بلاامتیاز اور غیر جانبدارانہ آپریشن

ظہیر اختر بیدری  جمعـء 16 نومبر 2018
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

کرپشن ملک و قوم کے لیے ایک کینسر کی حیثیت رکھتا ہے جو بھی اس قومی کینسر کو خلوص نیت اور بلاامتیاز ختم کرنے کی کوشش کرے گا، وہ ملک و قوم کا محسن کہلائے گا۔

بدقسمتی سے یہ بیماری نئی نہیں بلکہ پاکستان کی عمر کے ساتھ ساتھ چلنے والی بیماری ہے، اس بیماری کا علاج کرنے کی ذمے داری حکومتوں کی ہوتی ہے، بدقسمتی سے ہمارے ملک میں حکمران طبقات نے اس مہلک بیماری کا علاج نہیں کیا بلکہ ہر آنے والے حکمران نے اس بیماری کو بڑھاوا دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘ والا معاملہ ہوگیا۔

یہ مرض مغرب سے سرمایہ دارانہ نظام کے ذریعے آیا جس طرح کینسر کا کوئی علاج اب تک دریافت نہیں ہوا، اسی طرح کرپشن کا بھی اب تک کوئی حتمی علاج دریافت نہ ہوسکا۔ 71 سال میں پاکستان میں جتنی حکومتیں آئیں ان کی ’’سرکاری مصروفیات‘‘ اس قدر زیادہ رہیں کہ وہ اس غیر سرکاری بیماری کی طرف توجہ نہیں دے سکیں، سرمایہ دارانہ نظام میں نجی ملکیت پر کوئی پابندی نہیں، جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہماری اشرافیہ نے ملکی دولت کے 60 فیصد سے زیادہ حصے پر قبضہ کرلیا۔

اس مرض کا واحد علاج نجی ملکیت پر پابندی یا کم ازکم نجی ملکیت کو محدود کرنا ہے۔ نجی ملکیت کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اگر نجی ملکیت پر پابندی لگا دی جائے تو ترقی کا پہیہ جام ہوجائے گا، کیونکہ مقابلے کی فضا ختم ہوجائے گی اور زیادہ سے زیادہ دولت کم سے کم وقت میں حاصل کرنے کا کریز باقی نہیں رہے گا۔ سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں کا فلسفہ یہ ہے کہ نجی ملکیت کی آزادی سے انسان میں زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کا جنون طاری رہتا ہے، یوں ملکی دولت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور ملک ترقی کرتا رہتا ہے۔

اس فلسفے کے مبلغین کی توجہ اس حقیقت کی طرف نہیں گئی کہ جس دولت میں اضافہ ہوتا ہے وہ عوام کی یا حکومت کی نہیں ہوتی، یہ دولت سرمایہ داروں کی ہوتی ہے اور سرمایہ دار ہی اس دولت سے فائدہ اٹھاتا ہے، عام غریب انسان ساری زندگی بھوک بیماری اور افلاس ہی میں گزار دیتا ہے۔ نجی ملکیت کی آزادی کو سرمایہ دارانہ نظام کے مبلغین نے قومی ترقی کا نام دے کر ایک ایسا فراڈ کیا ہے، جسے غریب طبقات کبھی معاف نہیں کریں گے، آج میڈیا میں ان عوام دشمن سرمایہ داروں کی فہرست بڑے اہتمام کے ساتھ شایع ہوتی ہے، جو دنیا کی تین چوتھائی دولت کے مالک ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کھربوں ڈالرز پر قبضہ جما کر بیٹھنے والوں کے پاس اس دولت کا مصرف کیا ہے، جب وہ دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو چھ گز لٹھا ہی ان کا کل سرمایہ ہوتا ہے۔ اس تلخ حقیقت کا ادراک رکھنے کے باوجود یہ لالچی لوگ اپنا ایک ایک پل دولت میں اضافے کی جدوجہد میں لگا دیتے ہیں؟ عوام کو بھوکا ننگا رکھ کر اربوں کھربوں کی دولت پر قبضہ جمانے والے مجرمین کو کیا سزا ملنی چاہیے اس سوال کا جواب دنیا کے سامنے انقلاب فرانس کی شکل میں آتا ہے۔

پاکستان میں بھی مٹھی بھر اشرافیہ قوم کی تین چوتھائی دولت پر قابض ہے اس ناانصافی کو ختم کرنے کے لیے عمران حکومت اور اہم قومی اداروں نے آپریشن شروع کر رکھا ہے۔ لیکن یہ آپریشن ایک خاندان تک محدود ہوکر رہ گیا ہے جو قرین انصاف نہیں۔ پاکستان کی دولت کو صرف ایک یا دو خاندانوں نے نہیں لوٹا یہ کوئی فرد ہے نہ افراد نہ خاندان یہ ایک طبقہ ہے جب تک ان سارے ڈاکوؤں لٹیروں کے خلاف سخت آپریشن نہیں ہوتا کرپشن کو ختم کرنا تو دور کی بات ہے کرپشن میں کمی بھی ممکن نہیں۔

چین آج کی دنیا کا سب سے زیادہ ترقی کرنے والا ملک ہے چین میں بھی بے پناہ کرپشن تھی خاص طور پر چین میں سوشلزم کے خاتمے اور سرمایہ دارانہ نظام معیشت کو اختیار کرنے کے بعد چینی عوام کی محنت کی کمائی  سرمایہ داروں کے قبضے میں آتی گئی اور وہ ملک جہاں کا سربراہ اور مزدور ایک ہی قسم کا کپڑا پہنتے تھے ایک ہی غذا استعمال کرتے تھے۔

جہاں نہ کوئی غریب تھا نہ کوئی امیر اس ملک میں ارب پتیوں کی بھرمار ہوگئی۔ ساری قومی دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہونے لگی اس بیماری کے خلاف حکومت نے ایسا سخت آپریشن شروع کیا کہ اس آپریشن میں 400 سرمایہ داروں کو دوزخ میں پہنچا دیا گیا۔ لیکن چونکہ وہاں ابھی تک نجی ملکیت وہ بھی لامحدود موجود ہے لہٰذا ابھی غریب اور امیر کی تفریق موجود ہے۔

سرمایہ داروں نے کروڑوں ڈالر کے معاوضے پر ایسے بے شرم دانشور پال رکھے ہیں جو نجی ملکیت وہ بھی لامحدود کے حق کو قومی ترقی کے لیے ناگزیر ثابت کرتے ہیں۔ دنیا میں جتنی برائیاں جتنی گندگیاں موجود ہیں وہ سب سرمایہ دارانہ نظام کا عطیہ ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام لوٹ مار سے شروع ہوتا ہے لوٹ مار پر ختم ہوتا ہے۔ جب تک یہ نظام باقی ہے ہر ملک میں 98 فیصد غریب ہوں گے اور دو فیصد لٹیرے ہوں گے۔

پاکستان کا شمار پسماندہ ترین ملکوں میں ہوتا ہے جہاں محنت کشوں کو دو وقت کی روٹی کے لیے سارا دن محنت کرنا ہوتا ہے۔ جہاں کے 50 فیصد سے زیادہ شہری غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور لوٹ مار کا عالم یہ ہے کہ لٹیروں کے لیے دولت حاصل کرنا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ ہمارے مقتدر ادارے کرپشن کے خلاف اقدامات کر رہے ہیں لیکن یہ اقدامات بہت محدود ہیں اربوں کھربوں کی دولت لوٹنے والے اب بھی محفوظ ہیں بینکوں سے کھربوں کا قرض لے کر معاف کرانے کی خبریں نہ صرف میڈیا میں آتی رہی ہیں بلکہ عدلیہ میں زیر سماعت بھی رہی ہیں۔

ملک کے 200ارب روپے غیر ملکی بینکوں میں رکھے ہوئے ہیں۔ دبئی اور دوسرے مغربی ملکوں میں اربوں ڈالر کی جائیدادیں اشرافیہ کی ملکیت ہیں دولت کی فراوانی کا عالم یہ ہے کہ قلفی بیچنے والے مزدوری کرنے والے اور رکشہ چلانے والوں کے اکاؤنٹس میں اربوں روپے نکل رہے ہیں۔ کرپشن کے خلاف آپریشن ہر کرپٹ تک جانا چاہیے خواہ وہ ملک کے اندر ہو یا ملک کے باہر اور آپریشن بلاامتیاز اور غیر جانبدارانہ ہونا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔