جنگ عظیم اول: خاتمے کے سو سال اور اثرات !

علی احمد ڈھلوں  جمعـء 16 نومبر 2018
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کو ایک صدی بیت گئی، 100 برس پہلے لاکھوں نوجوانوں کا لہو پینے کے بعد اس خون آشام دیوی کا خاتمہ ہوا۔اس سلسلے میں پیرس میں جنگ بندی کی سب سے بڑی تقریب منعقد ہوئی، لاکھوں بے گناہوں کے خونِ ناحق کی یاد منائی گئی ۔ فرانس کے نوجوان صدر نے دنیا کے رہنماؤں کوتشویش کے ساتھ یاد دلایا کہ قومیت پرستی انسانیت کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔ اس کے مقابلے میں ’’حب الوطنی‘‘ کو فروغ دیاجائے، امن کے لیے کام کیاجائے۔

امریکی صدر ٹرمپ، روسی ہم منصب پیوٹن سمیت دنیا کے 70 رہنما فرانس کے دارالحکومت پیرس میں نامعلوم فوجی کی یادگار پر جمع ہوئے۔ سخت سرد موسم میں بارش کے دوران عالمی رہنما سیاہ چھتریاں تھامے، ماضی کے سبق کو  یاد کررہے تھے۔ امن کی شمع جلانے پر مشاورت کرتے پائے گئے۔

اس موقع پر ان رہنماؤں نے مارچ بھی کیا۔فرانس کے نوجوان صدر ایمانئیول میخواں کی میزبانی میں یہ رہنما موجود تھے۔ اس دن کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ برطانیہ کی وزیراعظم تھریسا مے کے علاوہ ملکہ ایلزبتھ نے بھی لندن میں بطور خاص الگ سے منعقدہ تقاریب میں شرکت کی۔ نیوزی لینڈ اور آسڑیلیا نے بھی الگ الگ تقریبات کا اہتمام کیا۔بیلجئیم اور فرانس کا دریا کہلانے والے ’اوئیس‘ کے کنارے آباد کومپین، فرانسیسی شہر کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ وحشت خیز جنگ عظیم اول کے اختتام کے معاہدے پر یہاں دستخط ہوئے۔

پہلی جنگ عظیم کیسے ہوئی؟ اس نے دنیا بھر میں کیا اثرات بکھیرے، مسلمان ملکوں کے ساتھ کیا ہوا؟آئیے تاریخ کو ٹٹولیں اور سبق حاصل کریں کہ کس طرح قومیں تباہ ہوتی ہیں۔ 19 ویں صدی کے اواخر میں یورپ میں سیاسی و علاقائی صورتحال تیزی سے بدلنے لگی تھی، جرمنی کی صنعتی ترقی نے اسے یورپ کی بڑی قوت بنادیا تھا اور جرمنی کے خوف سے یورپ کی دوسری بڑی قوت برطانیہ نے مختلف علاقائی طاقتوں کے ساتھ مل کر آنے والے سالوں کے لیے پیش بندی کرنا شروع کردی تھی۔ یوں خطے میں مختلف قوتوں کے درمیان نئے علاقائی اتحاد بننے شروع ہوگئے۔

برطانیہ نے پہلا اتحاد جاپان کے ساتھ 1902 میں کیا، جس کے بعد 1904 میں برطانیہ اور فرانس کے مابین بھی ایک معاہدہ ہوگیا جو اگرچہ باقاعدہ اتحاد تو نہیں تھا تاہم قریبی تعلقات کے فروغ اور ایک دوسرے کی مدد کے لیے بے حد اہمیت کا حامل معاہدہ ضرور تھا۔ اسی طرح کا دوستی کا ایک معاہدہ برطانیہ، فرانس اور روس کے مابین 1907 میں The Triple Ententeکے نام سے ہوا۔ جس سے یورپ دو گروپوں میں تقسیم ہوگیا تھا، اس تقسیم کے ایک طرف جرمنی ، آسٹریا ، ہنگری ، سربیا اور اٹلی جب کہ دوسری طرف روس ، فرانس اور برطانیہ کھڑے تھے۔بنیادی طور پر یہ پہلی عالمی جنگ کی پیش بندی تھی جو کسی بھی وقت چھڑ سکتی تھی۔

پہلی عالمی جنگ کو بیسویں صدی کا پہلا بڑا عالمی تنازعہ بھی قرار دیا جاتا ہے ، لیکن بنیادی طور پر یہ کسی عالمی تنازعہ سے زیادہ بیسویں صدی کی سب سے بڑی عالمی سازش تھی جو اگرچہ اگست 1914 میں ہبزبرگ کے ایک شہزادے فرانز فرڈنینڈ کے قتل سے شروع ہوئی، لیکن اس جنگ کی بنیاد یورپ کی دو گروپوں میں تقسیم کی صورت میں انیسویں صدی کے اختتام پر رکھی جاچکی تھی۔

پہلی جنگ عظیم کے دوران اتحادی قوتوں (برطانیہ، فرانس، سربیا اور روس، جاپان، اٹلی، یونان، پرتگال، رومانیہ اور امریکا) کا مقابلہ محوری قوتوں(جرمنی ، آسٹریا، ہنگری اور بلغاریہ) سے تھا۔ خوف اور طاقت کے نشے میں دنیا کے بیشتر ممالک بھی اس جنگ کا حصہ بنتے چلے گئے لیکن جنگ کا ابتدائی جوش و جذبہ اس وقت ماند پڑگیا جب لڑائی ایک انتہائی مہنگی اور خندقوں کی ہولناک جنگ کی شکل اختیار کر گئی کیونکہ مغربی محاذ پر خندقوں اور قلعہ بندیوں کا سلسلہ 475 میل تک پھیل گیا تھا۔

پہلی جنگ عظیم میں اپنے اتحادیوں کی مدد کے لیے روس کو بالکنز کے علاقے اور بحیرہ روم کو عبور کرکے آگے جانا تھا۔ روس کی جانب سے اپنے علاقوں اور سرحدوں کی خلاف ورزی پر سلطنت عثمانیہ کو مجبورااِس جنگ میں کودنا پڑا اور سلطنت عثمانیہ نے اپنے علاقے بچانے کے لیے محوری قوتوں کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرلیا، پہلی عالمی جنگ کے دوران مشرقی محاذ پر وسیع تر علاقے کی وجہ سے بڑے پیمانے کی خندقوں کی لڑائی تو ممکن نہ ہوئی لیکن اس لڑائی کی شدت مغربی محاذ کے برابر ہی تھی۔ یہ چونکہ جنگ سے زیادہ ایک سازش تھی، اس لیے جنگ (سازش) آہستہ آہستہ یورپ کے دیگر علاقوں سے سمٹتی ہوئی سلطنت عثمانیہ کے علاقوں میں محدود ہوکر رہ گئی، مغربی محاذ پر بنیادی طور پر پہلی عالمی جنگ 11 نومبر 1918 کو صبح کے 11 بجے ختم ہو گئی۔

اس جنگ کے بعد امریکا کے علاوہ تمام اقوام کی شوکت و امارت کا فلک بوس محل دھڑام سے زمین بوس ہو گیا۔ برطانیہ دیوالیہ ہو گیا تھا، فرانس زخم زخم تھا، روس اور جرمنی انقلاب کی دہلیز پر کھڑے تھے، آسٹریا اور ہنگری کی عظیم سلطنتیں ختم ہو گئی تھیں، خلافتِ عثمانیہ ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی تھی، اٹلی بدحواس اور مضطرب تھا اور یورپ کے باقی سارے ممالک اس جنگ کے طوفانی اور آتشیں تھپیڑوں کی وجہ سے راکھ کا ڈھیر بن رہے تھے۔اس جنگ کا اسلامی دنیا پر اس معاہدہ کا بہت برا اثر پڑا۔چونکہ سلطنت عثمانیہ جرمنی کی اتحادی تھی اس لیے اُسے اس جنگ کی بڑی بھاری قیمت چکانا پڑی۔ انگریزوں  نے عربوں کو ترکوں کے خلاف جنگ پر اکسایااور اِس طرح سلطنت عثمانیہ میں مسلمانوں کے مابین قومیت کی بنیاد پر جنگیں شروع ہوگئیں۔

عراق نے بھی سلطنت عثمانیہ کے خلاف علم بلند کر دیا۔سعودی شاہ و فلسطین نے بھی کچھ ایسا ہی کیا اور مسلمان ملکوں کا شیرازہ بکھرتے دیکھ کر یہودیوں نے بھی الگ ملک کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔ اور پہلی جنگ عظیم کے بعد یہودیوں پر الزام لگا کہ جرمنی میں موجود یہودیوں نے جنگ میں جرمنوں کا ساتھ نہیں دیا۔ پس اِن جنگوں میں بہت سے عرب علاقے ترک سلطان کے ہاتھ سے نکل گئے اور اسی جنگ کے اختتام پر مسلمانوں کی وحدت کی علامت عظیم خلافت عثمانیہ کا بھی خاتمہ ہوگیا۔

اس جنگ تک مسلمان ایک اچھی حیثیت میں تھے، مڈل ایسٹ کو بانٹ دیا گیا۔ انڈیا میں تحریک خلافت چلی جسے دبا کر مسلمانوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔ امریکا ایک عالمی طاقت بن کر ابھر ا، جسے اس قدر شہہ ملی کے اُس نے دوسری جنگ عظیم میں دنیا کر پرخچے اُڑا کر رکھ دیے۔ جنگ کے نتیجے میں روس میں غربت مزید بڑھ گئی، روس میں صنعتوں کا وجود ختم ہوگیا، روس اتنا کمزور ہوگیا، کہ اُس کی بھی عظیم و الشان سلطنت کا خاتمہ ہوگیا۔

مسلم ممالک کے حوالے سے اس جنگ کے اثرات پر شان میکمیکن( پروفیسر کے او سی یونیورسٹی استنبول) لکھتے ہیں کہ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ سوالوں کے آسان جواب ڈھونڈتا ہے اور اسی وجہ سے سب جرمنی کو اس ذمے دار قرار دیتے ہیں۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جرمنی نے آسٹریا اور ہنگری کی غیر مشروط حمایت اعلان کر کے اس جنگ کی بنیاد رکھ دی تھی لیکن اگر فرانز فرڈینینڈ کو سراییوو میں قتل نہ کیا جاتا تو پھر آسٹریا اور جرمنی کے لیے سربیا پر حملے کا جواز نہ ہوتا۔ لیکن یہ بات ضرور ہے کہ اس جنگ میں مسلمان ملکوں نے ایک دوسرے کی پیٹھ میں چھرا ضرور گھونپا۔

اس جنگ کے گہرے اثرات بین الاقوامی، سیاسی، اقتصادی اور سماجی شعبوں میں آنے والی کئی دہائیوں تک جاری رہے۔ پہلی عالمی جنگ ظلم و بربریت کی داستانوں کو بڑھاتی اور برداشت و رواداری کے جذبوں کو مزید کم سے کم تر کرتی چلی گئی۔اتحادی اور محوری قوتوں سے شروع ہونے والی اس لڑائی میں آہستہ آہستہ کرکے دنیا کی بیشتر اقوام بھی حصہ بنتی چلی گئیں اور یوں پوری دنیا اس جنگ کی آگ جھلستی چلی گئی۔

پہلی جنگ عظیم جدید تاریخ کی سب سے زیادہ تباہ کن لڑائی تھی، جس میں دنیا میں پہلی بار جدید ٹیکنالوجی استعمال کی گئی، پہلی بار دنیا نے کیمیائی اور زہریلی گیس کا استعمال دیکھا،یہ پہلی جنگ تھی جو سمندر کے علاوہ پہلی مرتبہ فضا میں بھی لڑی گئی۔جنگ عظیم میں دونوں فریقوں کے تقریباًدو کروڑ سے زائد فوجی اور عام لوگ کام آئے اور دو کروڑ افراد کے قریب ہمیشہ کے لیے معذور یا ناکارہ ہوگئے۔

بہرکیف پہلی جنگ عظیم کی وحشت اور درندگی ایک دفعہ پھر نظر آنے لگی ہے۔ وہ عالمگیر جنگ جس کا سبب اور محرک محض ایک شہزادے کا قتل تھا اور اس قتل کو بنیاد بناکر ایک جانب دو کروڑ سے زیادہ لوگوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا گیاتو دوسری جانب جنگ سے گریز پا سلطنت عثمانیہ کو بھی جنگ میں گھسیٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا۔

بہرکیف اس جنگ میں مالی اور جانی لحاظ سے اتنا نقصان ہوا کہ دنیا کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی اور اس جنگ کا غصہ دوسری جنگ عظیم کی صورت میں نکلا جس میں بھی 6کروڑ کے قریب افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ امریکی سائنس دان آئن اسٹائن، جس نے امریکا کے ایٹمی پروگرام پر بہت کام کیا تھا، اس سے دوسری جنگ عظیم کے بعد کسی نے پوچھا کہ جناب! تیسری جنگ عظیم کیسی ہو گی؟ تو انھوں نے کہا تھا ’’تیسری جنگ عظیم کا تو مجھے علم نہیں لیکن چوتھی جنگ عظیم تلواروں اور ڈنڈوں سے ہوگی‘‘۔

آئن اسٹائن کے اس جواب میں ایک وضاحت اور بلاغت موجود ہے کہ تیسری جنگ عظیم بہت بڑی تباہی لائے گی اور کچھ نہیں بچے گا، اس کے باوجود اگر انسان کو لڑنا پڑ گیا تو اسے ڈنڈوں سے لڑنا ہو گا۔ اس قول میں ایک اور نکتہ یہ ہے کہ انسان چھین جھپٹ سے باز آنے کا نہیں وہ دوسروں کا حق مارنے کے لیے لڑتا ہی رہے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔