- کرناٹک میں گائے ذبح کرنے کے الزام پر نوجوان پر انتہا پسند ہندوؤں کا تشدد
- آئی ایم ایف کا جائزہ مشن آج دس روزہ دورے پر پاکستان پہنچے گا
- زرداری پر عمران خان قتل کی سازش کا الزام، شیخ رشید تھانے طلب
- فواد چوہدری کے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد، جوڈیشل ریمانڈ منظور
- صرف غیر ملکی کوچز ہی کیوں! پاکستان میں بھی قابل لوگ موجود ہیں، شاہد آفریدی
- دہشت گرد نماز کی پہلی صف میں موجود تھا، خواجہ آصف
- بنی گالہ سے قتل کے ملزم کو لے جانے والی جھنگ پولیس پر فائرنگ، اہلکار شہید
- بابراعظم میرے بیٹے جیسا ہے اُس سے کبھی ناراض نہیں ہوا، وسیم اکرم
- پاکستان کیخلاف جنگ کرنیوالوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دینگے، وزیراعظم
- امریکا کے دیوالیہ ہونے کا خدشہ؛ صدر اور اپوزیشن سر جوڑ کر بیٹھنے کو تیار
- صوابی میں سی ٹی ڈی آپریشن، خودکش حملہ آوروں نے خود کو دھماکے سے اُڑالیا
- جنوبی افریقا میں سالگرہ کی تقریب پر فائرنگ؛ 8 افراد ہلاک
- فواد چوہدری کہاں ہیں کچھ پتا نہیں، حبا چوہدری
- پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں خودکش دھماکا، اہلکاروں سمیت 32 افراد شہید
- پی ایس ایل کے نمائشی میچ کیلیے ٹکٹ کی قیمت صرف 20روپے
- قتل کی سازش کا الزام؛ آصف زرداری کا عمران خان کو 10 ارب ہرجانے کا نوٹس
- پختونخوا الیکشن کی تاریخ نہ دینے کیخلاف پی ٹی آئی کا عدالت جانے کا فیصلہ
- حب میں مسافر بس حادثے کا مقدمہ مالکان کیخلاف درج
- پاکستانی باکسر نے دبئی میں پروفیشنل باکسنگ فائٹ جیت لی
- مار گئی ہمیں یہ مہنگائی!
سبق کی منصوبہ بندی اہمیت اورفوائد
ایسی تدریس جو طالب علم کے رجحانات اور میلانات کے تقاضوں کو پورا کرسکے، وہی معاشرتی ارتقا میں بھی ممد ہوگی۔ (فوٹو : ایکسپریس)
بچہ استاد کے لیے بذاتِ خود ایک ایسا سبق ہے جس کی تیاری اسے ہر لحظہ درکار ہے چہ جائیکہ مقرر کردہ نصاب کے مطابق روزانہ کی تدریس کے لیے سبق کی منصوبہ بندی کرنا۔ تعلیم کی مثلث استاد، طالب علم اور نصاب پر مشتمل ہے۔ ہر جسم اپنے مرکز کی بِناء پر متوازن رہتا ہے۔ تعلیمی عمل میں بچے کو مرکزی حیثیت حاصل ہے جس کے گرد تدریسی عمل کا پہیہ گھومتا ہے۔
ایسی تدریس جو طالب علم کے رجحانات اور میلانات کے تقاضوں کو پورا کرسکے، وہی معاشرتی ارتقا میں بھی ممد ہوگی۔ جیسا کہ جان ڈیوی کے خیال میں ’’تعلیم ایک معاشرتی عمل ہے اور معاشرے کے ارتقا میں معاون ہے اس لیے تعلیم کو معاشرے سے ہم آہنگ ہونا چاہیے اور تعلیم میں معاشرتی رجحانات کی شمولیت ازحد ضروری ہے۔‘‘
تعلیم حاصل کرنے کے بعد معاشرتی زندگی بچے کے لیے وہ میدان ہے جہاں اسے اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرکے معاشرتی اکائیوں میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے اپنی اور معاشرے کی ضروریات پوری کرنی ہوتی ہیں۔ لہٰذا، وہی تعلیم مفید ہے جو بچے کی معاشرتی زندگی میں اہم کردار ادا کرے۔
سرسید احمد خان کے خیال کے مطابق ’’کسی شخص کو تعلیم دینے کا مقصد یہ ہے کہ اس کی فطری صلاحیتوں کا تجزیہ کرکے اس کو صحیح راستہ پر ڈالا جائے۔ تعلیم دینا درحقیقت کسی چیز کا باہر سے ڈالنا نہیں بلکہ بچے میں کائناتِ فطرت کی سمجھ کے ساتھ ساتھ بصارت بھی پیدا کرنا اور اسے اس قابل بناتا ہے کہ وہ زندگی میں اپنی مخفی صلاحیتوں کو اجاگر کرسکے۔‘‘ لہٰذا، تعلیم کے یہ مقاصد حاصل کرنے کے لیے تدریس میں سبق کی منصوبہ بندی ضروری ہے۔ استاد کے لیے سبق کا ازبر ہونا ’سبق کی تیاری‘ تو کہا جاسکتا ہے لیکن ایسا لائحہ عمل اختیار کرنا جس کے ذریعے طلباء کو سبق واضح طور پر سمجھ میں ہی نہ آئے بلکہ ذہن نشین بھی ہوجائے، ساتھ ساتھ متعلقہ عنوان کی استعداد بھی پیدا ہو، سبق کی منصوبہ بندی کہلائے گا۔
بارآور تعلیم کے لیے سبق کی منصوبہ بندی ضروری ہے۔ سبق کی منصوبہ بندی کی کیا اہمیت اور فوائد ہیں، ذیل میں اس کا اجمالی خاکہ پیش کیاجاتا ہے۔
1۔ مقصد کا تعیّن:
سبق کی منصوبہ بندی سے سبق کا مقصد واضح ہوجاتا ہے اور استاد گم گشتہ شاہ راہوں پر گھومنے کی بجائے اپنے ٹریک ’سبق‘ پر رہ کر متعین مقصد حاصل کرنے کی سعی کرتا ہے۔ واضح رہے کہ تدریس کے مقاصد حاصل کرلینا ہی کامیاب تعلیم کی دلیل ہے۔
2۔ خود اعتمادی:
سبق کی منصوبہ بندی سے استاد دورانِ تدریس آمدہ تدریسی مشکلات کا اندازہ لگاکر ان کا حل تلاش کرلیتا ہے۔ جس سے وہ طلباء کے اذہان میں اٹھنے والے سوالات کے جوابات خوداعتمادی سے دے سکتا ہے اور سبق سے متعلقہ ابہام کا بھی ازالہ کرسکتا ہے۔ سبق سے متعلقہ امور پر غوروفکر کرتا ہے اور غیرمتعلقہ چیزوں سے اجتناب کرتا ہے۔
3۔ تدریسی معاونت کی تیاری:
انسان مشاہدے سے بہتر طور پر سیکھتا ہے۔ قرآن حکیم نے بھی اسی لیے کائنات میں غوروفکر کی دعوت دی ہے۔ سمعی وبصری معاونت کا استعمال بچوں کے لیے سیکھنے میں کافی مددگار ہوتا ہے۔ سبق کی منصوبہ بندی کا یہ فائدہ ہے کہ پیش کیے جانے والے سبق کی سمعی وبصری معاونت کا بندوبست کرلیا جاتا ہے۔
4۔ اسباق میں ربط:
سبق کی منصوبہ بندی سے تدریسی عمل میں تسلسل برقرار رہتا ہے۔ کلاس ٹیچر کی غیرموجودگی میں متبادل استاد آسانی سے سبق پڑھا سکتا ہے۔ اس طرح طلباء کے وقت کا ضیاع بھی نہیں ہوتا۔
5۔ تخیل اور اختراع:
دیے گئے نصاب کو ہو بہو رٹا دینے سے تعلیم کا مقصد حاصل نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا، ضروری ہے کہ نصاب کی حدود میں رہ کر بچے میں متعلقہ عنوان کے بارے میں استعداد پیدا کی جائے۔ استاد اپنی سوچ کا گھوڑا دوڑا کر نئی سرگرمیاں متعارف کروا سکتا ہے تاکہ بچے سبق کو جلدی سمجھ سکیں۔ وہ جائزے کے لیے ایسے سوالات بھی تیار کرسکتا ہے جس سے ان کے فہم کا اِدراک ہو۔ بچوں کو سبق کا مقصد سمجھانے کے لیے اس کے اہم نکات کی نشان دہی بھی کرسکتا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔