اپوزیشن اورحکومت،جمہوری نظام کے دوپہیی ہیں؟

راؤ منظر حیات  پير 12 نومبر 2018
raomanzar@hotmail.com

[email protected]

جیسے ہی کوئی جیدسیاستدان اپوزیشن کے جادوئی بینچوں پربیٹھناشروع کرتاہے۔یعنی صوبائی،قومی اسمبلی یا سینیٹ میں اقتدارسے علیحدہ ہوکرمجبوری کے عالم میں حزبِ اختلاف کاحصہ بنتاہے، اس میں فوراً بلکہ یکایک ایک جوہری تبدیلی آتی ہے۔ اخلاقیات کے بلند اُصولوں کی سرفرازی کی بات کرنے لگتا ہے۔ جمہوریت کے تسلسل کے لیے نغمہِ سراہوجاتاہے۔اس کے اندرعوام کی فلاح وبہبودکے لیے ایک جذبہ موجزن ہوتا ہے جو اقتدار کی مسندپرمکمل طورپر منجمد رہتاہے۔اسے لگتاہے کہ حکومت ہرمعاملے میں غلط درغلط ہے۔ اس کا عین فرض ہے کہ ملک کی خدمت کرنے کے لیے موجودہ حکومت کوختم کرنے کی بھرپورکوشش کرے۔

ملک کے سیاستدانوں کی اکثریت کوآپ صرف ایک کسوٹی پرپرکھ سکتے ہیں۔اقتدارکے تخت پرجم کر بیٹھے ہوئے ہیں یافی الوقت گردشِ زمانہ کاشکار ہیں۔ پنتیس برس مسلسل اقتدارمیں رہنے کے بعدآج آل شریف بالکل اسی بحرانی کیفیت سے گزررہی ہے۔ سیاست کی اعلیٰ ترین اقدار،میرٹ کی حکمرانی، احتساب کے اندر برابری کاسلوک اورانصاف۔یہ سب کچھ گردان کی صورت میں شریف خاندان اوران کے حواری اداکیے جا رہے ہیں۔محترم شہبازشریف نے توقومی اسمبلی میں یہ بھی فرمایاہے کہ حکومت اور اپوزیشن دراصل گاڑی کے دوپہیے ہوتے ہیں۔

ان پہیوں کی قومی اہمیت کے باعث ہی جمہوریت کی گاڑی چلتی ہے۔خوب فرمایا ہے۔ درست فرمایاہے۔ مگردیکھناتویہ چاہیے کہ جب وہ بذات خود اقتدارکُل کے مالک تھے،جب ان کی مرضی کے بغیر صوبے اور مرکز میں پتا بھی نہیں ہل سکتاتھا۔اس وقت ان کاعملی رویہ اپنے سیاسی حریفوں کے ساتھ کیساتھا۔ کیا حکومتی جام کے نشے میں انھیں واقعی کسی سے بھی انصاف کرنایاد رہا تھا۔کیاواقعی مسندِاقتدارپربیٹھ کرانھیں میرٹ لفظ کے معنی تک یادتھے۔میرٹ پرکام کرناتودورکی بات، کیا انھیں کبھی گمان بھی ہواتھا،کہ میرٹ نام کی چڑیا حکومت میں اہم ترین ہوتی ہے یااس کے پرکاٹ کر رکھنا  ضروری ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اَل شریف نے اپنے دورِ اقتدار میں جمہوریت کے اعلیٰ اُصولوں کی کبھی پاسداری نہیں کی۔

اپنے سیاسی حریفوں کوذاتی دشمن گردانا۔ سیاستدانوں میں تفریق توخیرسب کے سامنے ہیں۔ بیوروکریسی میں دھڑے بناڈالے۔مسلم لیگ ن کی بیوروکریسی اوراپنے سے وفادار افسروں کو اسطرح نوازا، کہ اس کی مثال مغلیہ دورکے زوال والے دورمیں بھی نہیں ملتی۔ایک گریڈ اٹھارہ کے افسرکی تنخواہ ڈیڑھ لاکھ اوراسی گریڈمیں چہیتے افسرکی تنخواہ بیس لاکھ۔یہ تو بادشاہوںکے دورمیں ہوتا تھا۔مگرصاحبان،یہ شاہی طورطریقے پنجاب میں گزشتہ تین دہائیوں سے مسلسل ہوتے رہے ہیں۔ سندھ کے اندربھی معاملات ایک ہی خاندان کی نوازشات کے اردگردگھومتے رہتے ہیں۔سندھ کانوحہ کسی اوروقت لکھوںگا۔پیپلزپارٹی کے خاصہ داروں نے پورے صوبے کوجاگیرمیں بدل دیا ہے۔ وہاں میرٹ کاذکرکرنا مذاق ہے۔

پنجاب کی طرف آئیے۔صرف تین چارماہ قبل ہی محترم شہبازشریف کی دس سالہ حکومت کادوراختتام پذیرہواہے۔ماضی میں نہیں جاناچاہتا۔کیونکہ پنجاب میں وزیراعلیٰ اگروائیں صاحب بھی تھے۔ تو اقتدار ’’برادرخورد‘‘ کی انگلیوں میں ہی تھا۔ان طلسماتی انگلیوں کوبائیس کروڑ عوام نے لاتعدادبار،ٹی وی شوز، مناظروں، انٹرویوزاور جلسوں میں دیکھاہوگا۔چلیے،بالکل غیرجانبدار طریقے سے تجزیہ کیجیے کہ محض ایک دہائی میں کیاکیاگُل کھلائے گئے ہیں۔کیسے اقتدارکو شخصیت پرستی میں تبدیل کردیا گیا۔ اورکیسے اپنی سوچ سے مختلف لوگوں پر زندگی تنگ کی گئی۔ عرض ہے،ابھی ماضی کی داستانوں کا ذکرنہیں کرناچاہتا۔ صرف حافظہ کودرست کرنے کے لیے گزشتہ دس برس کی طرف ہی نظردوڑالیجیے۔

موصوف یعنی محترم شہبازشریف فرماتے ہیں کہ اپوزیشن اورحکومتی ارکان دراصل نظام چلانے کے لیے بے حداہم ہیں۔ان میں باہمی تعاون حددرجہ درکار ہے۔ بالکل درست بات ہے۔مگرکیاگزشتہ دس برسوں میں مسلم لیگ ن کی حکومت  نے اس جمہوری اُصول کو کبھی عملاً یادرکھاتھا۔کبھی اپوزیشن سے اس قدرتعلق بھی رکھا تھاکہ ان کی جائزبات ہی سنی جائے۔ ہرگز نہیں۔ صاحب، قطعاًنہیں۔اپوزیشن سے رابطہ، ان کی عزت وتکریم کرنا تودورکی بات، مسلم لیگ ن،یعنی حکومتی پارٹی کے ممبران اسمبلی،جناب وزیراعظم اوروزیراعلیٰ سے ملاقات کے لیے ترستے تھے۔کیاآپ یقین کرینگے کہ بہت سے ایسے حکومتی ارکان ہیں جن کی وزیراعلیٰ صاحب سے دودوسال،ون ٹوون ملاقات نہیں ہوئی۔ نام نہیں لکھنا چاہتا۔

اسلیے کہ شروع میں عرض کی تھی کہ مقصد صرف اورصرف حقائق کو یاد کرانا ہے۔ ایک صوبائی وزیر ملے۔ یہ آٹھ ماہ پہلے کی بات ہے۔ فرمانے لگے کہ وزیراعلیٰ تو دورکی بات،مجھے تووزیراعلیٰ کاسیکریٹری تک ملناپسندنہیں کرتا۔ہاں،چندایسے ’’گرو‘‘ قسم کے ارکان تھے،جنھوں نے جناب شہباز شریف کے اسٹاف کوہرطریقے سے قابو کررکھاتھا۔ان کا کوئی جائزیا ناجائز کام نہیں رُکتاتھا۔بلکہ انھیں تو وزیراعلیٰ تک جانے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ ان کاہرکام کمال آسانی سے ہوجاتاتھا۔ویسے اس کھیل میں کئی انتہائی ایماندار سرکاری ملازم بھی شامل تھے۔ وہ انتہائی کائیاں طریقے سے ہرپوسٹنگ حاصل کرنے کی مہارت رکھتے تھے۔

اس دورکی بیچاری اپوزیشن کاذکرکرناتوعبث ہے۔ ممبران جن میں پی ٹی آئی کی تعداد واضح تھی، ان پر سرکاری دفاترکے دروازے بندکردیے گئے تھے۔ اپنے حلقوں میںکسی کاجائزکام بھی نہیں کراسکتے تھے۔ پورے صوبے کی سرکاری مشینری کاہرفرد،حزب اختلاف کے لیے صرف ایک جملہ استعمال کرتاتھا،کہ آپکا کام نہیں ہوسکتا۔ جائزکام کی بات کررہاہوں۔اسلام آباد اور لاہورکاایک دفتریا بابو بتادیجیے،جس نے سابق وزیراعلیٰ کے دس برسوں میں اپوزیشن کے ممبران کوگھاس ڈالی ہو۔ اس دور میں سیاسی حریفوں کے خلاف مقدمات درج کرانا عام روٹین تھی۔ ان دس برس میں اگرحزب اختلاف کاکوئی ممبرتھانہ اورکچہری میں خوارنہیں ہوا،تووہ قسمت کادھنی ہی ہوسکتاہے۔

حزب اختلاف کو چھوڑیے۔ٹوبہ ٹیک سنگھ کے جس محترم حکومتی ایم این اے نے جناب میاں نوازشریف کے سامنے صرف یہ بات کرنے کی جرات کی تھی،کہ ایم این اے اسکول کے بچے نہیں ہیں اورنہ ہی محترم وزیراعظم،آپ ہیڈ ماسٹر ہیں۔ اس کے ساتھ کیا ناروا سلوک کیاگیا،یہ سب کومعلوم ہے۔ان کے متعلق ضلعی انتظامیہ کوباقاعدہ احکامات جاری کیے گئے تھے،کہ ان کاکوئی کام نہیں ہوناچاہیے اورہوابھی یہی۔یہ صرف دوڈھائی سال پہلے کی بات ہے۔چاہیں توآپ اس واقعہ کوبذات خودتصدیق کرسکتے ہیں۔

چلیے،سارے معاملات کونظرانداز کر دیجیے۔ میاں صاحبان کے دورِاقتدارمیں قومی اورصوبائی اسمبلی کے اسپیکروں نے حزب اختلاف کے کتنے ممبران کے ’’پروڈکشن آرڈر‘‘جاری کیے تھے۔ اگر غلطی سے کوئی جاری ہوبھی گیاہو،تواس پرکتناعمل ہوا تھا۔یاداشت میں ایک بھی ایساجمہوری واقعہ نہیں ہے جس میں اسپیکر صاحب نے جرات کرتے ہوئے اس اچھی روایت کی پاسداری کی ہو۔اسپیکرصاحبان فیصلوں میں کتنے آزاد تھے،یہ سب کومعلوم ہے۔قومی اسمبلی کے موجودہ اسپیکر نے بہرحال ایک محترم رویہ اپنایا ہے۔ میاں شہباز شریف صاحب کودوبار قومی اسمبلی میں پیش کرایا گیا ہے۔ چھوٹے میاں صاحب وہاں کھل کر اپنی بات کرتے رہے۔اب ان کایہ فرماناکہ اپوزیشن اور حکومت، جمہوریت کی گاڑی کے دولازم وملزوم پہیے ہیں، بجا ہے۔ مگران کے بڑے بھائی صاحب اوران کے اپنے دورمیں اس جمہوری اُصول کی کوئی سنجیدہ مثال ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔آپ بھی تلاش کرنے کی کوشش کیجیے۔شائدہم سب کی رہنمائی ہوجائے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔