مشرف کی بیماری آپ کی بددعا کا نتیجہ نہیں

سائرہ فاروق  جمعرات 15 نومبر 2018
کسی کو حالت بیماری میں دیکھ لیں تو یہ تصور بھی خود سے باندھ لیتے ہیں کہ ضرور اس کی" پکڑ" ہو ئی ہے۔فوٹو: انٹرنیٹ

کسی کو حالت بیماری میں دیکھ لیں تو یہ تصور بھی خود سے باندھ لیتے ہیں کہ ضرور اس کی" پکڑ" ہو ئی ہے۔فوٹو: انٹرنیٹ

مشرف صاحب کا ایک کلپ نظر سے گزرا جس میں وہ اپنی بیماری کا ذکر کر رہے ہیں۔ اس کلپ پر چند عظیم دماغوں نے سوشل میڈیا پر یہ ارشاد فرمانا شروع کردیا کہ بالآخر مشرف بے بسی سے رو پڑے۔ تکبر و غرور کا سر نیچا۔ ظالم حکمران کا زوال۔ مکافات عمل۔ عذاب؛ اور آخر میں یہ کہنا کہ انہیں اب اپنے گناہوں پر توبہ کر لینی چاہیے۔

ایسی کئی باتیں کر کے ہم اپنی تربیت اور فکری پسماندگی کے مظاہرے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش میں بے حال ہوئے جا رہے ہیں۔

ہم بڑی عجیب قوم ہیں۔ ہم نہ کسی کو بیماری میں کوئی رعایت دیتے ہیں نہ مرنے کے بعد بخشتے ہیں۔ نفرتوں کی شدت میں اس قدر آگے ہوئے کہ ہم آداب معاشرت سے بھی گئے۔

ہم اس قدر شدت پسند ہیں کہ کسی کی بیمار لرزتی آواز میں سے بھی اپنی پسند کی کہانی بننے لگتے ہیں اور یہاں درباریوں کی بھی کمی نہیں جو ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔

کلپ کو دیکھ کر حقارت سے مسکراتے ہوئے خود کو کتنا بڑا ولی، نیک و پریزگار تصور کر رہے ہیں اور مفت مشورے کے طور پر اسے معافی تلافی کا درس بھی دے رہے ہیں۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اپنے رب کے حضور سربسجود ہو کر آخری بار معافی کے کب طلبگار ہوئے؟ لیکن ٹھہریں، آپ تو گنہگار ہی نہیں، تو معافی مانگنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیونکہ آپ تو بہت پوتر ہیں، اسی لیے تو آپ کا سارا زور کرسی سے اترے ہوئے کمزور اور بیمار انسان پر چلتا ہے۔

بیماری من جانب اللہ ہے، اور بیماری کا انسانی لب و لہجے پر پہلا اثر یہ ہوتا ہے کہ انسانی اعصاب و آواز نحیف و نزار ہوجاتی ہے، لڑکھڑاتی ہے۔

دوسرا عمر کا بھی تقاضا ہے، 75 سال کی عمر میں اور پھر تکلیف کے عالم میں ایک عام انسان کی آواز میں بھی وہ دم خم نہیں رہتا۔ تو کیا ہم اسے خدا کی نشانیاں اور عذاب سے مشروط کر کے تضحیک شروع کر دیں؟

کیا نیکوکار بیمار نہیں ہوتے؟ یا بیماری صرف بدکار کو ہی نشانہ بناتی ہے؟ یہ عظیم خیالات ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں کہ اللہ ان سے بدلہ لے رہا ہے، یا ان پر عذاب نازل ہوا ہے۔ اور یہ ججمنٹ کتنی آسانی سے ہم اپنے ہاتھ میں لیے بیٹھے ہیں۔

حالانکہ بیماری جب چاہے جسے چاہے قبل از پیدائش، ماں کے پیٹ میں ہی ایک معصوم بچے کو جکڑ سکتی ہے۔ جس نے دنیا میں آکر ابھی کوئی گناہ بھی نہیں کیا ہوتا، پھر وہ کیوں مر جاتا ہے؟

اگر نیکی و بدی کا فیصلہ، اجر و ثواب کا معاملہ ہم انسانوں کے ہاتھ میں ہی طے ہونا ہے تو پھر روز آخرت پر ایمان لانے کا کیا مقصد ہے؟

خدائی لب و لہجے میں گرجتے برستے بولتے یہ تندرست انسان اتنی متکبرانہ باتیں کیسے کر لیتے ہیں؟

کیا پوری دنیا میں لوگ صرف بیماری سے مرتے ہیں؟ بھوک افلاس، قدرتی آفات، جنگ کی حالت میں مرنے والے لوگ آپ تہجد گذاروں کے نزدیک کیا بہت گناہ گار ہوتے ہیں؟

ہم دراصل فکری طور پر اتنے نابالغ لوگ ہیں کہ ایک کھلاڑی کے اچھا شاٹ نہ کھیلنے پر غم و غصے میں بھر جاتے ہیں، نتھنے پھلاتے ہیں، مکے لہراتے ہیں۔ آرام دہ حالت میں بیٹھے ایک ہاتھ میں پاپ کارن دوسرے ہاتھ میں ریموٹ لیے اور کمر کے پیچھے گاؤ تکیہ لگائے ہوئے میاں فصیحت بنے ہوتے ہیں۔

حالانکہ نہ تو ہم میدان میں اترے ہوتے ہیں نہ ہی کھیل کے تقاضوں کو سمجھتے ہیں، نہ ہی کھلاڑی جتنا تجربہ رکھتے ہیں، نہ ہی پریکٹس اور نہ ہی اس پریشر کو جانتے ہیں جو چاروں طرف سے ایک کھلاڑی اپنی پوری قوت لگا کر جھیل رہا ہوتا ہے۔ مگر ہم سے تکنیک پر بات کروا لو، ہم اپ کو مایوس نہیں کریں گے۔ بدقسمتی سے عدم برداشت کا افراط و تفریط ہمیں گہری کھائی کے دہانے تک پہنچا چکا ہے۔

جب تک بحیثیت قوم ہمارا یہ رویہ رہے گا تو ہم ہر دوسرے کو اپنے قائم کردہ معیار کی کسوٹی پر پرکھتے ہی رہیں گے اور لعنت ملامت کے یہ سلسلے یوں ہی دراز رہیں گے۔

سیاست کے میدان میں طاقت اور اختیار کا سرچشمہ صرف فرد واحد ہی کے ہاتھ میں نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک سسٹم کے تحت چلتا ہے جہاں کچھ بیرونی ہاتھ اس میں مداخلت کرتے ہیں تو کچھ اندرونی سازشی عناصر بھی اس میں ملوث ہوتے ہیں، اس لیے نظام مملکت میں کسی ایک کو مورد الزام ٹھہرا کر اس کے کمزور لمحوں میں اس پر وار کرنا غیرت مند قوموں کا شیوا نہیں ہوتا۔

طاقت اور اختیار کے اس دائرے میں اگر آپ بھی داخل ہوں تو شاید ان سے بھی بڑے جابر حکمران کے طور پر سامنے آتے۔ یہ صرف مشرف کی بات نہیں ہے، بلکہ ہم ہر اس شخص کے لیے ایسے ہی جذبات رکھتے ہیں جن سے ہمارے نظریاتی اختلافات ہوتے ہیں۔ ہم مروت، احساسِ انسانیت اور دعا دینے کے مراحل سے نکل کر “تو غلط میں صحیح ” کے دائرے میں داخل ہوگئے ہیں۔

شدت پسندی کا عالم اب یہ ہے کہ یہ ڈنڈا بردار سوچ مردانہ سماج میں ہی نہیں پائی جاتی بلکہ یہ لہر خواتین میں بھی موجود ہے، جو لمحہ فکریہ ہے۔ اگر یہ خود اتنی مشتعل مزاج کی حامل ہوں گی تو نسلِ نو کو معتدل مزاج کی تربیت کیسے دے پائیں گی؟

ہم اشرف المخلوقات کہلانے والے اپنی پسماندہ ذہنیت کی بدولت جنازے کے بڑے یا چھوٹا ہونے پر طے کرتے ہیں کہ یہ شخص کتنا نیک تھا یا گناہ گار۔ گویا اجر و ثواب کا معاملہ ہو یا جنت دوزخ کے معاملے، ہم بغیر پس و پیش کے فیصلے سنا دیتے ہیں۔ اسی طرح کسی کو حالت بیماری میں دیکھ لیں تو یہ تصور بھی خود سے باندھ لیتے ہیں کہ ضرور اس کی” پکڑ” ہو ئی ہے۔

ہم اس قدر پسماندہ قوم بن گئے ہیں کہ اگر کوئی اپنی بیماری کے بارے میں اظہار خیال کرتا ہے تو اس میں سے بھی اپنی مطلب کی بات بغیر کسی خوف کے نکالتے چلے جاتے ہیں۔ گویا ہمارے نظریاتی مخالف کی بیماری یا کمزوری دراصل خدائی رضا نہیں بلکہ ہماری منشا یا بد دعا کے زیر اثر ہے۔ جہاں قوموں کا مجموعی رویہ اس حال تک پہنچ جائے اس قوم کے بدبخت ہونے پر کوئی شبہ نہیں رہ جاتا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سائرہ فاروق

سائرہ فاروق

بلاگر مانسہرہ سے تعلق رکھتی ہیں اور مختلف ویب سائٹس کے علاوہ اخبارات کےلیے بھی کالم لکھتی رہتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔