اور اب بچے بھی... کیا ریٹنگ اتنی ضروری ہے؟

راضیہ سید  بدھ 14 نومبر 2018
ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ ہمارے بچے گھروں سے تہذیب نہیں تخریب کے عناصر لے کر نکل رہے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ ہمارے بچے گھروں سے تہذیب نہیں تخریب کے عناصر لے کر نکل رہے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

’’مما کیا آپ کو میں بھینس کی طرح موٹی لگتی ہوں؟ کیا میں ایک آنکھ سے بھینگی ہوں؟ بتائیں ناں مما؟‘‘ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں ایک کم عمر بچی اپنی ماں سے سوال کرتی ہے۔ جواب میں ماں، بچی کو دلاسا دیتے ہوئے کہتی ہے ’’نہیں بیٹا ایسی بات نہیں۔ جو لوگ ایسا کہتے ہیں وہ غلط کہتے ہیں کیونکہ آپ بہت اچھی بچی ہیں۔‘‘

تھوڑی ہی دیر میں بچی پوچھتی ہے ’’پھر مما میری کلاس فیلوز کیوں کہتی ہیں کہ میں آپ کی طرح ہوں؟‘‘ اس کے ساتھ ہی کھی کھی کی آواز بلند ہونے لگتی ہے۔ یہ ہنسی اسی بچی کی ہوتی ہے جو اپنی ہی ماں کا تمسخر اڑا رہی ہوتی ہے اور کوئی بھی اسے اس بدتمیزی سے نہیں روکتا کیونکہ اس بدتہذیبی کے سکھانے میں ماں کا سو فیصد ہاتھ ہوتا ہے۔

اسی طرح کی ایک اور ویڈیو میں یہی بچی پھر ماں کے ساتھ بحث کرتی ہے۔ ماں، بچی سے کہتی ہے ’’فاطمہ، میز پر سے برتن اٹھاؤ۔‘‘ فاطمہ برتن اٹھانے میں ماں کی مدد نہیں کرتی اور کہتی ہے ’’مما میں آپ سے ناراض ہوں۔ مما آپ نے مجھے عیدی کیوں نہیں دی؟ چھوٹی بہن کو کیوں دی ہے؟‘‘

بے بس ماں (ایسے بدتمیز بچوں کی مائیں تو بے بس ہی ہیں جو پہلے ایسی تربیت کرتی ہیں اور پھر خود پچھتاتی ہیں) کہتی ہے ’’کیونکہ فاطمہ آپ کی بہن چھوٹی ہے اس لیے اسے عیدی دے دی ہے؟‘‘

بچی کہتی ہے ’’کیوں مما آپ تو نواز شریف سے بھی زیادہ کرپٹ ہیں، جس طرح شریف برادران نے لوگوں کے پیسے کھائے، آپ نے بھی میرے پیسے کھالیے ہیں۔ لیکن آپ کو کرپشن کی سزا کون دے گا؟ کون آپ کو نااہل کرے گا؟‘‘

بچی کی والدہ، جو یقیناً ان ویڈیوز کا اسکرپٹ خود ہی لکھتی ہیں، کہتی ہیں ’’رہنے دو فاطمہ! میں خود ہی برتن اٹھا لوں گی۔ میں نے ایسے ہی تمہیں کام کےلیے کہا اور تم نے جواب میں مجھے کتنی باتیں سنا دیں۔‘‘

پڑوسی ملک بھی اس معاملے میں ہم سے کہاں پیچھے ہے؟ وہاں بھی یہی صورتحال ہے۔ ایک ویڈیو میں ایک اور بچی کو ’’آئی لو یو‘‘ کہنے پر باقاعدہ اکسایا جا رہا ہے۔ بچی کہہ رہی ہے کہ یہ جملہ کہنا اچھا نہیں ہوتا مجھ سے نہیں کہا جاتا۔ لیکن دوسری طرف سے اصرار مسلسل جاری رہتا ہے اور پس پردہ خاتون یہ کہتی ہیں ’’آئی لو یو کہنا بری بات نہیں۔ کیا میں اتنی اچھی نہیں ہوں کہ آپ مجھے یہ جملہ کہیں؟‘‘

چند دنوں کے بعد ایک ایسا پٹھان بچہ سوشل میڈیا کی زینت بن جاتا ہے جو صرف غصہ ہی کرتا ہے۔ کبھی وہ بچہ اپنا بستہ مانگتا ہے تو کبھی ایئرپورٹ کی سیر کرتا ہے، کبھی غبارے پر تو کبھی کھلونوں پر لڑائی کرتا ہے۔ اس بچے کی ویڈیو شیئر کرکے گویا یہ بتایا جاتا ہے کہ پشتون افراد صرف غصہ اور جنگ و جدل ہی کرسکتے ہیں؛ اور جیسے ان میں کوئی اچھی بات ہے ہی نہیں۔

خیر اس بچے کی بدتمیزی کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور اسے اس کی معصومیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ کئی ٹی وی شوز میں اس بچے کے سامنے دوسرے بچوں سے کہا جاتا ہے کہ ویسے غصہ کرو جیسے یہ بچہ کررہا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ ایسی ویڈیوز جو آج کل سوشل میڈیا کی زینت بن رہی ہیں، کیا یہ کوئی مثبت اقدام ہے؟ کیا یہ سوشل میڈیا کا درست استعمال ہے؟ کیا ہم ایک باشعور قوم بن رہے ہیں یا ہمارا بھی وہی حال ہے کہ کوا چلا ہنس کی چال، اپنی بھی بھول گیا؟ کیا یہ دیکھنا ضروری نہیں کہ ایسے بچوں کو بدتہذیب بنانے میں ان کے والدین اور اساتذہ کا ہاتھ ہے کیونکہ معصومیت، کیوٹنس، بدتمیزی اور بدتہذیبی میں فرق ہے۔

بالکل اسی طرح جیسے مذاق کرنے اور اڑانے میں لکیر برابر فرق ہے۔ قابل مذمت یہ ہے کہ لوگ ان ویڈیوز کو نہ صرف پسند کررہے ہیں بلکہ اپنے اس طرز جہالت پر نازاں بھی ہیں۔

ہمارے ہاں فی زمانہ بدنصیبی یہ ہے کہ بچے گھروں سے تہذیب نہیں تخریب کے عناصر لے کر نکل رہے ہیں۔ تعلیم صرف درسی کتابوں کا رٹا لگانے اور اچھے گریڈز لینے کا نام ہی رہ گیا ہے۔ دوسری طرف تربیت کا باب ہی بند ہوچکا ہے۔ ہمارے بچپن میں ہماری کبھی جرأت نہیں ہوا کرتی تھی کہ ہم والدین یا اساتذہ کی کسی بات کے جواب میں کوئی سوال بھی کرسکیں یا اونچی آواز میں اپنا جائز مؤقف بھی پیش کرسکیں لیکن آج کل گھروں میں ادب آداب، نشست و برخاست، بڑوں کا ادب، چھوٹوں سے برتاؤ کا کوئی درس نہیں حتی کہ ٹیبل مینرز بھی نہیں سکھائے جارہے۔

ہم صرف بڑا بن کر دکھا رہے ہیں، بڑے بن نہیں رہے۔ جہاں ہمارے بچے نے غلطی کی، بس ایک تھپڑ رسید کرکے مطمئن ہوگئے اور کئی والدین تو یہ بھی نہیں کرتے بلکہ کہا جاتا ہے کہ ہمارا بچہ ہماری بات نہیں مانتا آپ ہی اس کو ڈانٹ لیجیے، شاید آپ کی ہی سن لے۔

یہاں ان والدین سے کوئی یہ سوال ہی پوچھ لے کہ جناب جب گھر میں وہ والدین یا بڑے بہن بھائیوں کو کوئی اہمیت نہیں دے رہا تو ہم کیا اسے تمیز کے تمام اسباق ذہن نشین کروا دیں گے؟

بچوں کی تربیت ایک کل وقتی فریضہ ہے۔ نئی نسل پر الزامات کی بوچھاڑ کرنا بہت آسان ہے۔ لیکن ان غلطیوں کے رونما ہونے سے پہلے تدارک کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟ یہ سوالیہ نشان ختم کرنا ہم سب کا کام ہے۔

ہم اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرتے ہوئے اب بھی ان برائیوں کی بیخ کنی کرلیں تو ہمارے حق میں بہتر ہوگا، کہیں ایسا نہ ہو معاملات ہمارے ہاتھ سے نکل جائیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

راضیہ سید

راضیہ سید

بلاگر نے جامعہ پنجاب کے شعبہ سیاسیات سے ایم اے کیا ہوا ہے اور گزشتہ بیس سال سے شعبہ صحافت سے بطور پروڈیوسر، رپورٹر اور محقق وابستہ ہیں۔ بلاگز کے علاوہ افسانے بھی لکھتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔