کراچی کی آواز

نسیم انجم  جمعرات 15 نومبر 2018
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

اہل علم اس بات سے واقف ہیں کہ کراچی اور کراچی والوں کو ہر لحاظ سے نظرانداز کیا گیا ہے اور ان کے حقوق کی ادائیگی کے حوالے سے حکومت نے غفلت کا مظاہرہ کیا ، اسی احساس کو ممتاز شاعراورکئی شعری مجموعوں کے مصنف اور کالم نگار عارف شفیق نے اپنی کتاب ’’ کراچی کی آواز‘‘ میں اجاگرکیا ہے، یہ کالموں کا مجموعہ ہے۔

عارف شفیق نے جو کچھ لکھا اورکہا ان کی تحریروں نے انھیں با اعتماد بنادیا ہے۔مثبت سوچ و فکر کے خالق تخلیق کار نیکی اور صداقت کے راستے کو اپناتے ہیں اور راہ حق پر چلتے ہوئے کانٹوں کی پرواہ نہیں کرتے ہیں۔ اس حقیقت سے بچہ بچہ واقف ہے کہ شہر کراچی اور اس کے مکینوں نے اپنوں کے ہاتھوں بہت سے دکھ جھیلے ہیں، نفرت، تعصب، اقربا پروری اور ناانصافی کی آگ میں جھلسائے گئے ہیں۔ کتاب کے 363 صفحات 76 کالموں کا احاطہ کرتے ہیں۔

عارف شفیق نے اپنے کالموں میں شخصیات کا تعارف اور ان کا خاکہ خوبصورتی کے ساتھ لکھا ہے اور دیانتداری اور خلوص کے ساتھ ان کے علم و ادب کی تعریف کی ہے اور انھیں سراہا ہے اور یہ بہت بڑی بات دوسرے بہت سے قلم کاروں کی طرح تنگ نظری اور احساس کمتری سے بہت دور ہیں، تعریف وہی شخص نہیں کرتا جس کا اپنا دامن آگہی و بصیرت کے نگینوں سے خالی ہو۔ وہ افضل صدیقی، مہدی حسن، دلاور فگار، صہبا اختر، جون ایلیا جیسے بڑے بڑے شعرا کی توصیف اور قدردانی عقیدت کے ساتھ کرتے نظر آتے ہیں، ان کے صاحبزادے محمد علی عارف اور دوست کشور عدیل جعفری نے کتاب کو مرتب کیا ہے۔کتاب کا سرورق دیدہ زیب اورکالموں کی کشش نے قارئین کی توجہ اپنی طرف مبذول کرالی ہے۔ اللہ سے ڈرنے والا کسی سے نہیں ڈرتا ہے ،عارف شفیق کے کالموں میں بھی یہ شان نظر آتی ہے۔

اپنے کالم میں مراد علی شاہ وزیر اعلیٰ سندھ کا بیان درج کیا ہے کہ سندھی، بلوچ، پختون اور پنجابی مل کر پاکستان کو ترقی یافتہ بنائیں گے، انھوں نے یہ نہیں کہا کہ پاکستان کے عوام پاکستان کو ترقی یافتہ بنائیں گے کیونکہ پاکستان کے عوام میں تو مہاجر بھی شامل ہیں، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، عبدالستار ایدھی، ڈاکٹر ادیب رضوی اور حکیم سعید کیا پاکستان کی ترقی میں ان کا کوئی کردار نہیں۔ ’’ابھی کچھ لوگ ہیں اس پار میرے‘‘ عارف شفیق کے اس کالم میں بڑے شعرا کی یادوں کو تازہ کیا گیا ہے اور ان کے یادگار اشعار نے تحریرکو مرصع کردیا ہے ، مہاجروں کے مسائل آج بھی سب سے الگ ہیں اور اسی حوالے سے عارف شفیق کہتے ہیں کہ میری شاعری منیر نیازی اور ناصرکاظمی سے بھی مختلف ہے۔ ہجرت کے بعد کے جس دکھ کو فیض احمد فیض نے اپنے شعر میں لکھا ہے وہ ساری قوم کی آواز بن گیا۔ فیض نے کتنے خوبصورت انداز میں مہاجروں اور پنجابیوں کے خوابوں کے بکھرنے کا ذکر کیا ہے:

یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر

جوانتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں

کراچی کے چند شعرا ایسے تھے جنھوں نے ہجرت کے دکھ کو بھی لکھا اور ہجرت کے بعد کے دکھوں کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔ ان میں خاص نام محشر بدایونی کا بھی ہے 1953 میں پرمٹ کی پابندی کے باعث بہت سے مسلم گھرانے ہجرت نہ کرسکے، اس حوالے سے محشر بدایونی نے جو شعر کہا وہ تاریخ کا حصہ بن گیا۔

کرے دریا نہ پل مسمار میرے

ابھی کچھ لوگ ہیں اس پار میرے

صحافی جلیس سلاسل سے میں اچھی طرح واقف ہوں اس کی وجہ گزشتہ کئی سالوں سے میں قائد اعظم رائٹرز گلڈ کی سیکریٹری جنرل کے عہدے پر فائز ہوں جب کہ عارف شفیق کا یہ کہنا ہے کہ مجھے یہ تو یاد نہیں کہ جلیس سلاسل سے میری کب ملاقات ہوئی، بس اتنا یاد ہے کہ 1994 کے بعد ہوئی تھی جب اس نے قائد اعظم رائٹرز گلڈ قائم کی تھی، دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم دونوں ہم عصر ہیں ہم دونوں کا بچپن اور لڑکپن ایک ہی علاقے لیاقت آباد میں گزرا، عارف شفیق بہت سی باتوں اور یادوں کو تازہ کر رہے ہیں۔ خیالات کی ہم آہنگی پڑھی انھیں فخر ہے۔ عارف شفیق صحافی کے ساتھ ساتھ معتبر اور ممتاز شاعر بھی ہیں۔ اسی لیے وہ کہہ رہے ہیں کہ صحافی تو اپنی کسی بھی خبرکی تردید کرکے اپنا دامن بچا سکتا ہے لیکن کوئی شاعر اپنی تردید نہیں کرسکتا۔ میر، غالب، اقبال سے فیض، فراز اور حبیب جالب تک یہی روایت رہی ہے تو پھر اس روایت سے میں بغاوت کیسے کرسکتا ہوں۔

سر اٹھائے ہوئے مقتل کی طرف جاؤں گا

میں نے سچ بات کہی ہے تو سزا پاؤں گا

ایک وقت وہ بھی تھا کہ ایس ایچ ہاشمی اور آرٹس کونسل کا تذکرہ ایک ساتھ سننے کو ملتا تھا۔ مصنف نے اپنے کالموں میں محسن بھوپالی اور حمایت علی شاعرکی محبتوں اور تاریخی اشعار کو شامل کیا ہے یقینا محسن بھوپالی بڑے شاعر ہی نہیں بڑے انسان اور بے حد اچھے اخلاق کے مالک تھے۔ حمایت علی شاعر خود بے حد شہرت یافتہ اور قابل قدر شاعر ہیں۔

مصنف کو علم و ادب، شعر و سخن ورثے میں ملا ہے ان کے والدین اپنے دورکے ممتازومعتبر قلم کار تھے۔ بقول مشفق خواجہ عارف کی والدہ کا تعلق اردو کے عظیم شاعر مومن خان مومن سے تھا۔ اسد اللہ خان غالب نے مومن خان مومن ہی سے تو کہا تھا کہ یہ شعر مجھے تم دے دو اور بدلے میں میرا دیوان لے لو۔

تم میرے پاس ہوتے ہو گویا

جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

منفرد لہجے کے شاعر جاذب قریشی پر بہت خوبصورت اور بھرپور مضمون لکھا ہے۔ اسی تحریر سے ایک شعر جو جاذب قریشی کی انفرادیت کو نمایاں کرتا ہے:

میری تہذیب کا باشندہ نہیں ہے وہ شخص

جو درختوں سے پرندوں کو اڑا دیتا ہے

(نوٹ ۔ میرے کالم بعنوان ’’سرزمین مہر و ماہ‘‘ کا ایک لفظ ’’احد‘‘ کی جگہ ’’احمد‘‘ چھپ گیا تھا۔ قارئین درست فرمالیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔