آخری دفاعی حصار

غلام محی الدین  منگل 25 جون 2013
gmohyddin@express.com.pk

[email protected]

فرض کریں کسی علاقے میں ایک ایسی مخلوق نمودار ہو جاتی ہے جس کی خوراک کوڑا کرکٹ ہو۔ انسان جو بچا کھچا کوڑے کے ڈرم میں پھینک دیتا ہے وہی کھا کر یہ مخلوق زندہ رہتی ہو۔ کوئی اور ایسا مسئلہ بھی نہ ہو جس سے انسانی معاشرے کے پُرسکون معاملات زندگی میں کوئی خلل آتا ہو، تو ایسی کسی مخلوق کا مستقبل کیا ہو گا؟ یقینا یہ مخلوق خوب پھولے پھلے گی اور انسان سے اسے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہو گا۔ اب اس کے بالکل برعکس ایک صورت حال کو دیکھتے ہیں۔ فرض کریں کسی علاقے میں ایک ایسی مخلوق وارد ہوتی ہے جو صرف انسانی خون پی کر ہی زندہ رہ سکتی ہے۔

ایسی صورت میں معاشرہ فوری طور پر شدید ردعمل ظاہر کرے گا۔ چند ہفتوں میں پتہ چلا لیا جائے گا کہ انسانوں کو کون مار رہا ہے اور اس کے بعد سرکاری مشینری حرکت میں آجائے گی اور کوشش کی جائے گی کہ اس مخلوق کا جلدازجلد صفایا کر دیا جائے۔ وہ ادارے جو ایسی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے مسلح ہوتے ہیں وہ یکسو ہو کر اپنی تمام توجہ اور قوت خطرے پر مرکوز کر دیتے ہیں اور یوں حالات پر قابو پا لیا جاتا ہے۔ انسانی جسم بھی بالکل اسی اصول پر کام کرتا ہے۔ ہم میں سے بہت کم لوگوں کو معلوم ہو گا کہ ایڈز کی بیماری پوری دنیا کے ماہرین کے لیے کیوں اتنا بڑا چیلنج بنی ہوئی ہے۔

قدرت کا نظام کچھ ایسا ہے کہ اگر باہر سے کوئی ایسا جراثیم یا وائرس جسم میں داخل ہو جائے جو ہمارے بدن کے لیے اجنبی ہو تو عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ وہ ہمارے جسم کو کوئی نقصان نہیں پہنچا پاتا کیونکہ اس کا حیاتیاتی نظام ہمارے جسم کے ماحول سے مطابقت نہیں رکھتا لیکن اگر وہ جراثیم ہمارے جسمانی ماحول سے مطابقت پیدا کرلے اور ہمیں نقصان پہنچانا شروع کردے تو ہمارے جسم کا محافظ مدافعتی نظام فوراً متحرک ہو جاتا ہے اور گھس بیٹھے کے خلاف جنگ شروع ہو جاتی ہے۔

اس سے بھی بڑھ کر ایڈز کی امتیازی خصوصیت یہی ہے کہ پہلے تو ایک اجنبی وائرس نے جو انسانوں میں ہوتا ہی نہیں‘ انسانی جسم کے ماحول سے مطابقت پیدا کر لی اور دوسرے یہ کہ اس کا حملہ ہی ہمارے مدافعتی نظام پر ہوتا ہے۔ جس نظام نے کسی بیماری کے حملے کی صورت میں مضر جراثیموں سے مقابلہ کرنا ہے‘ پہلے ہی برباد ہوجاتا ہے۔ جب یہ تباہی مکمل ہو جاتی ہے تو کھانسی‘ زکام یا کوئی اور معمولی انفیکشن ہی انسان کی جان لینے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ جب تک مدافعتی نظام میں سکت رہتی ہے یہ مقابلہ کرتا ہے۔ اس کے مکمل انہدام کے ساتھ ہی سب کچھ ختم ہو جاتا ہے۔

آج پاکستان کو انتہا پسندی اور دہشت گردی کے جس عذاب کا سامنا ہے اس کی کہانی بھی اوپر بیان کی گئی صورت حال سے مختلف نہیں۔ ہماری پوری تاریخ میں کوئی عرصہ ایسا نہیں جب ہم نے اپنے معاشرتی ڈھانچے کو باہر سے در آنے والے خطرات سے خودکار نظام کے تحت محفوظ بنائے رکھنے کی سنجیدہ منصوبہ بندی کرنے کی کوشش کی ہو۔ اس مجرمانہ غفلت نے آہستہ آہستہ معاشرے کے پورے ڈھانچے کو ایسے انتشار سے دوچار کر دیا کہ کسی بھی قسم کے جراثیم‘ مضر عناصر اور نظریات کو یہاں کے ماحول کے ساتھ مطابقت پیدا کرکے اپنا کام شروع کرنے میں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہیں۔

جس طرح ہمارے جسمانی نظام میں مدافعتی نظام ہوتا ہے اسی طرح کسی ریاست کے اندر جو مدافعتی نظام ہوتا ہے اس کا پہلا اور اہم ترین دفاعی حصار وہاں کا تعلیمی نظام فراہم کرتا ہے۔ تعلیمی نظام کے اندر یکساں معیار اور انتہائی چوکسی پر مبنی نگرانی کا اہتمام کر کے قوم کو منفی رویوں کے خلاف عملی جدوجہد کے قابل بنایا جاتا ہے۔ پاکستان جیسا ملک جس کا وجود ہی نظریاتی اساس پر ٹکا ہو‘ اس کے لیے تو یہ بات فیصلہ کن اہمیت اختیار کر جاتی ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں شکست خوردہ جاپان امریکا کے قدموں میں گرا ہوا تھا۔

اس دور میں جاپان نے امریکا کی ہر شرط کو بلاچون وچرا تسلیم کیا لیکن جب ایٹمی حملوں کی ہولناک تباہی سے برباد اس ملک کے تعلیمی نظام سے چھیڑچھاڑ کی کوشش کی گئی تو حکومت او رپوری قوم اس کوشش کے خلاف کھڑی ہو گئی۔ اس کے برعکس پاکستان بنتے ہی جائیدادوں پر قبضے سے لے کر سرکار کے ان عہدوں اور شعبوں پر قبضہ جمانے کی دوڑ لگ گئی جن میں لوٹ مار کے مواقع زیادہ تھے۔ تعلیم کے شعبے کو کسی نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔ کئی دہائیوں سے ہماری ریاست اس طرح سے چل رہی ہے کہ کسی کو یہ معلوم نہیں کہ کہاں کیا پڑھایا جا رہا ہے۔

ملک کی اشرافیہ نے اپنے لیے الگ سے تعلیم کا بندوبست کرلیا۔ ان کے اداروں میں اور کسی کے لیے کوئی موقع نہیں۔ ان کے بچوں کی تعلیم ان اداروں میں شروع ہو کر بیرون ملک اختتام پذیر ہوتی ہے۔ پھر ہماری سول اور ملٹری بیورو کریسی کی اولادوں کے لیے تعلیمی اداروں کی ایک الگ قسم ہے۔ مڈل کلاس کے لوگ جو اپنے سے اوپر کی کلاس تک پہنچنے کی جدوجہد اور خود کو نچلے درجہ میں کھسک جانے سے روکنے کی تگ ودو میں قبروں میں چلے جاتے ہیں‘ ان کے لیے کئی طرح کے نجی اسکول ہیں۔ عوام الناس کے لیے بھی اسکول ہیں جن میں کچھ بچوں کو ڈیسک پر بیٹھنا میسر ہے‘ باقی زمین پر بیٹھ کر پڑھ لیتے ہیں۔

پھر دینی مدرسے ہیں جہاں بہت سے بچے اس لیے بھی بھیج دیے جاتے ہیں کہ غربت کے مارے والدین کے لیے کم ازکم ایک بچے کے کھانے پینے کا بوجھ کم ہوجائے گا۔ مدرسوںمیں مزید تقسیم مسلکی بنیادوں پر استوار ہے جہاں کی تعلیم و تربیت کا بنیادی نقطہ یہی ہوتا ہے کہ ’’ ہم دوسروں سے کس قدر مختلف اور بہتر ہیں۔ یوں ہمارے معاشرے میں نسل درنسل لوگوں کی ایسی قسمیں پروان چڑھیں جو ایک زبان بولنے کے باوجود ایک دوسرے کی بات نہیں سمجھ سکتے۔

جس طرح تعلیم کا انفراسٹرکچر سمندر میں پھیلے ہوئے جزیروں کی طرح ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں رکھتا اسی طرح ان جزیروں سے تعلیم پانے والے بھی ذہنی اعتبار سے ایک دوسرے سے اتنے ہی دور ہیں۔ بہت کم لوگ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ مشرقی پاکستان(بنگلہ دیش) میں بھی دشمن قوتوں نے اپنے کام کا آغاز تعلیم کے شعبے سے کیا تھا۔ وہاں کے شعبہ تعلیم میں ہندووں کا تناسب چالیس فیصد تھا۔ اُس زمانے میں کتابوں میں جس طرح کا مواد ہوتا تھا اُس کی ایک مثال دیکھیں۔ ’’ اگر کراچی سے ایک پنسل ڈھاکہ پانچ پیسے میں پہنچتی ہے، اور کلکتہ سے وہی پنسل دو پیسے میں پہنچتی ہے تو پانچ فیصد منافع پر بیچنے کی صورت میں سو پنسلوں پر الگ الگ کتنا منافع حاصل ہو گا‘‘۔ آخر کار ہوا یہ کہ اُنہیں سستی پنسلیں میسر آگئیں اور ہمیں پورے کا پورا اقتدار۔

سچ یہ ہے کہ ریاست کا ڈھانچہ پہلے ہی زیر زمین دراڑوں سے بھرے گلیشیر کی طرح ہے ۔ طبقاتی،مذہبی،معاشی، مسلکی، سیاسی، غرض ہر طرح کی محاذ آرائی نے ایسی صورت اختیار کر لی ہے کہ مثبت اختلاف رائے سے بڑھ کر ریاست کے نظم اجتماعی کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ہم نے بہت دیر کر دی ہے۔ اب جب کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو ہم صرف ان اقدامات تک محدود رہتے ہیں جو فوری طور پر کیے جا سکتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے کیچ چھوٹ جانے پر یا مس فیلڈنگ پر قصوروار کی جگہ دوسرا کھلاڑی کھڑا کر دیا جائے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ٹیم کی تیاری ہی درست نہیں۔

دہشت گردی کے تازہ واقعہ میں ’کے ٹو‘ کے بیس کیمپ پر غیرملکیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ سرکار پر اعتماد کا یہ عالم ہے کہ کوئی اپنی زندگی خطرے میں ڈالنے کو تیار نہیں۔ لوگ دہشت گردوں کو ان کے ہدف تک پہنچا دیتے ہیں۔ قائداعظم ریذیڈنسی جلتی ہے تو اس کے محافظ جان بچانے پر اکتفا کرتے ہیں۔ ملک کی سیکیورٹی فورسز اور پولیس کی طرف سے جو مدافعت جاری ہے وہ ریاست کا آخری دفاعی حصار ہے۔ سب سے مضبوط اور موثر دفاعی حصار قومی فکری ہم آہنگی سے جنم لیتا ہے اور یہ دفاعی حصار مدت ہوئی مسمار ہو چکا۔ کوئی ہے جو اسے ازسرنو تعمیر کرنے کے لیے آگے بڑھے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔