بول آئینے بول

صبا ناز عنایت  جمعـء 16 نومبر 2018
ہمیں چاہیے کہ آئینے میں صرف اپنی ظاہری شکل نہ دیکھیں بلکہ اپنے ضمیر کا عکس بھی دیکھیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ہمیں چاہیے کہ آئینے میں صرف اپنی ظاہری شکل نہ دیکھیں بلکہ اپنے ضمیر کا عکس بھی دیکھیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

عرصہ قبل ایک ویڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا جس میں ایک آفس کا منظر پیش کیا گیا تھا۔ صبح جب آفس کے تمام ملازمین اپنے اپنے کیبن میں پہنچتے ہیں تو انہیں اپنی اپنی میز پر ایک نوٹ ملتا ہے جس میں درج تھا ’’اس آفس میں جو آپ کا سب سے بڑا دشمن تھا، جو آپ کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ تھا، اب اس کا انتقال ہوگیا ہے۔ اگر آخری بار چہرہ دیکھنا چاہتے ہیں تو فلاں ایڈریس پر آجائیے۔‘‘ نوٹ پڑھتے ہی ایک لمحے کےلیے تو سب ہی نے دل ہی دل میں افسوس کیا لیکن پھر سوچا چلو اچھا ہوا اب کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔ بہرکیف، پورا اسٹاف متعلقہ ایڈریس پر پہنچ گیا اور پھر ایک ایک کرکے آخری بار اپنے دشمن کا چہرہ دیکھنے وہاں رکھے تابوت کی طرف جانے لگے اور چہرہ دیکھ کر شرمندہ ہوگئے، کیونکہ اس تابوت میں کوئی نہیں تھا بلکہ ایک آئینہ لگایا ہوا تھا۔ جی ہاں! دراصل ہر شخص خود اپنا دشمن ہوتا ہے اور قصور وار سامنے والے کو ٹھہراتا ہے۔

ہم اکثر و بیشتر بڑی بڑی باتیں تو کرتے ہیں لیکن عمل کرنے میں خود صفر ہوتے ہیں۔ جیسا کہ ہم اپنے چھوٹوں سے کہتے ہیں ہم سے تمیز سے بات کرو لیکن خود اپنے بڑوں سے تمیز سے بات نہیں کرتے۔ ایک استاد کو کلاس میں ہر طلب علم کے ساتھ یکساں سلوک رکھنا چاہیے لیکن وہ ذہین اور نکمے بچے میں ہمشہ فرق برتتا ہے۔ شہر میں گندگی اور کچرے کا ڈھیر دیکھ کر افسوس کرنا اور پھر خود چلتے چلتے سڑ ک پر کچرا پھینک دینا۔ ہم ناانصافی کے خلاف بہت باتیں کرتے ہیں لیکن خود چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے ان گنت لوگوں کے ساتھ ناانصافی کر جاتے ہیں۔ کوئی ہمارے اپنوں کے ساتھ بُرا کرے تو ہم بھڑک جاتے ہیں لیکن پھر وہی بُرا کام ہم دوسروں کے ساتھ کر رہے ہوتے ہیں یہ کہہ کر کہ ہمارے ساتھ بھی تو ہوا تھا۔ ہم کرپشن کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں لیکن کبھی غور کیا کہ گھر، گلی، محلے سے لے کر ہمارے معاشرے کے بیشتر افراد کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی سے کرپشن کر رہے ہیں۔ لیکن ہمیں کبھی اپنا آپ نظر نہیں آتا کیوں کہ ہم تنقید کا نشانہ دوسروں کو بنائے رکھتے ہیں۔ اگر حقیقتاً تنقیدی آئینے کا رُخ اپنی طرف موڑیں تو شاید ہم شرمندگی سے خود سے نظریں ہی نہ ملا پائیں۔

پرانے پاکستان سے نکلے نئے پاکستان میں اٹکے، وزیراعظم عمران خان کے تبدیلی کے نعرے دو ماہ میں بھرپور تنقید کا نشانہ بنے ہیں۔ پروٹوکول کے خلاف باتیں ہوئیں لیکن صدر عارف علوی پر پروٹوکول کی بارش نے سارے کیے کرائے پر پانی پھیر دیا۔ وزیراعظم کا ہیلی کاپٹر بھی عوام میں مقبولیت پا گیا، مہنگائی کاخاتمہ کرنے نکلے تھے لیکن ہر دور کی طرح مہنگائی کا اضافہ کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی۔ اعظم سواتی کا واقعہ بھی ہم سب کے سامنے ہے، ایک بے گناہ کو انصاف نہ دلا سکے۔ ہم آج بھی اسی ضمن میں آتے ہیں کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ اس کے باوجود کہا جائے گا ملک میں انصاف کا بول بالا ہے۔ کیا نئے پاکستان کے نئے وزیراعظم کے قول و فعل میں تضاد نہیں؟ کیا انہیں بھی آئینہ دیکھنے کی ضرورت نہیں؟

بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ حقیقت سے منہ نہیں موڑا جاسکتا کہ کوئی بھی وزیراعظم یا کوئی بھی حکومتی ادارہ آپ کا ساتھ دے سکتا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہمیں خود کو تبدیل کرنا ہوگا کیونکہ چڑیا بھی اپنے بچے کی دیکھ بھال اس وقت تک کرتی ہے جب تک وہ گھونسلے سے باہر نکل کر اڑنا نہیں سیکھ لیتا۔ بالکل ایسے ہی حکمراں آپ کو راستہ دکھا سکتے ہیں۔ وہ صحیح ہے یا غلط؟ اس کا فیصلہ آپ ہی کو کرنا ہے کیونکہ کوئی بھی وزیراعظم بائیس کروڑ عوام میں سے ایک ایک کا ہاتھ پکڑ کر نہ تو غلط کام سے روک سکتا ہے اور نہ ہی درست کام کروا سکتا ہے۔ ہمیں اپنی ذات کو، خود تبدیل کرنا ہوگا؛ اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم دوسروں پر کیچڑ اچھالنے سے پہلے اپنی خامیوں پر نظریں ڈالیں، اس بات کو سمجھیں کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو کس حد تک نباہ رہے ہیں۔

آئینے میں صرف اپنی ظاہری شکل نہیں، اپنے ضمیر کا عکس بھی دیکھیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

صبا ناز عنایت

صبا ناز عنایت

صبا ناز ایم اے ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کرنے کے بعد مقامی اخبار میں سب ایڈیٹر کی ذمہ داری نبھا رہی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔