پاپولیشن ایشو!

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  پير 12 نومبر 2018
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

حال ہی میں ایک مغربی میڈیا نے خبر دی ہے کہ کم آبادی ، مغربی ملکوں کے لیے مسئلہ بنتی جا رہی ہے۔ یہ خبر پڑھ کر ہمیں بڑی حیرت ہوئی کہ ہم اور ہمارے تمام ہی پڑھے لکھے لوگ صبح و شام ایک ہی پیغام دیئے جا رہے ہیں کہـــ’’ آبادی کم کرو‘‘، بچپن میں بھی یہ اشتہار دیکھتے تھے کہ ’’ کم بچے خوشحال گھرانا‘‘۔ اب یہ خبر پڑھ کر لگا کہ شاید خبر ہم نے غلط سمجھی یا میڈیا سے کوئی پروف کی غلطی ہوگئی ہے چنانچہ ہم نے تجسس میں پوری خبر پڑھ ڈالی ۔ پڑھ کرمعلوم ہوا کہ یونیورسٹی آف واشنگٹن میں انسٹی ٹیوٹ فار ہیلتھ میٹرکس اینڈ ایویلویشن کے ڈائریکٹر، پروفیسر کرسٹوفر کا کہنا ہے کہ مغرب کے آدھے سے زائد ممالک میں بچے پیدا کرنے کی شرح پیدائش انتہائی کم ہے اوربہت جلد یہاں کم آبادی کے خطرناک مسائل سامنے آنے والے ہیں۔

خبر کے مطابق جیسے جیسے کسی ملک میں ترقی ہوتی ہے اور معاشی صورتحال بہتر ہوتی ہے وہاں شرح پیدائش کم ہو جاتی ہے اور ایسے مسائل سامنے آتے ہیں۔ آکسفورڈ انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن ایجنگ کے ڈائریکٹر جارج لیسن کے مطابق کم آبادی کے مسئلے پر معاشرے کو ڈیمو گرافک ( یعنی آبادیاتی) تبدیلی کے حوالے سے لوگوں کو اپنی روز مرہ زندگی میں بھی تبدیلیاں لانے پڑیں گئی اور ریاستوں کو ریٹائر منٹ کی عمر کی حد بھی بڑھانی پڑے گی۔

یہ بڑی عجیب بات ہے کہ جتنے ترقی یافتہ ممالک ہیں وہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے، یعنی وہاں کم آبادی کے نقصانات بتا کر عوام کو زیادہ بچے پیدا کرنے کی ترغیب دی جارہی ہے، کسی ملک میں بچہ پیدا ہونے پر انکریمنٹ دیا جاتا ہے، کہیں کوئی اور مراعات دی جاتی ہے، اور تو اور پڑوسی ملک چین میں تو لوگوں سے اپیل کی جا رہی ہے کہ آپ کم از کم ایک بچہ تو پیدا کریں مگر چینی عوام ہے کہ سنتی ہی نہیں۔ ہم نے کہیں پڑھا تھا کہ مغرب کے نامور مفکرین اور ماہرین ( مثلاً پلاس ، مالتھس وغیرہ)نے آبادی کم رکھنے کے لیے وہی باتیں کی تھیں جو آج ہمارے ملک میں عوام کو بتائی جاتی ہیں مثلاً بھوک اور غربت کا خوف وغیرہ ۔ایک اہم سوال یہ ہے کہ مغرب میں شرح پیدائش میں کمی کیوں واقع ہو رہی ہے؟یونیورسٹی آف واشنگٹن میں انسٹی ٹیوٹ فار ہیلتھ میٹرکس اینڈ ایویلویشن کے ڈائریکٹر، پروفیسر کرسٹوفر کے مطابق ایک وجہ تو کسی ملک میں ترقی اور معاشی صورتحال کا بہتر ہونا ہے جب کہ دیگر وجوہات میں :

1۔ کم عمری میں اموات

2۔ خاندانی منصوبہ بندی سے رجوع کرنے کا رحجان

3۔ خواتین میں تعلیم اور ملازمت حاصل کرنے کا رحجان

ان پروفیسر صاحب کی بات تو وزنی دکھائی دیتی ہے کیونکہ مغرب میں صحت کی دستیاب سہولت سے کم عمری کی اموات تو کم ہوگئیں لیکن دوسری طرف خاندانی منصوبہ بندی یہاں پھیل گئی اور خواتین میں تعلیم اور ملازمت حاصل کرنے کی شرح بھی بڑھ گئی ، ظاہر ہے کہ جب عورت گھر سے باہر وقت گزارے گی تو بچے کو کہاں وقت دے سکے گی ، یا تو بچہ پال لے یا باہر کی دنیا ۔خیرترقی یافتہ ممالک کی اس ترقی سے ان کی آبادی کا توازن تو خراب ہوا ہی اور مسائل بھی بڑھ گئے مثلاً جاپان میں 65 برس عمر کے لوگوں کی شرح آبادی 26 اعشاریہ 6 فیصد ہے جب کہ 14 برس سے کم عمر بچوں کی شرح آبادی 13 فیصد ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق سن 2060 میں بوڑھوں کی آبادی چالیس فیصد ہو جائے گی۔ جاپان کی آبادی گزشتہ کئی دہائیوں سے مسلسل کم ہورہی ہے اور یہی کچھ حال مغرب کے ترقی یافتہ ممالک کا ہے کہ جہاں بزرگ افراد کی پینشن بھی ریاست پر بوجھ بن رہی ہے جب کہ نوجوان آبادی کی شدید قلت بڑھتی جا رہی ہے۔

اس ساری صورتحال اورخبروں کے تناظر میں ہمارے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ ہم بھی اگر مغربی اور ترقی یافتہ ممالک کی ’نقالی‘ میں آگے نکل گئے تو کیا ہوگا؟ کیا ہم بھی مستقبل میں اپنے عوام سے اپیل کریں گے کہ ’ بس بھئی بہت ہوگیا، اب واپس پرانی اقدار کی طرف آجاؤ اور دل کھول کر آبادی میں اضافہ کرو‘۔ابھی تو ہمارے پاس موقع ہے کہ ہم کم آبادی کے نقصانات پر بھی غور کرلیں۔

کہیں ایسا تو نہیں کہ مغرب ہماری بڑھتی ہوئی آبادی سے کسی ’سوکن ‘کی طرح حسد کر رہا ہو کیونکہ بحیثیت مسلم اعدادو شمار کے مطابق سن 2010 تک پوری دنیا میںہماری آبادی ایک ارب ساٹھ کروڑ ( یعنی دنیا کی کل آبادی کا 23 فیصد) تھی۔ اس وقت عیسائیت کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا مذہب اسلام ہے۔ واشنگٹن میں واقع ایک بیورو ریسرچ سینٹر کی تحقیق کے مطابق اس صدی کے آخر تک اسلام دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن جائے گا، اسی طرح ہر مسلم عورت اوسطاً تین اعشاریہ ایک بچے پیدا کرتی ہے جب کہ اس کے مقابلے میں تمام مذاہب کو ملاکر بھی شرح پیدائش صرف دو اعشاریہ تین ہے۔مذکورہ بالا تمام حقائق اپنی جگہ درست صحیح مگر اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے ہاں بھی لوگ کم آبادی کرنے کا ہی فیصلہ کریں گے ، کیا ان کے قدم بھی اس جانب بڑھ رہے ہیں؟ پروفیسر کرسٹوفر کی بیان کردہ وجوہات کے مطابق جن سے کسی ملک کی آبادی تیزی سے کم ہوتی ہے وہ ہمارے ہاں بھی موجود ہیں اور ان میں دن بہ دن اضافہ ہی ہو رہا ہے یعنی

۱۔ خاندانی منصوبہ بندی سے رجوع کرنے کا رحجان۔ ۲۔ خواتین میں تعلیم اور ملازمت حاصل کرنے کا رحجان

غور کیا جائے تو اس کے نتائج ابھی سے سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں، مثلاً پہلے شادیاں جلد ہو جاتی تھیں اب شہروں میں جہاں لڑکیاں تعلیم حاصل کرنے جاتی ہیں اور پھر ملازمت بھی کرتی ہیں اس عمل سے ان کے اچھے رشتوں کا وقت نکل جاتا ہے اور پینتس چالیس سال کی عمر میں مناسب یا مرضی کا رشتہ نہ ملنے پر یاتو شادی نہیںہوتی یا پھر ہوتی ہے تو بچے نہیںہوتے کیونکہ عمر کا وہ حصہ نکل جاتا ہے کہ جب اولاد ہونے کے امکانات میڈیکل کے اعتبار سے زیادہ ہوتے ہیں۔بات یہ ہے کہ اب ہمارے مذہبی اور مشرقی نظریات بھی تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں اور خواتین بھی تعلیم اور ملازمت کے لیے گھر سے نکل رہی ہیں اور یہی وجوہات تھیں کہ جن سے مغرب میں آبادی کا بحران پیدا ہوا۔ حال ہی میں راقم کی نظر سے علامہ اقبال کے ایک انگریزی خطاب کا ترجمہ نظر سے گزرا جو ظفر علی خان نے اردو زبان میں کیا ہے جس کو بزم اقبال، لاہور نے شائع کیا، اس کی چند سطریں موضوع کے اعتبار سے یہاں پیش کرنا ، مذکورہ مسئلہ پر رہنمائی کا سبب بن سکتا ہے۔

’’ مغربی دنیامیں جب عورتوںنے گھر کی چار دیواری سے باہر نکل کر کسب معاش کی جدوجہد میں مردوں کاساتھ دینا شروع کیا تو خیال یہ کیا جاتا تھا کہ ان کی یہ اقتصادی حریت ، دولت کی پیداوار میں معتدبہ اضافہ کرے گی، لیکن تجربے نے اس خیال کی نفی کردی اور ثابت کر دیا کہ اس خاندانی وحدت کے رشتہ کو جو بنی نوع انسان کی روحانی زندگی کا جز اعظم ہے، یہ حریت توڑ دیتی ہے… اور عورتوں کی اعلیٰ تعلیم سے بھی جس حد تک کہ قوم کی شرح ولادت کا تعلق ہے، جو نتائج مرتب ہوں گے وہ بھی غالباً پسندیدہ نہ ہونگے۔‘‘یہ وقت ہے کہ ہمارے رہنما، اور منصوبہ بندی کرنے والوں سمیت ہم سب مل کر غور کریں کہ مغرب آج خاندانی منصوبہ بندی کے گناہ سے توبہ کر رہا ہے کہیں وہی گناہ ہم تو نہیںکررہے ہیں؟ کیا ہمیں بھی کل توبہ کرنا پڑے گی؟ اور سب سے اہم سوال ، کیا پھر اس غلطی کا ازالہ ہو سکے گا؟ آئیے غور کریں! صرف مذہبی نہیں ، معاشرتی نقطہ نظر سے بھی!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔