ جس اسٹاپ پر اتریے کچھ نہ کچھ مختلف اور آرٹسٹک، کہیں دیواروں پر بنے بڑے بڑے فن پارے، تو کہیں باقاعدہ آرٹ گیلری۔ ہر اسٹاپ کا انٹیریئر دوسرے سے جدا، یکسانیت کا احساس تک نہیں، ٹائلز اور دیواروں کا رنگ بھی الگ، تجسس ہوتا تھا۔ دیکھیے اب کیا دیکھنے کو ملے، ایک بار بھی مایوسی نہیں ہوئی۔ ٹرین بھی بہت آرام دہ اور تیز رفتار، تہران میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام کم ازکم مجھے تو بہت اچھا لگا، ایک کارڈ لے لیا تھا پاکستانی ڈیڑھ سو روپے کا، تین دن تک اسی پر میٹرو اور بسوں میں گھومتے پھرے۔ نہ ٹکٹ کی جھنجھٹ نہ کنڈیکٹر سے کھٹ پٹ۔ باقر قالیباف تہران کے میئر تھے، جنہوں نے کئی بڑے منصوبے بنائے اور کام یابی سے مکمل کیے۔ ایرانی صدارتی انتخابات میں اپنی یہی کارکردگی لے کر عوام کے پاس گئے تھے۔ حامیوں کا دعویٰ تھا کہ قالیباف نے جو منصوبہ شروع کیا مقررہ وقت میں مکمل ہوا۔

کسی ایک منصوبے کی تکمیل میں بھی ایک دن کی تاخیر نہیں ہوئی، صدارتی انتخابات میں قالیباف سمیت آٹھ امیدوار کھڑے تھے، سرکاری ٹی وی پر ان کے مباحثے نشر کیے گئے، جنہیں سن کر اندازہ ہوا کہ آٹھوں کا مطالعہ بہت وسیع ہے۔ تاریخ، مذہب، تمدن، یہاں تک کہ سائنس اور جدید معاشی نظام پر بھی عالمانہ بحثیں ہوئیں۔ اس وقت ایران کے بڑے مسائل مہنگائی، تیل کی برآمد پر انحصار اور بیرونی دنیا خصوصاً امریکا سے تعلقات ہیں۔ بیشتر امیدواروں کا زیادہ زور اس بات پر تھا کہ ملکی پیداوار بڑھائی جائے اور ہم سایوں کے ساتھ تجارت کو فروغ دیا جائے۔ کچھ کے خیال میں ایران کو اندرونی مسائل سے نمٹنا چاہیے۔ ملک سے باہر متنازع معاملات میں نہ پڑنا بہتر ہے۔ دوسروں کا خیال تھا شام، فلسطین، لبنان اور بحرین وغیرہ سے لاتعلق نہیں رہا جاسکتا۔ تہران میں زیادہ تر لوگ قالیباف کے حامی نظر آئے، لیکن ایک دکان دار سے بات ہوئی تو بولا ووٹ ہی نہیں ڈالے گا۔ اس کے خیال میں آٹھوں امیدواروں کو نگہبان شوریٰ نے منتخب کیا ہے پھر یہ عوامی انتخاب تو نہ ہوا۔ کہنے لگا اصل جمہوریت تو تمہارے ملک میں ہے۔ اس بات پر ہم چپ رہے ہم ہنس دیے، منظور تھا پردہ اپنا۔

احمدی نژاد سے ملاقات

بیگ، کیمرا، موبائل فون، گھڑی، پانی کی بوتل، آپ اپنے ساتھ کچھ بھی نہیں لے جاسکتے۔ میزبانوں نے ایک رات پہلے ہی خبردار کردیا تھا۔ صدر محمود احمدی نژاد سے ملاقات کے لیے سب ہی پرجوش تھے۔ ہمارے وفد میں سندھ یونیورسٹی کے کئی پروفیسرز نے خاص طور پر سفید شلوار قمیض پر اجرک اور سندھی ٹوپی اوڑھ رکھی تھی۔ پشاور کے ایک صاحب ملبوس تو پتلون قمیص میں تھے، لیکن سر پر باقاعدہ طرے والی کلاہ سجا رکھی تھی۔ کچھ مضحکہ خیز تو لگ رہے تھے لیکن بہرحال اپنے کلچر کی نمائندگی بھی کر رہے تھے۔ صدارتی محل میں تین چار جگہ تلاشی کے بعد ایک ہال میں بٹھایا گیا۔ سادہ سا کمرہ، معمولی کپڑے کے نیلے پردے، ڈیزائن اتنا سادہ اور پرانا کہ ہمارے یہاں کوئی اپر مڈل کلاس کا بندہ اپنے گھر لگانا پسند نہ کرے۔ کرسیوں میں سے بھی زیادہ تر کی وارنش پرانی اور بعض جگہوں سے اتری ہوئی۔ تھوڑی دیر میں سادہ سا کوٹ پتلون پہنے معمولی شکل و صورت اور قدوقامت کا شخص ہال میں داخل ہوا۔ لوگوں نے اٹھ کر استقبال کیا، سینئر پروٹوکول آفیسر آقائی انصاری نے استقبالیہ تقریر کی، واہ واہ کیا کہنے، ایسی مقفع اور مسجع تقریر، دل خوش ہوگیا، ایسا لگا کسی ادبی محفل میں بیٹھے ہیں اور ایک ادیب کبیر زبان دانی کے جوہر دکھا رہا ہے۔

انہوں نے احمدی نژاد کو خطاب کی دعوت دی، وہاں ایرانی صدر ڈائس پر آئے، یہاں کلاہ برداری پشاوری کھڑا ہوا۔ خان صاحب تیر کی طرح احمدی نژاد کے سامنے پہنچے، ہاتھ بڑھا کر کلاہ سر پر رکھنے کی کوشش کی۔ ایرانی صدر نے کلاہ ہاتھ میں لے کر اسے چوما، اتنی دیر میں سیکیوریٹی پر مامور ایک شخص قریب پہنچ گیا، اور کلاہ ان کے ہاتھ سے لے لی، خان صاحب شاداں و فرحاں اپنی نشست پر آبیٹھے، پورا ہال سناٹے میں تھا کہ بھلا کیسے کوئی یہ ہمت کرسکتا ہے، دوسرے تو حیران و پریشان تھے ہی، لیکن ہم پاکستانی دل میں کہہ رہے تھے کہ بھائی یہ ہمت کوئی پٹھان ہی کرسکتا تھا۔ میرے برابر بیٹھے ایک ہندوستانی صاحب بولے دیکھو! کیسا عجیب آدمی ہے، جھوٹی (اُترن) پگڑی پہنا رہا تھا، میں نے کہا نہیں جناب وہ تو احمدی نژاد کو پگڑی بدل بھائی بنا رہا تھا، اس پر وہ چپ ہوگئے، میں دل میں خان صاحب کی ذہانت کی داد دے رہا تھا کہ کسی تھیلی وغیرہ میں لائے ہوتے تو سیکیوریٹی والے باہر ہی رکھوا لیتے۔

احمدی نژاد نے تقریر شروع کی سادہ سا لہجہ، عام فہم الفاظ، لیکن کچھ ہی دیر میں میری وہ حالت ہوگئی کہ دل چاہ رہا تھا کھڑے ہوکر واہ واہ سبحان اﷲ کے نعرے لگاؤں، کوئی تقریر سی تقریر تھی، تصوف سے بات شروع کی، فلسفے پر آئے، انسان کی حقیقت اور خدا سے تعلق کو بیان کیا، مغرب کے معاشی نظام کا جائزہ لیا، کمیونزم کا پوسٹ مارٹم کیا، اسلامی نظامِ انصاف پر روشنی ڈالی اور پھر خدا کی بندے سے محبت پر کلام تمام کیا۔ کلام الملوک، ملوک الکلام ۔ تقریر سن کر اندازہ ہوا کہ سیدھا سادہ، معمولی شکل و صورت والا یہ شخص کیسے آٹھ سال تک ان ایرانیوں کا صدر رہا ، جو حسین بھی ہیں اور ذہین بھی، انہیں اپنی ہزاروں سال کی تہذیب پر فخر ہی نہیں بلکہ کسی حد تک احساس برتری بھی ہے۔ محمود احمدی نژاد کو میں ایک انجینئر کی حیثیت سے جانتا تھا اس تقریر سے اندازہ وہا کہ وہ تو ادیب اور مقرر بھی بلا کا ہے۔

میں سوچ رہا تھا ہمارا بڑے سے بڑا سیاست داں ڈیڑھ دو سو سال میں بھی ایسی تقریر نہیں کرسکتا۔ میں تو سوچتا رہا گیا اور ہمارے وفد کے باقی لوگ احمدی نژاد سے ملنے لپک پڑے۔ سیکیوریٹی والوں نے گھیرا ڈال لیا اور ایرانی صدر سچ مچ عام لوگوں میں گھل مل گئے۔ چانڈیو صاحب نے تو ان کے بوسے بھی لے ڈالے۔ بعد میں بڑے فخر و انبساط سے اپنا کارنامہ بیان کیا تو میں نے چھیڑتے ہوئے کہا بس جی معاملہ ختم، اب تو سندھ میں دو ہی بندے ہیں ایک مظفر ٹپی اور دوسرا چانڈیو پپی، ان کو یہ مشورہ بھی دیا کہ جاتے ہی اپنے اخبار کی سرخی لگائیں، چانڈیو پپی لے اڑا؟ وہ ہنسے تو بہت لیکن خوش اتنے تھے کہ برا بالکل نہیں منایا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔