وزیراعظم کا دورہ چین… معیشت مستحکم ہوگی؟

فوٹو : ظفر اسلم راجہ

فوٹو : ظفر اسلم راجہ

وزیراعظم عمران خان کا حالیہ دورہ چین زیر بحث ہے اور حکومت کی جانب سے اس دورے کو سودمند قرار دیا جارہا ہے۔ اس دورے میں دونوں ممالک نے امریکی ڈالر کے بجائے اپنی اپنی کرنسی میں تجارت کا اعلان کیا اور اس کے علاوہ باہمی تعاون کے 15معاہدوں اورمفاہمتی یادداشتوں پردستخط بھی کیے۔

شنگھائی ایکسپو میں پاکستانی پویلین کو خصوصی اہمیت دی گئی۔ وزیراعظم عمران خان، چینی صدر شی جن پنگ، روسی وزیراعظم دمتری میدیدوف ودیگر سربراہان مملکت نے پاکستانی پویلین کادورہ کیااورپاکستانی برآمدات میں خصوصی دلچسپی ظاہرکی۔ ’’وزیراعظم عمران خان کے دورہ چین اور ملکی معیشت پر اس کے اثرات‘‘ کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت و بزنس کمیونٹی کے نمائندوں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔

ڈاکٹرفرخ سلیم
( ترجمان برائے معیشت وامور توانائی، حکومت پاکستان)

چین کے ساتھ مقامی کرنسی میںتجارت کا معاہدہ خوش آئند ہے لیکن ہمیں اصل فائدہ اس صورت میںہوگا جب ہمارے تاجراورایکسپورٹرزاس سے فائدہ اٹھائیںگے۔ یہ خوش آئند ہے کہ اب سی پیک منصوبے کا ’’فیزٹو‘‘شروع ہوگیا ہے اور حکومت پاکستان اسے لیڈکرے گی۔ اس حوالے سے ہماری ترجیحات کوچینی حکومت سپورٹ کرے گی اور ہماری کوشش ہوگی کہ زیادہ سے زیادہ پاکستانیوںکونوکریاں دلوائیں۔ چین سے 10ارب یوآن کی مقامی کرنسی میںتجارت کااصل معاہدہ 2011ء میں ہواتھاجو2014ء میں ختم ہوا لہٰذا اب اس کی تجدید اورتجارت کاحجم 20 ارب یوآن کر دیا گیا ہے جو خوش آئند ہے۔ چین کے ساتھ ہماری تجارت 15 ارب ڈالرکے قریب ہے جس میں چین کاحصہ 13 بلین ڈالرجبکہ ہماراحصہ صرف ایک ارب 80کروڑ ڈالرہے جس میں ہماری اپنی کمزوریاں ہیں۔

ہم پرانی 10ارب یوآن کی تجارت کاکوٹہ پورا نہیں کر سکے اور اس سے صحیح معنوں میں فائدہ نہیں اٹھایا جاسکا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ایکسپورٹرزتحقیق نہیں کرتے کہ وہاں کن اشیاء کی ڈیمانڈ زیادہ ہے۔ 2006ء میں پہلی مرتبہ چین سے فری ٹریڈ پربات چیت ہوئی لیکن بدقسمتی سے ہماری مذاکراتی ٹیم نے ہمیشہ مذاکرات میں اپنا ہی نقصان کروایا ۔ یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ ہمارا موقف کمزور ہے یا پھر سٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ نہیں لیا جاتا۔ ایف ٹی اے11سال پراناہے۔ میرے نزدیک ہمیں اپنے ملکی مفادات اور زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کا ازسر نو جائزہ لینا ہوگا تاکہ اس سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔ اس وقت چین اورامریکا کے درمیان بہت بڑی تجارتی جنگ چل رہی ہے اوردونوں ممالک نے ایک دوسرے کی200 ارب ڈالرکی اشیاء کی درآمدگی پرپابندی لگادی ہے۔

بھارت و دیگر ممالک اس موقع سے فائدہ اٹھا رہے ہیں لہٰذا ہمیں بھی اس بہترین موقع سے فائدہ حاصل کرنا چاہیے، اس کے لیے ہمیں خود کو تیار کرنا ہوگا اور چین کی مارکیٹ کو سمجھتے ہوئے کام کرنا ہوگا۔ چین 36 ارب ڈالرکی سویا بین درآمدکرتا ہے جس میں سے 16 ارب ڈالرکی سویابین وہ امریکا سے درآمد کرتا تھا لیکن اب امریکا سے درآمدگی نے بند کردی ہے، ہم اس خلاء کو پرُ کرسکتے ہیں لہٰذا اس طرف توجہ دینی چاہیے۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان کے چاروں صوبوں میں سویابین پیدا ہوسکتی ہے جن میں قلات، سبی، جہلم، اٹک، چکوال، پشاور اور حیدرآبادکے اضلاع شامل ہیں۔

میرے نزدیک ہمیں اپنی روایتی برآمدات سے ہٹ کرنئے سیکٹرتلاش کرنا ہوںگے تاکہ ہم چین کی بڑی تجارتی منڈی میں اپنا تجارتی حصہ وصول کرنے کے قابل ہوسکیں۔ سعودی عرب اورچین کی امداد سے ملکی معاشی بحران فی الحال تو ٹل گیا ہے لیکن اب ہم نے دنیا اورعالمی منڈیوں کو یہ پیغام دینا ہے کہ ہم اپنے ملک میں معاشی اصلاحات لارہے ہیں۔اس میں اہم بات یہ ہے کہ جب تک ہم ’’آئی ایم ایف‘‘ کے پاس نہیں جائیں گے تب تک دنیا ہماری بات پر یقین نہیں کرے گی۔ ورلڈبنک اور ایشیائی ترقیاتی بنک سمیت دنیاکاکوئی بھی بنک کسی ملک کوبیل آؤٹ پیکیج نہیں دیتا بلکہ یہ کام صرف اورصرف آئی ایم ایف کا ہے۔ 189 ممالک عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے رکن ہیں ۔ اس میں ہرملک کاایک خاص کوٹہ ہے اوراگرکسی رکن ملک کوکوئی مالیاتی مسئلہ درپیش ہو توآئی ایم ایف اس کی مددکرتا ہے۔ ہم بھی آئی ایم ایف کے رکن ہیں لہٰذا معاشی مشکلات میں وہ ہماری مدد کرتا ہے۔ ملکی معیشت کو اپنے پاؤں پہ کھڑا کرنے کیلئے ہمیں اپنی برآمدات میں اضافہ کرنا ہوگا۔

میرے نزدیک اس حوالے سے تین پہلو اہم ہیں جن پر فوری کام ہونا چاہیے۔ سب سے پہلے ہمیں اپنی بڑی برآمدی صنعتوں جن میں ٹیکسٹائل، گارمنٹس، سرجیکل آلات ، کھیلوںکے سامان و دیگر شامل ہیں توزیروریٹڈ رجیم بنایا جائے اور ان صنعتوں پر گیس و بجلی کی قیمتوں کااضافی بوجھ نہ ڈالاجائے۔ سی پیک کے پہلے فیز میں بجلی گھروں اور موٹرویز پر فوکس تھا لیکن اب چونکہ سی پیک کا فیز ٹو شروع ہو گیا ہے لہٰذا ہماری حکومت کی ترجیحات مختلف ہوں گی اور اس میں چینی حکومت ہمارے ساتھ مکمل تعاون کرے گی۔

سی پیک میں ہماری اولین ترجیح روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہے۔ ہم نے سپیشل اکنامک زونز میں چینیوں کو نہیں لانا بلکہ ہماری کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ پاکستانیوں کو یہاں ملازمتیں دلوائیں تاکہ لوگوں کی معاشی حالت بہتر ہوسکے۔ زراعت کے شعبے میں ہماری توجہ ٹیکنالوجی کی منتقلی پر ہے کیونکہ موجودہ موسمیاتی تبدیلیوںکومدنظررکھتے ہوئے اس پرکام بہت ضروری ہو گیاہے۔ 60 ارب ڈالرکی پیداوارکے لئے ہم تقریباً 400 ملین ایکڑفٹ پانی استعمال کررہے ہیں جو نہ صرف بہت زیادہ مقدار ہے بلکہ یہ پانی کا ضیاع بھی ہے۔

دنیا کے دیگر ممالک میں اتنی ہی پیداوار کیلئے صرف 40 ملین ایکڑ فٹ پانی استعمال ہوتا ہے۔ پانی کی کمی کی تشویشناک صورتحال سب کے سامنے ہے لہٰذا ہمیں اپنے اوراپنی آئندہ نسلوں کے لئے پانی محفوظ کرنا ہوگا۔پانچ برس قبل ہماری برآمدات 25 ارب ڈالر تھیں جبکہ بنگلہ دیش کی برآمدات 24 ارب ڈالرتھیں مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ آج ہماری برآمدات کم ہو کر 20 ارب ڈالرکی سطح پر آگئی ہیںجبکہ بنگلہ دیش کی برآمدات بڑھ کر 37 ارب ڈالرتک پہنچ گئی ہیں لہٰذا ہمیں اپنی برآمدات پر خصوصی توجہ دینا ہوگی۔

ملک شاہدسلیم
(صدر راولپنڈی چیمبرآف کامرس اینڈانڈسٹری)

حکومت پاکستان کی جانب سے چین کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے پر بات کرنے کے حوالے سے پاکستان کی تاجربرادری اور صنعت کار بہت خوش ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری ڈیوٹی فری اشیاء کی جوفہرست 57 اشیاء تک محدود تھی اب بڑھ کر350 تک پہنچ گئی ہے جبکہ ابھی چین کے ساتھ اشیاء کی تعداد مزید بڑھانے پربات چیت جاری ہے جو خوش آئند ہے۔ چین پہلے یہ اشیاء آسیان ودیگر ممالک سے درآمد کر رہا تھا جنہیں ان اشیاء پر چھوٹ حاصل تھی مگر پاکستان کو نہیں تھی لہٰذا اب ہمیں بھی چھوٹ ملنے سے اس کے اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔

ایک طرف ہمارا دعویٰ ہے کہ پاک چین دوستی سمندروں سے گہری اور ہمالیہ کی چوٹیوں سے بلند ہے مگر دوسری طرف چین بہت ساری اشیاء دوسرے ممالک سے ڈیوٹی فری درآمد کر رہا تھا مگر ان اشیاء پر ہمیں کوئی چھوٹ نہیں تھی حالانکہ ہمیں بھی ان پر رعایت ملنی چاہیے تھی۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ماضی کی حکومتوں نے بھی اس پر توجہ نہیں دی اور نہ ہی چین سے بات کی تاہم اب موجودہ حکومت کی جانب سے یہ معاملہ زیر بحث لایا گیا جو قابل تعریف ہے۔ حکومت نے اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے چین سے بات کی اور اب معاملات قدرے بہتری کی جانب جارہے ہیں۔

چین کے ساتھ ہماری تجارت کا حجم تقریباً14 ارب ڈالر ہے جس میں چین کا حصہ 12 ارب ڈالر جبکہ ہمارا حصہ 2 ارب ڈالر سے بھی کم ہے جسے متوازن بنانا انتہائی ضروری ہے کیوں کہ ہمارا سب سے زیادہ تجارتی خسارہ بھی چین کے ساتھ ہی ہے۔ حالیہ دورے میں چین کے ساتھ اس طرح کے اہم معاملات پر بات چیت خوش آئند ہے اور پاکستان کی تاجر برادری اسے سراہتی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان ڈالرکے بجائے یوآن اور روپے میں تجارت سے بھی بہت زیادہ فائدہ ہوگا۔ میرے نزدیک زرمبادلہ کی بچت کیلئے اس فیصلے پر جلد از جلد عمل ہونا ضروری ہے۔ ایک اور امر غور قابل ذکر ہے کہ ہمارا خام مال یہاں سے چین جا رہا ہے۔ شمالی علاقہ جات سے نکلنے والا پتھر بھی چین چلا جاتا ہے جبکہ چین اس کی فنشنگ کرکے پوری دنیا میں اپنا روبی اور زمرد مہنگے داموں فروخت کرتا ہے۔

اس حوالے سے تشویشناک بات یہ ہے کہ ہم بلاسٹنگ کے ذریعے پتھر نکالتے ہیں جس میں 80 فیصد پتھر ضائع ہو جاتا ہے جبکہ جو 20 فیصد بچتا ہے وہ چین چلا جاتا ہے۔ ہمیں اس معاملے پر بھی چین سے بات کرنی چاہیے کہ نہ صرف جدید ٹیکنالوجی استعمال کی جائے بلکہ جوائنٹ وینچر کے ذریعے پاکستان میں فیکٹریاں لگائی جائیں۔ ایسا کرنے سے ایک طرف تو ہم زرمبادلہ کمائیں گے جبکہ دوسری جانب لوگوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوجائیں گے۔

جس سے لوگوں کی معاشی حالت بہتر کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ چین میں سولر انرجی بہت زیادہ ہے لہٰذا ہمیں چین سے اس ٹیکنالوجی کے حصول کے حوالے سے مدد لینی چاہیے۔ اس سے نہ صرف سستی بجلی پیدا ہوگی بلکہ توانائی بحران کا خاتمہ بھی ممکن ہوسکے گا جس کے نتیجے میں ہماری صنعتی ترقی ہوگی اور برآمدات میں بھی اضافہ ہوگا۔ سی پیک صنعتی زونز سے ہماری مقامی صنعتوں کو نقصان ہوسکتا ہے اور ہماری رہی سہی صنعت بھی ختم ہوسکتی ہے۔ میرے نزدیک حکومت کو چین سے بات کرنی چاہیے کہ صنعتی زونز میں تیار ہونے والا مال صرف ایکسپورٹ ہوگا اور مقامی مارکیٹ میں فروخت نہیں ہوسکے گا۔ پوری دنیا میں یہی سسٹم رائج ہے اور ہمارے خطے میں بھی اس کی کئی مثالیں موجود ہیں لہٰذا ایسا کرنے سے ہماری مقامی صنعت کو تحفظ ملے گا۔

احمد حسن مغل
(صدر اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری)

وزیر اعظم عمران خان کاحالیہ دورہ چین اوراس دوران ہونے والے معاہدے خوش آئندہیں۔ مقامی کرنسی میں تجارت کا فیصلہ بہت اہم ہے، اس سے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا ملے گا اور ہمیں 15 ارب ڈالر کافائدہ ملے گا۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ویلیوایڈیشن پر توجہ نہ دینا ہے۔

چین کے ساتھ سب سے زیادہ تجارتی خسارہ ہے لہٰذا ہمیں اپنی برآمدات بڑھانے اور تجارتی خسارہ کم کرنے کیلئے ویلیوایڈیشن پر توجہ دینا ہوگی ۔ میرے نزدیک اس کے علاوہ کوئی اور حل ہے اور نہ کوئی شارٹ کٹ، حکومت کو تندہی سے اس پر کام کرنا ہوگا۔ ہمارے ملک میں سیاحت کے شعبے میں بہت پوٹینشل موجود ہے۔ یہاں ایسے سیاحتی مقامات موجود ہیں جسے دیکھ کر لوگ دنگ رہ جائیں گے لہٰذا صرف سیاحت اورسروسز پرتوجہ دینے سے ہم کثیر زرمبادلہ کما سکتے ہیں۔

اس حوالے سے ہمیں اپنی ہوٹل انڈسٹری کو بہتر کرناچاہیے۔ سب سے اہم یہ ہے کہ امن وامان کی صورتحال بہتر بنا کر ہم سیاحوں کا رخ پاکستان کی طرف موڑ سکتے ہیں۔ ہمارے سیاحتی مقامات سوئٹزر لینڈ سمیت دنیاکے کسی بھی ملک سے کم نہیں ہیں۔ ان پر توجہ دینے ،انہیں بہتر بنانے اور لوگوں کو ان مقامات کے حوالے سے بتانے کی ضرورت ہے لہٰذا ہمیں پاکستان ٹوررازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن (پی ٹی ڈی سی) ودیگر سیاحتی اداروںکو فعال بنانا ہوگا۔ اگر تھائی لینڈ جیسا ملک صرف سیاحت کے بل بوتے پر چل رہا ہے تو ہم اس شعبے سے زرمبادلہ کیوں نہیں کماسکتے ۔ ہمیں زرمبادلہ کی اشد ضرورت ہے لہٰذا سیاحت پر توجہ دی جائے۔ ہمیں مذہبی ٹورازم پر بھی خصوصی توجہ دینا ہوگی کیونکہ اس شعبے میں بھی ہمارے ملک میں بہت زیادہ پوٹینشل موجود ہے۔

پاکستان میں سکھوں، بدھ مت اور ہندوؤں کے بڑے مقدس مقامات موجود ہیں۔ اس شعبے پر خصوصی کام کرنے کی ضرورت ہے۔بھارت سمیت تمام ممالک اپنے سیاحتی اور تاریخی مقامات کو محفوظ بنا رہے ہیں اور سیاحوں کو اپنی طرف راغب کر رہے ہیں۔ بھارت میں غیر ملکی سیاحوں کے لئے بڑے خطرات ہیں ، وہاں خواتین سیاحوں کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات بھی عام ہیں مگر اس کے باوجود دنیا بھر سے وہاں سیاح جاتے ہیں۔ ہمیں بھی سیاحت کو فروغ دینا ہوگا۔

دنیا کا 70 فیصد سرمایہ لندن کے بینکوں سے ہو کر جاتا ہے جس کی واحد وجہ برطانیہ میں سروسز کا اعلیٰ ترین معیار اور لوگوں کا ان کے سسٹم پر اعتماد ہے۔ ہمیں امن و امان کی صورتحال بہتر کرنے اور سروسزکو عالمی معیار کے مطابق بنا کر سیاحت دوست ملک بننا ہوگا۔ہمیں روایتی برآمدات کے بجائے غیر روایتی شعبوں کی طرف جا کر اپنا تجارتی خسارہ پورا کرنا ہوگا کیونکہ اس میں ہی ہمارے ملک کے تمام معاشی مسائل کاحل ہے ۔ میرے نزدیک ہمیں ڈر سے نکلنا ہوگا اور اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے دیگر ممالک کے ساتھ برابری کی بنیاد پربات کرنا ہوگی، اسی طرح ہی ہم اپنے ملک کیلئے کچھ حاصل کرسکتے ہیں ۔سی پیک سے یقینا پاکستان کو فائدہ ہوگا لیکن چین کواس سے زیادہ فائدہ ہوگا لہٰذا چین کبھی نہیں چاہے گا کہ اس منصوبے میں کوئی رکاوٹ پڑے۔ہمیں اپنی صنعت کو نقصان سے بچا نے کے لیے اس صورتحال کا فائدہ اٹھاناچاہیے اور اپنے ملک اورصنعت کے لئے زیادہ سے زیادہ فوائداوررعایتیں حاصل کرنی چاہئیں۔

عاطف اکرام شیخ
(نائب صدر فیڈریشن آف پاکستانچیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری)

وزیراعظم عمران خان کادورہ چین بہت اہم تھا اورتاجربرادری کی اس پر خاص نظرتھی۔ پاکستان اور چین میں ڈالر کے بجائے یوآن اور پاکستانی روپے میں تجارت کے بعد سے پاکستان اور تاجر برادری کو بہت فائدہ ہوگا ۔ اس کا سب سے بڑا اثر یہ ہوگا کہ ڈالر اپنی جگہ پر رک جائے گا اور ملکی معیشت سے غیر یقینی کیفیت ختم ہو جائے گی۔

ہمارا سب سے بڑا مسئلہ غیرروایتی برآمدات کی طرف نہ جانا ہے۔ میرے نزدیک سب سے پہلے ہمیں ویلیوایڈیشن کرنا ہوگی تاکہ ہماری برآمدات بڑھ سکیں اورتجارتی خسارہ کم ہو۔ ہمیںفری ٹریڈ معاہدوں کا فائدہ نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس مقابلے کے دور میں برآمد کرنے کیلئے کچھ نہیں ہے بلکہ ہم صرف پھل اور سبزیاں برآمد کرتے ہیں جبکہ بدلے میں ہماری مارکیٹوں میں ویلیوایڈیشن مال کی بھر مار ہو جاتی ہے لہٰذا ہمیں اس پر سوچنا ہوگا اور سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے پالیسی بنانا ہوگی تاکہ عالمی مارکیٹ میں ویلیوایڈیشن کے ساتھ جاسکیں اور مقابلہ کر سکیں ۔ اس پر ہمارے برآمد کنندگان کو خود بھی سوچنا ہوگا اور نئی مارکیٹوں کے ساتھ عالمی مارکیٹ میں چیزوں کی ڈیمانڈ کو مدنظر رکھنا ہوگا۔

آج کی جدید دنیا جو ایک گلوبل ویلیج بن چکی ہے وہاں ہم تھوڑی سی محنت کر کے پتہ چلا سکتے ہیں کہ ہماری کون سی اشیاء کن خطوں میں بہتر بک سکتی ہیں ۔ اس ضمن میں حکومت کو بھی ایکسپورٹرز کی رہنمائی کیلئے پالیسی گائیڈ لائنز بنانا ہوں گی تاکہ عالمی مارکیٹ میں ہم اپنی برآمدات کا شیئر وصول کر سکیں۔ میرے نزدیک اگرہم اپنے صنعتکاروں کو بجلی اور گیس کے شعبے میں کوئی رعایت نہیں دے سکتے تو جدید دنیا کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمیں کچھ اور کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنے پلانٹ نئی ٹیکنالوجی پر منتقل کرنا ہوں گے اور اس کے لیے جدیدمشینری کی درآمد پر ڈیوٹی اور ٹیکسوں کی مد میں رعایت دینا ہوگی تاکہ ہماری صنعت اپنے پاؤں پر کھڑی ہوسکے اور مسابقت کے اس دور میں دنیاکا مقابلہ کیا جاسکے۔

 زبیراحمدملک
(رکن ایگز یکٹو کمیٹی سارک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری)

ہم چین اور پاکستان میں ہونے والے معاہدوں اور مقامی کرنسی میں تجارت کے فیصلے کاخیرمقدم کرتے ہیں۔ ہمیں اپنی برآمدات بڑھانے کیلئے سنجیدہ کوششیں کرنا ہوں گی اور اپنی صنعت ،زراعت اور سروسز کے شعبوں کو بہتر بنانے کیلئے نئے سرے سے کوششیں کرنا ہوں گی کیونکہ ان شعبوں میں 60 سال سے کوئی ترقی نہیں ہوئی۔آخری مرتبہ صدرایوب خان کے دورمیں ہماری صنعتوں نے ترقی کی۔ اس کے بعد سے یہ شعبہ ایک جگہ رک گیا اور اب ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ ابتری کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ ہمارے ملک میں بہت زیادہ پوٹینشل ہے۔

ہماری معیشت کا 60 فیصد زراعت سے حاصل ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں چار موسم ہیں لہٰذا ہر طرح کی فصل یہاں اگائی جاسکتی ہے۔ ہمیں اس شعبے کو جدید بنانا ہوگا اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا ہوگا ۔ اس کے لیے ہمیں چین سے مدد لینی چاہیے ۔ ہم ماضی میں چین کی بہت مدد کرچکے ہیں۔ اس کی ایک مثال چین کی ایوی ایشن انڈسٹری ہے جو پاکستان نے کھڑی کی ہے۔ ہم نے انہیں تین ایئرکرافٹ دیئے تھے حتیٰ کہ پی آئی اے کا عملہ وہاں جاکرنہ صرف کام کرتا رہا بلکہ ان کے عملے کو تربیت بھی فراہم کی۔ چین کی جانب سے پاکستان کے ساتھ تعمیرات کی صنعت میں مدد کا اعلان اہم ہے ۔

ہمارے ملک میں اس شعبہ میں سرمایہ کاری کی بڑی گنجائش موجود ہے اور چینی بنک کی طرف سے سرمایہ کاری میں دلچسپی حوصلہ افزا ہے تاہم اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ نہ صرف اس منصوبے میں استعمال ہونے والا تمام تعمیراتی میٹریل پاکستان سے خریدا جائے گا بلکہ مزدور اورتکنیکی عملہ بھی پاکستانی ہی ہوگا تاکہ پاکستان کی تعمیراتی صنعت کو سہارا ملے اور بیروزگاری میں بھی کمی آئے۔

ہماری برآمدات بڑھنے کے بجائے کم ہورہی ہیںکیوں کہ ہماری کرنسی ڈی ویلیو ہوئی ہے ۔ پاکستانی روپے میں برآمدات کا ہندسہ اگرچہ اوپر گیا ہے لیکن ڈالر کے مقابلے میں ہمارے روپے کی گرواٹ کے باعث اصل میں ہماری برآمدات پہلے سے کم ہوئی ہیں۔حکومت کو برآمدات بڑھانے کے لئے اس شعبے میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کرنا ہوں گی ،موثر پالیسی بنا کر بڑی مستقل مزاجی سے اس پر کام کرنا ہوگا اورلوگوں میں اس سے متعلق آگاہی بھی پیدا کرنا ہوگی۔

بنگلہ دیش میں ٹیکس اصلاحات ہوئیں تو ان کی ساری کابینہ بازاروں میں چلی گئی اور لوگوں کو بتایا کہ آپ کا ریونیو ڈیپارٹمنٹ سے تعلق ختم ہوجائے گا۔ترکی کی مثال بھی ہمارے سامنے موجود ہے۔ انہوں نے بازاروں میں بوتھ لگا دیئے کہ خریداری کی رسید لے کر اس بوتھ میں ڈالنے پر ری فنڈملے گا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ ان کی معیشت کی ڈاکومنٹیشن ہوگئی۔پہلے انہوں نے ایک فیصدٹیکس لگایا بعدازاں وہ تین فیصد پر گئے اور پھر آہستہ آہستہ تیرہ فیصد پر پہنچ گئے جن سے ان کی معیشت مستحکم ہوئی۔ ہمیں دنیا کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی معاشی حالت بہتر کرنے کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے۔

رفعت فرید
(سینئر نائب صدر اسلام آباد چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری)

وزیراعظم کے دورہ چین سے تاجربرادری کوحوصلہ ملاہے تاہم ہمیں حقیقی فائدہ حاصل کرنے کیلئے ویلیوایڈیشن کرنا ہوگی اوراس کاایک ہی طریقہ ہے کہ ہم اپنے ملک میں جدیدٹیکنالوجی لائیں اور صنعتوں کو ان پر منتقل کیا جائے۔مشینری درآمد پر مختلف اقسام کی ڈیوٹی اور ٹیکس زیادہ ہے، ہمیں اپنی برآمدات بڑھانی ہیں تواس شعبے کوخصوصی رعایت دینا ہوگی۔میرے نزدیک یہ واحد طریقہ ہے جس سے ہم اپنی صنعت کومضبوط بنا کر مقابلے کی دوڑ میں لاسکتے ہیں۔

ایسا کرنے سے ہماری پیداواری لاگت کم ہوگی تو اشیاء سستی ہونگی اور پھر عالمی مارکیٹ میں ہماری فروخت زیادہ ہوگی لیکن اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر ہم سے مہنگی اشیاء کوئی نہیں خریدے گا اور ہم مقابلے کی دوڑ سے باہر ہوجائیں گے۔ پیداواری لاگت کم کرنے کیلئے ہمیں زراعت اور صنعت کے شعبوںمیں سبسڈی کی طرف جانا ہوگا مگر ہمارے ہاں اس کا الٹ ہورہا ہے اور ان شعبوں سے سبسڈی واپس لی جارہی ہے۔ایسی صورتحال میں برآمدات میں اضافہ مشکل ہوگا بلکہ تجارتی خسارہ بڑھنے کا خدشہ ہے۔

اگر یہی حال رہا تو ہمیں آئی ایم ایف کے پروگراموں پر انحصار کرنا ہوگا۔معاشی مسائل کا مستقل حل نکالنے اور خود انحصاری کی طرف جانے کے لئے ہمیں بڑے اور غیر روایتی فیصلے کرنا ہوں گے۔ ہماری ٹیکسٹائل کی برآمدات بہت اہم ہیں۔ ہم روئی کی 10لاکھ گانٹھیں برآمد کر کے تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالر زرمبادلہ کماتے ہیں جبکہ بنگلہ دیش یہ روئی پاکستان سے خرید کر ویلیوایڈیشن کرکے ساڑھے چھ ارب ڈالر رمبادلہ کما رہا ہے۔ ہمیں اس پر کام کرنا ہوگا۔ میرے نزدیک ہمیں چھوٹی صنعتوں کی طرف جانا چاہیے اور چین کی مددسے چھوٹے یونٹ لگانے چاہئیں ۔ہماری سب سے بڑی طاقت ہماری یوتھ ہے ، اس لئے اس سارے عمل میں ہمیں نوجوانوں کو شامل کرنا ہوگا۔ وزیراعظم یوتھ پروگرام کے تحت نوجوانوں کو چھوٹے یونٹ لگا کر دیئے جائیں ، اس سے نوکریاں اور روزگار دینے کا ٹارگٹ پورا کرنے میں مدد ملے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔