بجٹ بحث‘ سادگی کی ضرورت

کشور زہرا  منگل 25 جون 2013

بجٹ کے بارے میں اس وقت پورے ملک میں بحث جاری ہے معاشرے کا ہر طبقہ اس بحث میں حصہ لے رہا ہے ۔ سول سوسائٹی، معاشی ماہرین، خاص طور پر صحافی برادری اور منتخب نمایندے سب اس میں شامل ہیں۔شاید ہی کوئی میری اس بات سے اتفاق نہ کرے کہ اس سے پہلے کبھی بجٹ پر اتنی مخالفانہ رائے کا اظہار سامنے نہیں آیا اور یہ زوروشور سے ہونے والی بحث اتنی جلد ختم ہونے والی نہیں،خواہ بجٹ پاس ہی کیوں نہ ہو جائے۔بحیثیت رکن قومی اسمبلی میں نے بھی اپنا رائے کا حق استعمال کیا ہے۔زیر نظر مضمون لکھنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ میں عوام کا نقطۂ نظر حکومت تک پہنچانے کی کوشش کروں۔

آنے والی حکومت کو اقتدار سنبھالے کم ہی عرصہ ہوا ہے لیکن ہمیں قوی امید تھی کیونکہ ہمارے معزز وزیر اسحاق ڈار ایک بزنس مین ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بڑی سیاسی جماعت کے لیڈر بھی ہیں، اپنے پیشے کے ماہر بھی یعنی ماہر معاشیات۔اور ویسے بھی ہر سیاسی جماعت غریب لوگوں کی بات کرتی ہے،غریبوں کے لیے بجٹ بنانے کے لیے ہم اس معاشی طور پر کمزور و ناتواں قوم کے لیے موزوں شخصیت ثابت ہو سکتے تھے، لیکن افسوس ایسا نہ ہوا۔ عام آدمی کی ضرورت کو یکسر نظر انداز کیا گیا ۔

ایک اور خاص بات اس پورے بجٹ میں معذور افراد کا کہیں ذکر نہیں جو حکومت کی بھی ذمے داری ہے اور سول سوسائٹی کی بھی اور بڑے افسوس کے ساتھ یہ بات بھی کہنی پڑے گی کہ وہ مغربی ممالک جہاں اسلامی حکومت نہیں ہے وہاں اسلامی روایات ہیں، معذوروں، دردمندوں اور، بزرگوں کے لیے قوانین بنے ہوئے ہیں لیکن جہاں ’’اسلام ‘‘کا نام لیا جا رہا ہے ، بلکہ ’’اسلام‘‘ کے نام پر قتل عام کر رہے ہیں۔ وہاں ان ’’اسلام‘‘ نامی روایات کا ذکرتک نہیں ۔ اب آئیے ذرا پھر سے بجٹ کی طرف۔

ا فسوس ایسا نہیں ہواکیونکہ یہ بجٹ نہ ترقی کے تقاضے پورے کرتا نظر آتا ہے نہ ہی اس میں غریبوں کا خیال رکھا گیا ہے لیکن یہ بجٹ صرف بزنس طبقے کا مفاد پورا کرتا نظر آتا ہے۔ اس کی کہانی صرف بزنس کے اردگرد گھومتی نظر آتی ہے۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ہمارے یہ بجٹ بزنس مینوں کی کہانی کیوں ہوتے ہیں؟ ایک عام آدمی کے لیے کیوں نہیںوہ تو یہ سننا چاہتا ہے کہ دودھ اب کتنے کا ملے گا؟ …آیا آٹے کے کچھ پیسے کم ہوئے …یا وہ بیمار ہوا تو کیا دوا بھی خرید سکے گا یا نہیں۔وہ معصوم کیا جانے FBRکیا ہے؟، GDPکسے کہتے ہیں؟سبسڈی کیا چیز ہوتی ہے؟ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ایسے بجٹ غریب آدمی کو منہا کرتے چلے آرہے ہیں جس سے غربت کی لکیر سے نیچے والا گِرا تو گِرا درمیانے طبقے پر بھی ٹیکس لگا کر اسے دیوار سے لگا دیا گیا ہے۔

انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے عوام نے اکثر حکومت کی کوتاہیوں پر پردے ڈالے ہیں، وہ کس طرح؟ کہ آپ یہ دیکھیے پہلے تو تعلیم کی کمی اس کے سبب آگہی کا نہ ہونا اور یوں ہماری پولیو مہم ناکام ہوتی رہی جب تھوڑی بہت آگہی آنا شروع ہوئی تو اس کو دہشتگردی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا، جس کا نقصان عوام کو ہو رہا ہے، ڈینگی کے مسئلے کا ہم آج تک حل نہیں نکال سکے، اس کی ویکسین بھی مہنگی ہے، ہزاروں بچے اور بڑے اس میں گرفتار ہو رہے ہیں لیکن غریب آدمی اس کا حل خود نکال رہا ہے۔ کہ وہ اگر 100روپے کماتا ہے تو رات کو روٹی کے علاوہ پانچ روپے بچا کر رکھتا ہے کہ ایک کوائل لے کر گھر جانا ہے کہ وہ اور اس کے بچے اس مچھر سے محفوظ رہ سکیں، کہ جن کا خاتمہ ہم نہیں کر پا رہے۔ انتہائی افسوس کے ساتھ کہوں گی کہ Insecticides اور aerosolesکے اوپر 25فی صد ڈیوٹی لگا دی گئی ہے جن کی وجہ سے کوائل اب 5 کی بجائے 10 روپے کا آئے گا۔عوام کے مفاد میں اس ڈیوٹی کو فوری طور پر ختم کر دینا چاہیے۔ اس کے علاوہ بھی بجٹ میں بے ضابطگیوں کا ایک لا متناہی سلسلہ ہے جس پر پارلیمنٹ میں بہت کچھ کہا گیا اور میڈیا میں لکھا بھی جا رہاہے۔

ایک اور اہم پہلو جس کا تعلق ہمارے طرزِ زندگی سے ہے وہ ہے وی آئی پی کلچر ۔ ہمیں اسے ختم کرنا پڑے گا اور اس کی ابتدا گھر سے یعنی پارلیمنٹ سے ہونی چاہیے۔ انگلستان کے ایوان میں لکڑی کی بینچیں ہیں جس پر پارلیمنٹیرینز بیٹھ کر بڑے بڑے فیصلے کرتے ہیں جو نہ صرف اپنے ملک میں بلکہ اس کے باہر ہم پر بھی حکومت کر رہے ہیں۔ ہمارے ایوان میں آرام دہ صوفہ نما کرسیاں ہیں ۔ میں نہیں کہتی کہ ان کرسیوں کو پھینک دیجیے ، لیکن مستقبل کے لیے ضرور فیصلے کیجیے ۔ اتفاق سے پچھلا Tenureمیں نے دیکھا، اور بڑی حیرت ہوئی جب کچھ دن کے بعد لاجز انتظامیہ سے لوگ کھڑکی، دروازوں کے پردوں کے نمونے لے کر آئے کہ انھیں تبدیل کرنا ہے جب کہ بہت صاف ستھرے اور اچھے اچھے پردے لگے ہوئے تھے، یہی صورتحال فرنیچر کی تھی ، اس کے کچھ ہی دن بعد نئے فرنیچر کا کہا گیا جب کہ موجودہ فرنیچر میں کوئی خرابی نظر نہیں آرہی تھی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کیا اس اسرافِ بے جا کا ہمیں حل نکالنا ہو گا۔ کیونکہ اس سے HaveاورHaven’tکے درمیان فاصلہ بڑھ رہا ہے، جو ہمارے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔

ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ہم انسانوں کی درجہ بندیاں خود ہی کر رہے ہیں، جہاز میں سفر کیجیے تو لینڈنگ کا ٹائم ایک، Take offکا ٹائم ایک، چلیے بزنس اور اکانومی کلاس کی حد تک تو ٹھیک تھا لیکن اکانومی کلاس میں بھی کئی جگہ پردے ٹانگ کر مدر کلاس اور فادر کلاس، کہیں دو بسکٹ ، کہیں ایک بسکٹ، ایک میںزیادہ بہتر ائیر ہوسٹس اور ایک میں کم بہتر ایئر ہوسٹس ، ایک میں گیلے تولیے سے منہ پونچھیے تو دوسرے میں سوکھے ٹشو پیپر سے۔

یہ درجہ بندیاں کر کے ہم قوم کو کہاں لے جا رہے ہیں، اسی طرح شادیوں کا حال دیکھ لیجیے مختلف فنکشنز کی بھرمار، لاتعداد کھانوں کی ڈشیں، شادی میں ہزاروں مہمانوں کی آمد، شادی جو خالصتاً عزیز رشتے داروں اور قریبی دوستوں کا فنکشن ہوتا ہے وہ عوامی کنسرٹ میں تبدیل ہو جاتا ہے،جس میں دلہن 8سے 10لاکھ کا جوڑا زیبِ تن کیے ہوتی ہے، اگر کسی سرکاری افسر کی بیٹی یا بہو ہے تو اس کی چھ ہندسوں کی تنخواہ حکومت کی ذمے داری لیکن اگر کسی بزنس مین کی بیٹی یا بہو ہے تو یقینا اس بزنس مین نے بینک سے قرضہ اٹھایا ہوا ہوتا ہے اور اس بینک نے اسٹیٹ بینک سے قرضہ لیا ہوتا ہے اور اسٹیٹ بینک اور حکومت IMFسے قرضہ لے کر ہر پیدا ہونے والے بچے کو مقروض کرتی نظر آتی ہے۔ ہمیں ان معاملات کو سنجیدگی سے دیکھنا ہو گا، اور جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ اس کی ابتدا گھر سے ہو، اس سے پہلے کہ یہاں بھی کوئی انا ہزارے کی تحریک سر اٹھانے لگے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔