9/11 اور امریکا

شکیل فاروقی  منگل 13 نومبر 2018
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

9/11 ایک مرتبہ پھر آیا اور نو دو گیارہ ہوگیا، لیکن مند مل ہوتے ہوئے زخم ہرے کر گیا۔ بقولِ شاعر:

کتنے درد جگادیتا ہے اک جھونکا پر وائی کا

وائس آف امریکا اور جرمن ٹائمز کے خصوصی شماروں میں شایع ہونے والے جنگی ماہرین اور تجزیہ نگاروں کے مضامین اور فیچرز سے یہ بات طے پاچکی ہے کہ 9/11 کا القاعدہ یا مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ یہ امریکی صدر بش کی اس مافیا کے صیہونی سرغنوں کاسربراہ تھا جو مسلم ممالک کے معدنی وسائل پر ڈاکہ ڈالنے کی مکروہ منصوبہ بندی کرچکے تھے۔

بعض مغربی اخبارات میں شایع ہونے والے آرٹیکلز سے اس حقیقت کی تصدیق ہوچکی ہے کہ یہ ناٹک اسرائیلی ایجنٹوں کا رچایا ہوا تھا۔ جس کا اصل مقصد امریکا کے استعماری عزائم کی تکمیل کے لیے راستہ ہموار کرنا تھا، جن میں وسط ایشیائی ریاستوں کے تیل اور گیس کے راستوں پر کنٹرول حاصل کرنا، پاکستان کو غیر مستحکم کرکے دباؤ میں رکھنا، بھارت کی بالادستی قائم کرنا اور پاکستان کو دہشت گرد ملک کی حیثیت سے جب کہ دین اسلام کو ایک دہشت گرد مذہب کے روپ میں پیش کرنا شامل تھا۔

9/11کے ڈرامے کے فوراً بعد محض ایک ٹیلی فون کال کے ذریعے پاکستان کو ایک تباہ کن فیصلے کی بھینٹ چڑھادیا گیا جس کے بھیانک نتائج پاکستان اور پاکستانی قوم کو آج تک بھگتنا پڑ رہے ہیں اور نہ معلوم کب تک یہ سلسلہ مزید جاری رہے گا۔

امریکی دانشور نوم چومسکی کی کہی ہوئی یہ بات دل کو لگتی ہوئی محسوس ہوتی ہے کہ امریکا نے پاکستان کی اشرافیہ کو خریدا ہوا ہے۔ افسوس کہ غیروں کی جنگ ہم نے اپنے ملک میں در آمد کرلی جس کے نتیجے میں ہم برسوں سے پرائی آگ میں مسلسل جل رہے ہیں اور معلوم نہیں اس آتش نمرود کے شعلے کب ٹھنڈے ہوںگے؟ یہ پاکستان کی تاریخ کا بد ترین فیصلہ تھا جس نے ہمیں ایسی دلدل میں دھکیل دیا جس سے نکلنے کے بظاہر کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔ وطن عزیز جو اس سے قبل خودکش حملوں سے قطعی ناآشنا تھا، بد قسمتی سے ان حملوں کی آماجگاہ بن گیا۔

ہم ڈرون طیاروں اور ان کے حملوں سے بھی ناواقف تھے لیکن 18 جون 2004 کو جنوبی وزیرستان میں وانا کے مقام پر پہلا امریکی ڈرون حملہ ہوا جس کے بعد بار بار ڈرون حملوں کا ہونا ایک معمول بن گیا۔ اوباما کے امریکی صدر بننے کے بعد پاکستان میں اوسطاً ہر چار دن کے بعد ڈرون حملہ ہونے لگا جس میں بے گناہ معصوم شہری بھی نشانہ بنتے رہے۔ اس حقیقت کا اعتراف خود امریکا بھی کرچکا ہے۔

وال اسٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان 9/11 کی طرح آج ایک بار پھر فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہوا ہے۔ افغانستان کی دلدل میں پھنسا ہوا امریکا بری طرح تھک ہار چکا ہے اور اس کے اعصاب جواب دے رہے ہیں اور حوصلے روز بہ روز پست سے پست تر ہورہے ہیں، اسے وہ اہداف حاصل نہیں ہوئے جو اس نے افغانستان اور پاکستان کے حوالے سے مقرر کیے تھے۔

امریکی محکمہ دفاع کی ویب سائٹ کے مطابق جنگی جنون میں مبتلا امریکی فوج براعظم ایشیا کے اہم ترین ملک پاکستان سمیت دنیا کے 135 ممالک میں 800 مقامات پر موجود ہے جن میں سے کئی ممالک میں اس کے فوجی اڈے اور ٹھکانے بھی موجود ہیں، اس کے علاوہ امریکا کا جنگی بجٹ پوری دنیا کے دفاعی اخراجات کا 43 فی صد ہے۔ امرِ واقعہ یہ ہے کہ امریکا  کے منہ کو خون لگ چکا ہو۔

اصل حقیقت یہ ہے کہ امریکی معیشت کا بڑی حد تک دار و مدار اسلحہ کی فروخت کی تجارت پر ہے۔ اگر دنیا میں امن قائم ہوگیا تو پھر امریکی ہتھیار بھلا کوئی خریدے گا؟ ایسی صورت میں امریکی تجارت کا تو بیڑہ غرق ہوجائے۔ اس لیے امریکا کی کوشش یہی رہتی ہے کہ دنیا میں کہیں نہ کہیں فساد برپا ہوتا رہے اور جنگ کے شعلے بھڑکتے رہیں۔ امریکی تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ امریکا امنِ عالم کا سب سے بڑا دشمن اور انسانیت کا سب سے بڑا قاتل ہے۔ نو مسلم میلکم ایکس نے اپنی آپ بیتی میں اس حوالے سے جو حقائق پیش کیے ہیں وہ بہت تلخ مگر چشم کشا ہیں۔

اس کا کہنا ہے کہ امریکا نے 1899 سے 1902 کے عرصے میں دو لاکھ سے زیادہ افراد کا قتل کیا جس میں غالب اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ امریکا کے فلپائن سے جانے کے بعد اس کی کٹھ پتلی بسائی حکومت نے بھی قتل و غارت گری کا یہ سلسلہ جاری رکھا۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق 1965 تک کے عرصے میں دو لاکھ سے زائد مسلمان شہید کیے گئے جب کہ 3 لاکھ کو بیرون ملک اور 20 لاکھ کو اندرون ملک نقل مکانی پر مجبور کردیاگیا۔ مسلمانوں کے تین لاکھ گھر نذر آتش کرکے تباہ و برباد کردیے گئے۔

1965 میں انڈونیشیا میں 5 تا 10 لاکھ شہریوں کے قاتلوں کو امریکا کی پشت پناہی حاصل تھی۔ 1957 تا 1973 کے دوران امریکا کی مدد سے لٹوریا کے پانچ لاکھ شہری ہلاک کیے گئے۔ ویت نام کی طویل جنگ کے دوران امریکا نے جو انسانیت سوز مظالم ڈھائے تھے انھیں کبھی بھی فراموش نہیں کیا جائے سکتا۔ امریکا نے 6 اگست 1945کو جاپان کے شہر ہیروشیما پر ایٹم بم گرایا تھا اس میں 20 ہزار فوجی اور ایک لاکھ 10 ہزار شہری ہلاک ہوئے تھے۔ پھر اس کے بعد 9اگست کو ناگا ساکی پر گرائے گئے دوسرے ایٹم بم سے ایک لاکھ 40 ہزار ہلاکتیں ہوئیں اس نا مکمل فہرست میں اگر 9/11 کے بعد کی امریکی غنڈہ گردی کو بھی شامل کردیا جائے تو اصل حیثیت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔

نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی(Nacta) کی جانب سے دی گئی حالیہ تفصیلات کے مطابق جنوری 2004 کے بعد سے کیے جانے والے امریکی ڈرون حملوں میں 2714 لوگ جاں بحق اور 728 زخمی ہوئے تھے ،یہ حملے پاکستان کے شمالی علاقہ جات پر کیے گئے ۔

دنیا میں کوئی بھی اب امریکا کی جنگ پالیسی میں اس کا ساتھ دینے کے لیے راضی نہیں ہے۔ امریکا کی بے جا مداخلت نے اس کی رہی سہی ساکھ کو بھی ختم کردیا ہے اور سمجھدار قوموں کو یہ احساس ہوگیا ہے کہ دنیا کے کسی بھی گوشے میں برپا ہونے والے کسی بھی فتنہ و فساد کی جڑ امریکا ہی ہے۔ اس حقیقت سے دیگر ممالک کے علاوہ اس کے اتحادی ممالک بھی خوب واقف ہوگئے ہیں جس کے نتیجے میں انھوں نے امریکا سے کنارہ کشی اختیار کرکے فاصلے بڑھانا شروع کردیے ہیں۔

امریکی صدر ٹرمپ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے حالیہ خطاب میں دنیا کے دوسرے ممالک پر جو شدید تنقید کی تھی وہ انھیں بہت مہنگی پڑی چنانچہ جنرل اسمبلی کے ان کے اس خطاب کے دوران ان پر قہقہوں کی بارش سے پورا ایوان گونج اٹھا۔ جنرل اسمبلی کے اس اجلاس میں امریکی پالیسیوں پر ہر طرف سے شدید نکتہ چینی کی گئی اور امریکا کو ہدف ملامت بنایا گیا۔ چین نے امریکی سیاست پر پر زور تنقید کی۔ فرانس اور جرمنی نے بھی امریکا کو آڑے ہاتھوں لیا، ایران نے بھی امریکا کے خوب لتے لیے۔

ترکی نے بھی امریکا کو کھری کھری سناکر اس کا طاقت کا نشہ ہرن کردیا۔ حد تو یہ ہے کہ لاطینی امریکا کے چھوٹے سے ملک بولیویا نے بھی امریکا کو خوب جھاڑ پلائی جب کہ وینز ویلا، شمالی کوریا اور اس کے رہنماؤں نے امریکا کی غلط اور دہشت گردانہ پالیسیوں کی سخت مذمت کی، دنیا کی مہذب اور امن پسند اقوام ہی نہیں اب تو امریکا صلح پسند عوام بھی امریکی حکومت کی جنگجویانہ پالیسیوں سے بد ظن نظر آرہے ہیں۔ بقول شار:

ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں

ناؤکاغذ کی سدا چلتی نہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔