قریشی صاحب کامسئلہ،پتہ نہیں کون حل کرے گا؟

راؤ منظر حیات  بدھ 14 نومبر 2018
raomanzar@hotmail.com

[email protected]

قریشی صاحب کا پورا نام کیا ہے۔ مجھے معلوم نہیں۔ شاید جاننے کی کوشش ہی نہیں کر سکا۔ آج تک ان سے ملاقات بھی نہیں ہے۔ کوئی ایک سال پہلے میرا لکھا ہوا کالم پڑھ کر قریشی صاحب نے ای میل کی۔ تحریر کے متعلق چند جملے درج تھے۔

عادت ہے کہ ہر ای میل کا خود جواب دیتا ہوں کیونکہ اگر کوئی قاری، کالم پڑھنے کے بعد، اس پر بات کرنے کے لیے وقت نکالتا ہے تو تہذیب کا تقاضا ہے کہ اس کا جواب یا کم ازکم شکریہ ادا کر دیا جائے۔ شروع شروع میں کچھ غفلت ہوتی رہی مگر اب باقاعدگی سے ای میلز کا جواب دیتا ہوں۔ دن میں اگر وقت نہ بھی ملے تو رات گئے، ای میل پڑھنے کے بعد شکریہ ضرور ادا کرتا ہوں۔

قریشی صاحب سے بھی اسی طرح لفظی بات چیت شروع ہو گئی۔ وہ ہرکالم پڑھنے کے بعد ای میل کرتے تھے۔ پھر شاید انھوں نے میرا فون نمبر حاصل کر لیا یا میں نے خود لکھ کر بھیج دیا۔ حقیقت میں بالکل یاد نہیں۔ چند ماہ سے ان سے گفتگو ہو رہی ہے۔ محسوس کیا کہ وہ ایک سنجیدہ انسان ہیں جو ملک کے حالات پر اَزحد پریشان نظر آتے ہیں۔ باتوں باتوں میں لگا کہ انھیں کرپشن کی ہوشربا داستانیں سنکر واقعی تکلیف ہوتی ہے۔

ایک دن بتانے لگے کہ ستر برس کا ہوں۔ اسلام آباد میں رہتا ہوں۔ ذاتی چھوٹا سامکان ہے۔ سرکار کی نوکری بھی کرتے رہے۔ ہماری حکومت سرکاری ملازم کا خون نچوڑ کر جب بے جان کر دیتی ہے۔ تب اسے معلوم ہوتا ہے کہ قلیل وسائل میں چھوٹا سامکان بھی نہیں بنایا جاسکتا۔ ایک دن قریشی صاحب نے فون پر کہا کہ اسلام آباد میں کسی افسرکے دفترگئے تھے۔ وہاں دفترکی تزئین وآرائش ہو رہی تھی۔ فرش پر قیمتی ٹائلیں لگ رہی تھیں۔ قریشی صاحب کافی دیر تک کُڑھتے رہے کہ اتنے غریب ملک میں افسر اپنے دفاتر پر اتنا زیادہ سرکاری پیسہ کیوں خرچ کرتے ہیں۔ باربار کہہ رہے تھے کہ اتنی بیش قیمت ٹائلیں لگانا فضول خرچی ہے۔ اس اصراف پر کوئی بولتا کیوں نہیں۔ کوئی بات کیوں نہیں کرتا۔

عجیب سا لگا کہ یہ بزرگ انسان دل میں اس ملک سے کتنی محبت رکھتا ہے کہ اس کی نظر میں دفتر کی تزئین بھی ایک معاشی جرم ہے۔ ویسے دل ہی دل میں محسوس کیا کہ بات تو ٹھیک ہے۔ سرکاری دفاتر بالکل سادہ ہونے چاہئیں مگرجس ملک میں ہر چیز نمائشی ہو، وہاں سادگی اختیار کرنے کی بات کرنا گناہ کبیرہ سے کم نہیں ہے۔ یہاں تو دفاتر اور سرکاری گھروں میں جا کر محسوس ہوتا ہے کہ اس کی شان وشوکت کے سامنے امریکی وائٹ ہائوس بھی ہاتھ باندھ کر کھڑا ہے۔

ویسے مجھے وائٹ ہائوس دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ امریکی صدر کا سرکاری گھر اور دفتر بے حد سادہ ہے۔ مسلمان رہنمائوں کی عادات کے برعکس کوئی سونے سے مزین فرنیچر موجود نہیں ہے۔ کوئی ہیرے جواہرات سے سجے قمقمے نہیں لگے ہوئے۔ وہی امریکا کے عوامی رنگ یعنی نیلا سا قالین۔ پرانے صدور کے مجسمے اور قدیم تصاویر۔ دوسری بات یہ کہ وائٹ ہائوس کو دیکھنے کے لیے باقاعدہ اجازت دی جاتی تھی۔

یاد نہیں کہ ٹکٹ تھا کہ نہیں۔ مگر جب پہلی بار واشنگٹن گیا تو دنیا کے سب سے طاقتور انسان کا گھر اور دفتر دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ دیکھ کر کافی مایوسی ہوئی۔ کہاں ہمارے ملک کے صدور اور سابقہ وزراء اعظم کے ٹھاٹ باٹھ اور محل اور کہاں دنیا کی امیر ترین قوم کے صدرکا سادہ سا گھر اور دفتر۔ ویسے کیا آپ ہماری ذہنی پستی کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ حال ہی میں سابقہ وزیراعظم کے باتھ روم کی تصویر سوشل میڈیا پر شایع کی گئی۔ نہیں، غلط لکھ گیا ہوں۔ ٹی وی اور سرکاری میڈیا پر بھی دکھائی گئی۔

موصوف کا کموڈ سونے کا بنا ہوا تھا۔ پہلے مجھے یقین نہیں آیا۔ لگاکہ حسبِ روایت، سوشل میڈیا پر کوئی من چلا سابقہ وزیراعظم کے خلاف دل کی بھڑاس نکال رہا ہے مگر جب ٹی وی پر بھی دکھایا گیا اور پھر اخبارات میں بھی ’’سونے کے ڈبلیوسی‘‘ کی تصاویر دکھائی دیں، تو دل ڈوب گیا۔ خدایا، یہ اصراف نہیں۔ یہ خرچہ نہیں۔ یہ سرکاری وسائل کو غرقاب کرنا نہیں۔ یہ کوئی شدید نفسیاتی اُلجھن کا شاخسانہ ہے۔ ذہنی پسماندگی کی پاتال ہے جہاں سے ایسے خیال جنم لیتے ہیں۔ بڑی خاموشی سے ایک ایک باتھ روم پر کروڑوں روپے خرچ کر دیے جاتے ہیں۔

گورنمنٹ ہائوس مری کی آرائش پر شاید ستر کروڑ روپے خرچ کیے گئے تھے۔ ویسے یہ صرف ہمارے جیسے بدقسمت ملک میں ہی ہو سکتا ہے۔ جہاں ذرا سی پوچھ گچھ کی جائے، تو قیامت برپا کر دی جاتی ہے۔ جمہوریت جمہوریت کی پکار سے آسمان لرز جاتا ہے۔ اپنے سیاہ کارنامے انتہائی بھولی شکل بنا کر، نظام کے تسلسل کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہ عیاشی صرف اس فقیر ملک میں ہی ہو سکتی ہے۔ کسی مہذب اور ترقی یافتہ ملک کا صدر یا وزیراعظم اگر اس طرح کا خرچہ کرے تو شاید ایک دن میں ہی پابند سلاسل ہو جائے گا۔

بہرحال بات قریشی صاحب کی ہو رہی تھی۔ اسی پر مرکوز رہنا چاہیے تھا۔ مگر انسانی خیال بھی عجیب چیز ہے۔ انسان کی تحریر کو، کہاں سے کہاں لے جاتا ہے۔ اصل موضوع سے ہزاروں نوری سال دور۔ ایک دن قریشی صاحب کا فون آیا توایسے لگا کہ بے حد افسردہ ہیں۔ جھجک کی بدولت پوچھ نہ سکا۔ ان کی آواز میں پہلی جیسی چمک نہیں تھی۔ حددرجہ اُداسی تھی۔ ایسے لگتا تھا کہ ان کی روح اور جسم، خزاں کے موسم میں داخل ہو چکا ہے۔ پوچھا تو لمحے کے لیے مکمل خاموشی چھا گئی۔ شاید میرا وہم تھا۔ محسوس ہوا کہ ان کی آنکھوں میں آنسو ہیں اور رو رہے ہیں۔ فون بندکر دیا۔ تھوڑی دیر بعد دوبارہ فون آیا۔ کہنے لگے۔

ڈاکٹر صاحب! آپ سے ایک بات کرنی ہے۔ میرا ایک مسئلہ ہے اور مجھے اس کا کوئی حل نظر نہیں آرہا۔ ذہن میں آیا کہ شاید کوئی گھریلو پریشانی ہو جس کے سبب قریشی صاحب کافی دلگیر ہیں مگر انھوں نے ایک انتہائی ذاتی دکھ بیان کر دیا۔ ان کی ایک ہی صاحب زادی ہیں۔ اس بچی کا نام مجھے معلوم نہیں ہے۔ ویسے ناموں کو یاد رکھنے کے معاملے میں کافی نااہل انسان ہوں۔ قریشی صاحب کا پورا نام نہیں معلوم تو بیٹی کا نام کیسے یاد ہو گا۔

قریشی صاحب کی آواز میں سوز تھا۔ بتانے لگے میری لڑکی ایم فِل کر چکی ہے۔ ایم اے کرنے کے بعد نوکری تلاش کرنے لگی تو آزاد کشمیر کی میرپور یونیورسٹی میں لیکچرار کی سیٹ پر تعیناتی ہو گئی۔ ملازمت مکمل طور پر بغیر سفارش کے ملی۔ یہاں تک مجھے کوئی مسئلہ نظر نہیں آیا مگر اصل مسئلہ یہ بتایا گیا کہ چاربرس ہو چکے ہیں۔ بیٹی بلاناغہ روز بس پر بیٹھ کر اسلام آباد سے میرپور اور میرپور سے واپس آتی ہے۔ تین سو کلو میٹر ایک طرف اور اتنا ہی سفر دوسری طرف۔ یعنی روزانہ تقریباً چھ سو کلومیٹر کا سفر کرتی ہے۔ یونیورسٹی میں خاتون اساتذہ کے لیے ہوسٹل کی سہولت بھی موجود نہیں ہے۔ اکیلی لڑکی، میرپور شہر میں گھر لے کر بھی نہیں رہ سکتی۔

قریشی صاحب کہنے لگے کہ وہ منہ اندھیرے دھکے کھاتی ہوئی جاتی ہے اور رات گئے واپس آتی ہے۔ اسی دورانیہ میں بقول قریشی صاحب، وہ دعائیں مانگتے رہتے ہیں کہ بچی خیریت سے واپس آجائے۔ نظر چوکھٹ پر جمی رہتی ہے۔ بار بار فون کرتے ہیں کہ بیٹی اب تم کہاں ہو۔ کہاں پہنچی ہو۔ کوئی مسئلہ تو نہیں۔ ان کی آواز میں اب آنسو بھی شامل تھے۔ والد ہوں۔ ایک ہی اولادہے۔ حالات دیکھیے۔ سڑکوں پر حادثات کی شرح دیکھیں۔ لوگوں کے مزاج کو پرکھیے۔ میری تو جان سارا دن سولی پر ٹنگی رہتی ہے۔ کبھی زندہ ہوتا ہوں اور کبھی مر جاتا ہوں۔ لگتا ہے کہ اعصاب ختم ہو چکے ہیں۔

میرا سوال تھا، کہ قریشی صاحب، بیٹی کی راولپنڈی یا نزدیک ٹرانسفر کے متعلق کوشش کیوں نہیں کی۔ اُداس سا جواب دیا۔ ہر دروازے پر صدا دی۔ ہر بڑے بابو کے پاس گیا مگر کسی جگہ بھی میری مجبوری کو حل کرنے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ قریشی صاحب نے بڑے سوز سے کہا کہ آپ سرکاری افسر ہیں۔ آپ ایسے کریں کہ وزیراعلیٰ سے بات کر لیجیے۔ آپکی بات تو وہ مان ہی جائینگے۔ سابقہ وزیراعلیٰ کی بات ہو رہی تھی۔ میرا دل بیٹھ گیا۔

سمجھ آگئی کہ قریشی صاحب اپنی مجبوری کو مجھے حل کرنے کے لیے کہیں گے۔ ایسے ہی ہوا۔ معلوم نہ ہو پایا کہ میں کیا جواب دوں۔ میرے جیسا ایک قلمی مزدور، محترم شہباز شریف جیسے بڑے آدمی کو کیسے کام کہہ سکتا تھا۔ ویسے بھی سابقہ وزیراعلیٰ میرے لکھنے کی عادت سے خفا سے تھے۔ ویسے تو وہ تقریباً ہر ایک سے شاکی تھے۔ مگرمجھ پر ان کی نظرِعنایت کچھ زیادہ ہی تھی۔ میں اپنی روایتی بے بسی میں قریشی صاحب کو یہ بتانے کی جرأت نہ کر سکا کہ جناب میری تو دربارِ شاہی میں کوئی بھی رسائی نہیں۔ بلکہ میں تو کسی بھی دربار کا حصہ نہیں ہوں۔

میں تو فنا کے راستے کا مسافر ہوں۔ جو اکیلا آیا تھا اور آبلاپا ہو کر بغیر سفر مکمل کیے تن تنہاہی واپس چلا جائے گا۔ قریشی صاحب سے عرض کی کہ وقت دیجیے۔ کچھ کرتا ہوں۔ پانچ چھ ماہ سے قریشی صاحب کا فون جب بھی آتا ہے تو میرا دل پھٹ جاتا ہے۔ کیا جواب دوں۔ کیا کہوں۔ اگریہ کہہ دوں آپکا کام نہیں کروا سکتا تو پتہ نہیں، قریشی صاحب کے دل پر کیا گزرے گی۔ کیا وہ انکار سن کر زندہ بھی رہ پائیں گے یا نہیں۔

فون سنکر میں پھر قریشی صاحب سے دس پندرہ دن کی مہلت مانگ لیتا ہوں۔ مگر ان کا مسئلہ حل نہیں کر سکتا۔ قریشی صاحب بے بس ہیں اور میں بے نوا ہوں۔ شاید میرا یہ کالم کسی صاحبِ دل کی نظر سے گزر جائے اور اس غریب سے عام آدمی کا کام ہو جائے۔ شاید، ان کی بیٹی کی مصیبت ختم ہو جائے۔ کالم لکھ کر میں بالکل اُداس ہو گیا ہوں۔ بلکہ رنج واَلم سے شرابور ہو چکا ہوں۔ عام آدمی کا اس ملک میں کوئی والی وارث نہیں۔ قریشی صاحب کا مسئلہ پتہ نہیں کون حل کریگا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔