طالبان سے مذاکرات اور پرویز مشرف کا ٹرائل

ایاز خان  پير 24 جون 2013
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

شدت پسندوں سے مذاکرات کے حامیوں سے میرا سوال ہے کہ کیا وہ اب بھی اپنے عزم پر قائم ہیں۔ نانگا پربت بیس کیمپ میں 10 غیر ملکی سیاحوں کے قتل کے بعد ان لوگوں سے مذاکرات کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے؟ اس ملک میں غیر ملکی سیاحوں نے ویسے ہی آنا چھوڑ دیا ہے۔ کوہ پیمائی کا شوق وہ واحد ذریعہ ہے جس کی تکمیل کے لیے غیر ملکی سیاح پاکستان کا رُخ کرتے ہیں۔ یہ واقعہ ایک ایسے وقت ہوا ہے جب پہلی پاکستانی خاتون ثمینہ بیگ نے ماؤنٹ ایورسٹ سر کی تھی۔ دہشت گردی کی کارروائیاں دنیا میں پہلے ہی پاکستان کا امیج برباد کر چکی ہیں۔

امریکا اور یورپ میں لوگ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں کسی کی بھی زندگی محفوظ نہیں۔ گلگت بلتستان مجموعی طور پر پُرامن علاقہ ہے۔ پچھلے کچھ عرصے میں یہاں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات ضرور ہوئے ہیں لیکن دہشت گردی کی کوئی بڑی کارروائی نہیں ہوئی۔ دہشت گردی کی حالیہ واردات میں سیاحوں کے گائیڈز ملوث تھے یا کوئی اور یہ تو تحقیقات کے بعد سامنے آجائے گا۔ اصل بات یہ ہے کہ اس کارروائی سے عالمی برادری میں ہمارے ملک کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ چین نے پاکستان سے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ اس کے شہریوں کی حفاظت یقینی بنائی جائے۔

چین نے یہ لہجہ پہلی بار اپنایا ہے۔ اس سے پہلے وہ پاکستان میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے اپنے ہر شہری کے قتل پر صبر کر کے بیٹھ جاتے رہے ہیں۔ لہجے میں بھلے ہی تلخی پیدا ہوئی ہے لیکن آفرین ہے ہمارے دوست چین پر کہ وہ دوستی قائم رکھے ہوئے ہے مگر ایسا کب تک ہو گا۔ حالات ایسے ہی رہے تو تعلقات میں دراڑ بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ دہشت گردی کی اتنی بڑی کارروائی کے بعد قومی اسمبلی میں متفقہ قرارداد مذمت پاس ہو گئی۔ وفاقی وزیر داخلہ نے پالیسی بیان بھی دے دیا۔ انھوں نے کہا غیر ملکی سیاحوں کا قتل پاکستان پر حملہ ہے، یہ حقیقت بھی ہے۔

دہشت گردوں نے حقیقت میں پاکستان پر ہی حملہ کیا ہے۔ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ٹھہرے ہیں۔ ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ کیا ایک مذمتی قرارداد کی منظوری کافی ہے۔ اپنے ارکان اسمبلی کا اس موقع پر طرزِعمل بھی انتہائی افسوسناک تھا۔ چوہدری نثار جب اس اہم ترین موضوع پر اسمبلی کے فلور پر تقریر کر رہے تھے تو ان کے اردگرد بیٹھے ہوئے چند ’’معزز‘‘ ارکان آپس میں گفت وشنید کر رہے تھے۔ وزیر داخلہ کی سیٹ کی پچھلی قطار میں ساتھ ساتھ بیٹھے ہوئے شاہد خاقان عباسی اور برجیس طاہر غالباً کسی زیادہ ’’اہم‘‘ موضوع پر گفتگو کر رہے تھے، لگ رہا تھا جیسے انھیں وزیر داخلہ کی تقریر میں کوئی دلچسپی ہی نہیں۔

سیاستدانوں پر بلاوجہ تنقید نہیں ہوتی۔ سنجیدہ ہونے کا اس سے بڑا اور کون سا موقع ہو سکتا ہے؟ کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے بڑے فخر سے اس کارروائی کی ذمے داری قبول کر لی ہے۔ اس شدت پسند تنظیم کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس امریکی ڈرون حملے کا انتقام لیا گیا ہے جس میں ولی الرحمان کو مارا گیا تھا۔ واہ… کیا استدلال ہے۔ ولی الرحمان کو امریکا نے ڈرون حملے میں مارا اور شدت پسندوں نے ہمارے دوست ملک چین، یوکرائن‘ روس اور نیپال سے تعلق رکھنے والے سیاحوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ امریکا کا انتقام یہ ہمیشہ پاکستان سے لیتے ہیں۔ ان پر یہ الزام غلط نہیں ہے کہ آج تک انھوں نے کسی امریکی تنصیب کو نقصان نہیں پہنچایا۔ ان کی ساری وارداتیں، ساری کارروائیاں پاکستان کے خلاف ہوتی ہیں۔ ممکن ہے وہ پاکستانی قوم کو امریکی سمجھتے ہوں یا انھیں دنیا کے نقشے پر پاکستان نام کا ملک امریکا کا حصہ لگتا ہو۔

لاہور میں دہشت گردوں نے سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملہ کیا تھا تو اس کے بعد سے پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ ختم ہو گئی ہے۔ اب کوئی ٹیم یہاں آ کر کھیلنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ دہشت گردی کی حالیہ واردات غیر ملکی سیاحوں کے اس ملک میں آنے پر پابندی لگا دے گی۔ ہم پہلے ہی کافی حد تک تنہائی کا شکار ہیں، اب ہم بالکل اکیلے رہ جائیں گے۔ مجھے یہ کارروائی سری لنکن ٹیم پر حملے کا تسلسل لگتی ہے۔

الیکشن مہم کے دوران یہ تاثر عام تھا کہ شدت پسند اپنی ’’ہم خیال‘‘ جماعتوں کو نشانہ نہیںبنا رہے۔ پی ایم ایل این اور پی ٹی آئی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد بھی مذاکرات کا عزم ظاہر کیا تھا۔ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت نے بجٹ میں بھی امن و امان کے لیے واجبی سی رقم رکھی۔ شاید انھیں توقع تھی کہ مذاکرات کے مطالبے کے جواب میں دوسری طرف سے بموں کے بجائے پھول برسنا شروع ہو جائیں گے۔ کیا یہ حیرت انگیز نہیں کہ جب سے نیا حکومتی سیٹ اپ قائم ہوا ہے، دہشتگردی کی کارروائیاں بڑھ گئی ہیں۔ زیارت میں قائد اعظمؒ کی ریذیڈنسی کو تباہ کر دیا گیا۔ خیبر پختونخوا اور کراچی میں ارکان صوبائی اسمبلی کو قتل کیا گیا اور اب غیر ملکی سیاحوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔ ابھی پتہ نہیں انھوں نے کہاں کہاں اور کتنے حملے پلان کر رکھے ہیں۔ پنجاب وہ واحد صوبہ ہے جو ابھی تک محفوظ نظر آ رہا لیکن زیادہ دیر تک یہ صورتحال نہیں رہے گی۔ دیگر صوبوں کی طرح پنجاب کی باری بھی آجائے گی۔

ہماری سیکیورٹی ایجنسیاں کہاں ہیں؟انٹیلی جینس ادارے کیوں سوئے ہوئے ہیں؟ ہم کراچی میں ٹارگٹ کلنگ پر قابو نہیں پا سکے، دہشت گردوں کی کارروائیاں کیسے روک پائیں گے۔ کیا وقت نہیں آ گیا کہ مذاکرات کے مذاق سے نکلا جائے، دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے آپشن پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔ حکومت ناکام ہوئی تو پھر کوئی اور یہ کام کرنے کے لیے آگے بڑھے گا۔ حکومت یہ بات سمجھ لے کہ متفقہ اور مذمتی قرار دادوں سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ آئی جیز اور چیف سیکریٹریز کی معطلیاں بھی حالات ٹھیک نہیں کر سکتیں۔ اب یقینی اور عملی طور پر کچھ کرنا ہو گا۔ شدت پسند ملک پر جنگ مسلط کر چکے ہیں۔ دیکھتے ہیں ہمارے حکمران کب تک ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں۔

اوپر حکومت کی کمزوری اور ارکان پارلیمنٹ کی غیرسنجیدگی کی بات ہوئی ہے اب ذرا جمہوری حکومت کے ایک انتہائی بولڈ فیصلے کا ذکر بھی کرنا ضروری ہے۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ چلانے کا اعلان کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت مضبوط ہو گئی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہے کہ کسی سابق آرمی چیف کے خلاف آئین توڑنے پر غداری کا مقدمہ چلایا جائے گا‘ میں اسے جمہوریت کی فتح سے تعبیر کروں گا‘ جب نواز شریف اسمبلی میں تقریر کر رہے تھے‘ اس وقت ہر رکن اسمبلی سنجیدہ نظر آیا‘ جمہوریت کی اس سے بڑی فتح اور کیا ہو گی کہ سابق فوجی آمر ضیاء الحق کے صاحبزادے اعجاز الحق نے بھی جنرل مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کی حمایت کر دی۔ جب تک آئین توڑنے والوں کے خلاف کارروائی نہیں ہوتی‘ اس ملک میں جمہوریت کامیاب ہو سکتی ہے نہ آئین و قانون کی حکمرانی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔