پاکستان میں ہرسال 92 ہزار بچے نمونیہ سے مرجاتے ہیں، مقررین

اسٹاف رپورٹر  پير 12 نومبر 2018
والدین بچوں کو نمونیہ سے بچاؤ کی حفاظتی ویکسین ضرور لگوائیں، ملک اور دنیا بھر میں ورلڈ نمونیہ ڈے آج منایا جائے گا
 فوٹو : فائل

والدین بچوں کو نمونیہ سے بچاؤ کی حفاظتی ویکسین ضرور لگوائیں، ملک اور دنیا بھر میں ورلڈ نمونیہ ڈے آج منایا جائے گا فوٹو : فائل

 کراچی:  پاکستان میں ہرسال 92 ہزار بچے نمونیہ کا شکار ہوکر انتقال کرجاتے ہیں ، والدین کوچا ہیے کہ وہ اپنے بچوںکو نمونیہ سے بچاؤ کی حفاظتی ویکسین لگوائیں،سرد موسم میں بچوں کا سرڈھانپ کررکھیں اورنومولودبچوںکوگرم کپڑے پہنائے جائیں، بریسٹ فیڈنگ کرانے والی مائیں سرد موسم میں ٹھنڈے پانی سے احتیاط کریں،پاکستان سمیت دنیا بھر میں ورلڈ نمونیہ ڈے 12 نومبرکو منایا جائے گا۔

صدر پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن (پی پی اے)، سندھ، چیئرمین اور ہیڈ آف پیڈیاٹرک پروفیسر ڈاکٹر جلال اکبر نے بتایاہے کہ نمونیا نظام تنفس میں شدید نوعیت کا انفیکشن ہوتا ہے جس سے پھیپھڑے متاثر ہوجاتے ہیں اورسانس لینے میں شدید تکلیف اور دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بالخصوص 5 سال سے کم عمر بچوں پر کپکپی ، بے ہوشی ، ہائیپو تھرمیا اورغنودگی طاری ہوجاتی ہے اور انھیں دودھ پینے میں بھی دشواری ہوتی ہے، عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں 5 سال سے کم عمر بچوں کی اموات میں سے 16 فیصد اموات کی وجہ صرف نمونیہ ہے جو 5 سال کی عمر تک پہنچنے سے قبل انتقال کر جاتے ہیں،دنیا بھر میں سالانہ 9لاکھ 20ہزار بچے اس مرض کا شکار ہو کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں،پاکستان کا شمار دنیاکے ان 5 ممالک میں ہوتا ہے۔

جن میں بچوں کی سب سے زیادہ اموات نمونیہ سے ہوتی ہیں،انھوں نے مزید بتا یاکہ خوش قسمتی سے نیموکوکل کنجوگیٹ ویکسین (نمونیا ویکسین) پاکستان کے ای پی آئی پروگرام میں اکتوبر 2012 سے شامل کی گئی تھی اورپاکستان جنوبی ایشیا کا پہلا ملک ہے جس نے اپنے قومی حفاظتی ٹیکوں کے پروگرام میں اس پی سی وی کو شامل کیا ہے،ڈاکٹر مشتاق اے میمن، جنرل سیکریٹری پی پی اے سینٹرل نے کہا کہ ہم صرف ہاتھ دھونے سے ہی کئی بیماریوں سے بچ جاتے ہیں،گلوبل ایکشن پلان، نمونیے کی روک تھام اور کنٹرول (GAAP) کا حصول اسی وقت ممکن ہے جب آگہی میں اضافہ کیا جائے، ہمیںوالدین میںنمونیے کی علامات کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے،اس سے پاکستان میں نمونیہ کو کم کرنے میں بڑی مدد ملے گی،اس لیے تمام معاشرے کے طبقات بشمول ڈاکٹرز، میڈیا، والدین اور ماہرین اطفال کو اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔