نوجوان طبقہ کی رہنمائی کیسے ہوگی ؟

سلمان عابد  جمعرات 15 نومبر 2018
salmanabidpk@gmail.com

[email protected]

پاکستان میں ایک بنیادی مسئلہ نوجوان طبقہ جس میں لڑکے اور لڑکیاںدونوں شامل ہیں کی رہنمائی ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے۔ آگے بڑھنے کا حقیقی راستہ ایک بڑی علمی اور فکری رہنمائی کا تقاضہ کرتا ہے ۔یہ کام والدین جہاں کرسکتے ہیں وہیں ایک نکتہ استاد یا ایسے اداروں سے جڑا ہوتا ہے جہاں نئی نسل کی آگے بڑھنے کے تناظر میں رہنمائی کی جاتی ہے ۔لیکن بدقسمتی سے نوجوان طبقہ بہت کچھ کرنا چاہتا ہے مگر ان کی کوئی رہنمائی کرنے کے لیے تیار نہیں۔

جو رہنمائی کی جاتی ہے اس کی بنیاد جذباتیت اور خواہشات پر مبنی ہوتی ہے اوربلاوجہ بچوں اوربچیوں پر طاقت کی بنیاد پر چیزیں مسلط کی جاتی ہیں۔بہت سے ایسے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں باتی ہیں کہ وہ جو تعلیم حاصل کررہے ہیں، وہ ان کی اپنی خواہشات سے زیادہ ان کے والدین کی خواہشات سے جڑاعلم ہے۔

ہمارے والدین کی سطح پر ایک فکری بحران یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں اور بچیوں کی علمی صلاحیتوں اور ان کی خواہشات کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کرنے کے بجائے ان پر اپنے فیصلے تھوپتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ والدین کے سامنے اصل چیلنج معاشی روزگار سے جڑا ہوتا ہے اورمارکیٹ میں جس تعلیم یا پروفیشن کا چلن عام ہوتا ہے اسی کو بنیاد بنا کر وہ اپنے بچوں کو ان کی طرف مائل کرتے ہیں۔

ایک مسئلہ پروفیشنل کونسلنگ کا ہوتا ہے۔ اس پر اول تو یہاں کوئی خاص اہمیت نہ تو ریاست، حکومت دیتی ہے اورنہ ہی ہمارے تعلیمی ادارے اس میں کوئی موثر کردار ادا کرتے ہیں۔ عمومی سوچ یہ بن گئی ہے کہ ایم اے، ایم ایسی سی کی سطح پر بچوں کے لیے کونسلنگ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ جب کہ مسئلہ یہ ہے کہ ماسٹرز کی سطح پر کیریر کے تناظر میں کونسلنگ کی افادیت نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ یہ کام میٹرک یعنی اسکولز کی سطح پر ہونا چاہیے جہاں اسے کے پاس تعلیم کے تناظر میں چھ سے آٹھ برس ہوتے ہیں۔

مجھے ذاتی طور پر دکھ ہوتا ہے جب نوجوانوںسے ملاقات ہوتی ہے یا ان کی باتیں سننے کو ملتی ہیں تو وہ اپنے مستقبل کے حوالے سے کوئی فہم نہیں رکھتے۔ ان سے پوچھا جائے کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں تو ان کے پاس کوئی معقول جواب نہیں ہوتا۔ اگر کچھ لوگ جواب دیتے ہیں تو اس میں جذباتیت کا پہلو زیادہ نمایاں ہوتا ہے۔

مسئلہ محض طالب عملوں کا نہی نہیں اور نہ ہی ان کو مکمل قصور وار قرار دیا جاسکتا ہے۔ اصل بحران استادوں کا ہوتا ہے جو پچوںاور بچیوںکے لیے حقیقی ماڈل نہیں بن پاتے۔ جو استاد خود متحرک، فعال اورپرجوش نہیں ہوتا وہ طالب علموں میں یہ صلاحیتیں نہیں پیدا کرسکتا۔ بہت سے استاد اپنے حالات کا رونا اور مایوسی عملی طور پر اپنے طالب علموں میں منتقل کرتے ہیں۔استاد اور شاگرد سمیت والدین کا بنیادی مسئلہ علم کی تلاش نہیں بلکہ امتحان اورنمبرز کی گیم سے جڑ گیا ہے۔

یہ عمل تحقیق اور جستجو کو کم کرکے علم کے راستوں کو محدود کرتا ہے اورا س کا مقصد محض امتحانات کے کھیل تک محدود ہوگیا ہے۔مجھے حیرانی ہوتی ہے کہ ماسٹرز کی سطح پر بچے اوربچیوں میں اعتماد سازی کا بحران ہوتا ہے اور وہ پراعتماد طریقے سے اپنی بات کو فورم پر پیش کرنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہوتے ہیں۔ کچھ کا انداز بیان، تحریر اور خود کو مناسب انداز میں پیش کرنے کی صلاحیت پر بھی سوالیہ نشان ہوتے ہیں۔ڈر اور خوف کے ساتھ جب نوجوان آگے بڑھے گا تو وہ کچھ بھی حاصل نہیں کرسکے گا۔ بنیادی طورپر بڑا مقصد,کام اورمنزل ہی کسی کوبڑا مقام دیتی ہے، جب کہ ہم جلدی سے جلدی سب کچھ حاصل کرنے کا شوق پیدا کرکے وہ کچھ حاصل نہیں کرپاتے جو ہمیں کرنا چاہیے تھا۔

یہ جو ہمیں گلہ ہوتا ہے کہ نوجوان منفی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں۔لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم بطور ریاست، حکومت اورمعاشرہ ان کے اندر جو محرومی کی سیاست اورمعیشت کو جنم دے رہے ہیں اس میں وہ کیسے اپنے آپ کو مثبت رکھ سکے گا ۔ پورا سیاسی اورمعاشی نظام نئی نسل کو مواقع دینے کے بجائے ان کے استحصال کا سبب بن رہا ہے ۔اس کا ایک نتیجہ معاشرے میں سیاسی او رمذہبی انتہا پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحانات کی شکل میں دیکھنے کو ملتا ہے۔میڈیا کی سطح پر ایسے پروگرام نہ ہونے کے برابر ہیں جو نوجوانوں کو کچھ سیکھنے کا موقع فراہم کرسکیں۔ لیکن اس کے برعکس میڈیا سے لوگ مثبت کام کی طرف اورمنفی کام یا محاذ آرائی کی سیاست کا زیادہ حصہ بن رہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے منشور میں نوجوانوں کا ذکر تو کچھ ملتا ہے، مگر سیاسی جماعتوں کی ترجیحات نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیںنوجوانوں کی رہنمائی کیسے کرنی چاہیے۔ ایسا کونسا نظام اورطریقہ کار اختیار کیے جائیں جو نئی نسل کی مد د کے ساتھ ملک کی ترقی میںکلیدی کردار ادا کرسکے۔ ہمیں پانچ باتوں پرتوجہ دینی ہوگی۔ اول زیادہ سے زیادہ مالی، سیاسی، سماجی اورانتظامی وسائل نوجوانوں کے لیے مختص کیے جائیں اوریہ عمل حکومتی ترجیحات کا بنیادی نکتہ ہونا چاہیے۔

دوئم تعلیمی نظام میں ہنگامی بنیادوں پر اصلاحات اور تعلیم کا سارا نظام بڑی تبدیلیوں کا تقاضہ کرتا ہے۔ بالخصوص مارکیٹ کے ساتھ تعلیم کو جوڑا جائے اورمیٹرک سے لے کر اعلی تعلیم تک تعلیمی اداروں میں جدید کونسلنگ سینٹرز جہاں ماہرین موجود ہوں قائم کیے جائیں۔سوئم نوجوانوں میں خود سے کام کرنے اورچھوٹے کام سے کام کے آغاز کا شو ق بھی پیدا کیا جائے اورمواقع بھی دیے جائیں اور تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوںکی تعلیم کو علمی کاموں سے جوڑا جائے۔

چہارم والدین کو بھی سمجھنا چاہیے کہ وہ اپنی خواہش کے ساتھ ساتھ بچوں کی خواہشات کو بھی سمجھنے کی کوشش کریں اوران پر محض چیزیں مسلط نہ کی جائیں۔ اس میں میڈیا کو علمی اورفکری بنیادوں پر طاقتور طبقات کو جنجھوڑنا بھی ہوگا اورنوجوانوں میں محض محاذ آرائی پیدا کرنے کے بجائے ان میں سیاسی، سماجی اور تربیت سے جڑا شعور اجاگر کیا جائے۔

پنجم زیادہ سے زیادہ غیر نصابی سرگرمیوںاورکھیل کو فروغ دیا جائے جو نوجوانوں کو صحت مند سرگرمیوں کی طرف مائل کرے۔یہ عمل نوجونواں میں اعتماد سازی اورحالات سے مقابلہ کرنے کی صلاحیتوں کو بھی عملی طور پر اجاگر کرنے کا سبب بنے گا۔اسی طرح کھیلوں کی کمرشلائزیشن بندکی جائے اور ریاست خودمواقع کھیل کو د کے پیدا کرے، تاکہ وہ مثبت سوچ اورفکر کے ساتھ آگے بڑھے۔

ہمیں نوجوان طبقہ کو معاشرے پر بوجھ نہیں بنانا بلکہ ان کے لیے ایسے سازگار حالات اورمواقع پیدا کرنے ہیں جو ان کے لیے ترقی کے نئے راستے کھول سکے ۔ہمارا تعلیمی اور معاشرتی نظام ان نوجوانوں کو سوک ایجوکیشن کی طرف لائے جس کا مقصد اپنی ذاتی ترقی کے ساتھ ساتھ معاشرے یا علاقہ کی ترقی کا عمل بھی جڑا ہوتا ہے۔

یہ سب اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ہماری ریاست، حکومت، ادارے اورمعاشرے سمیت سیاسی جماعتیں اورمیڈیا سب ہی نوجوانوں پر زیادہ سے زیادہ علمی، فکری، انتظامی اور مالی بنیادوں پر سرمایہ کاری کریں۔جب سرمایہ کاری درست سمت میں ہوگی اوراس کی کوئی منزل ہوگی تو یقینی طور پر نئی نسل کو ترقی کے قومی دھارے میں شامل کیا جاسکے گا۔ یہ عمل اس وقت ہماری قومی ترجیحات کا اہم حصہ ہونا چاہیے اوراسی کو بنیاد بنا کر مستقبل کی منصوبہ بندی کی جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔