بعد از خدا بزرگ تُوئی

مولانا سیّد شہنشاہ حُسین نقوی  جمعـء 16 نومبر 2018
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’یااﷲ! اِنہیں معاف کردے، یہ جانتے نہیں ہیں۔‘‘فوٹو: فائل

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’یااﷲ! اِنہیں معاف کردے، یہ جانتے نہیں ہیں۔‘‘فوٹو: فائل

ہمیں اللہ کے سب سے محبوب نبی، رسول اور حبیب آنحضرت محمد مصطفی ﷺ کی سیرت ِ طیّبہ پہ غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ ہم اِنشاء اللہ اپنی سیرت کو بھی بہتری، خیر، نیکی، بھلائی اور انسانیت پہ مبنی دیگر اعلیٰ صفات سے منوّر کرسکیں۔

سیرتِ مصطفےؐ، حیاتِ نبویؐ، نبیٔ مکرّمؐ کی ایک جامع ترین زندگی، جو نہ صرف مسلمانوں کے لیے بل کہ اقوامِ عالم کے لیے ایک بہترین نمونہ اور اُسوۂ حسنہ ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے عالمین کو درحقیقت اپنے حبیب آنحضرت محمد مصطفی ﷺ کے لیے خَلق فرمایا ہے۔ یہ عالَمِ رنگ و بو، یہ کائنات اُنھی کے طفیل ہے۔

سورۂ حدید میں ارشادِ الہٰی کا مفہوم ہے: ’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اُس کے رسول ؐ پر ایمان لے آؤ، اللہ تمہیں اپنی رحمت کا دہرا حصہ دے گا اور تمہیں وہ نور عنایت فرمائے گا جس سے تم راہ طے کر سکو گے، اور تمہاری مغفرت بھی کردے گا اور اللہ بڑا معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔‘‘

گویا نبوتِ امام الانبیاء ؐ پر ایمان اتنا اہم ہے کہ انسان رحمتِ الہٰی کے دہرے حصے کا حق دار بن جاتا ہے اور اُس کو ایسی طاقت عطا ہوجاتی ہے جس سے مشکل راستوں کو بھی طے کیا جاسکتا ہے۔ ایک دانش ور کے بہ قول مقامِ فکر ہے کہ اگر صرف ایمان لاکر اتنی قوت حاصل ہوجاتی ہے تو اُسوۂ حسنہؐ کو اپنا کر اور سیرتِ نبی اکرم ﷺ کو اپنے لیے راہ نما بنا کر ہم کس قدر قوی ہوسکتے ہیں۔

نبی مکرّم ﷺ پیغمبرِ امن ہیں۔ وہ سب کے مسیحا اور مددگار ہیں۔ جو سب کے لیے ایک ایسا آفاقی پیغام لے کر آئے، جو قیامت تک کے لوگوں کے درد کی دوا رہے گا۔ ہمارا ہر دن یومِ مصطفیٰ ﷺ ہے۔ اِس لیے کہ آنحضرت محمد مصطفی ﷺ کے بغیر تو سورج بھی نہیں نکلتا۔ ہمارا ہر لمحہ، لمحہ ہے مصطفی ﷺ کا، اِس لیے کہ اُن کے نام کے بغیر تو صبح بھی سانس نہیں لیتی۔ ہمارا کوئی دن بغیر نبی مکرّمؐ کے نہیں گزرتا۔

حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں : ’’ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت محمد ﷺ کو نبی ِبرحق بنا کر بھیجا تاکہ وہ لوگوں کو بندوں کی عبادت سے نکال کر اللہ کی عبادت کرائیں، بندوں کے عہد و پیمان سے نکال کر اللہ کے عہد و پیمان کے بندھن میں باندھ دیں، بندوں کی اطاعت چھوڑ کر اللہ کی اطاعت میں لگ جائیں، بندوں کی ولایت سے نکل کر اللہ کی ولایت میں داخل ہوجائیں۔‘‘

ایک موقع پر نبی ِ مکرّم ﷺ نے چند لوگوں کو دیکھا کہ اُن کے ہاتھ بندے ہوئے ہیں۔ آپؐ نے دریافت کیا: ’’یہ کون لوگ ہیں؟ کیوں اِن کے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں؟‘‘ کسی صحابیؓ نے بتایا: ’’یہ وہی ہیں، جنہوں نے آپؐ کو مکّہ چھوڑنے پر مجبور کیا، یہ وہی ہیں، جنہوں نے آپؐ کو اذیتیں پہنچائیں۔‘‘

رحمۃ للعالمین ﷺ نے کمالِ رحمت سے فرمایا: ’’جاؤ میں نے تمہیں آزاد کردیا، میں نے تمہیں معاف کردیا۔‘‘

ہر نبی نے اپنی برداشت کی انتہا بتائی، مگر ہمارے نبی ِکریم ﷺ نے اپنی برداشت کی حد نہیں بتائی، کسی مرحلے پر بھی نبی کریم ﷺ نے بددُعا نہیں کی، سخت ترین دشمنوں کے لیے کہا: ’’یااللہ ! اِنہیں معاف کردے، یہ جانتے نہیں ہیں۔‘‘ تاریخِ اسلام میں ایسے متعدد واقعات ملتے ہیں۔

جس کنویں کا پانی کڑوا ہوتا تھا، نبی کریم ﷺ لُعابِ مبارک ڈال دیں تو وہ میٹھا پانی ہو جاتا تھا۔ آپؐ کے دستِ مبارک پر آکر سنگ ریزے کلمہ پڑھنے لگتے تھے۔ سواری کا جو جانور بہت خود سر ہوتا تھا، اگر آپؐ اُس پر ہاتھ رکھ دیتے تھے، تو آپؐ کی شفقت پاکر وہ فرماں بردار ہوجایا کرتا تھا۔ ایک درخت کو آپؐ نے آواز دی، تو درخت آپؐ کی آواز پر ’’السلام علیک یارسول اللہﷺ ‘‘ کہتا ہوا چلا آیا اور جب اُسے واپس جانے کا حکم دیا تو تعمیلِ حکم بجا لایا۔ معجزاتِ نبیِ مکرّمؐ پہ کئی جامع اور ضخیم کتابیں لکھی گئی ہیں۔ آپؐ سے منسوب ہر چیز بابرکت قرار پائی۔ یہ تذکرۂ رحمتہ للعالمین ؐ جو آپ پڑھ رہے ہیں، یہ بھی اپنا ایک اثر رکھتا ہے۔

ایک صحابیؓ نے مکان تعمیر کیا اور آنحضرت ﷺ کو اپنے گھر میں مدعو کیا۔ آپؐ نے مکان دیکھا تو خوش ہوئے۔ ایک کمرے میں ایک کھڑکی نظر آئی، آپؐ نے اُس صحابیؓ سے پوچھا: ’’یہ کھڑکی تم نے کس مقصد سے بنائی ہے؟‘‘

صحابیؓ نے کہا: ’’آقاؐ! اِس لیے کہ ہَوا آئے۔‘‘

آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ’’ ہَوا تو آتی ہی، لیکن اگر تم یہ نیّت کرلیتے کہ اذان کی آواز آئے گی، تو تم اللہ تعالیٰ کی جانب سے اجر و ثواب کے مستحق ہوجاتے۔‘‘

اس لیے ہر کام میں ہماری نیّت نیک ہونی چاہیے تاکہ ہم اجر و ثواب کے مستحق قرار پائیں۔  نبی کریم ﷺ کے اسوۂ حسنہ کی پیروی میں ہی ہمارے تمام مسائل کا حل اور ہماری دنیا و آخرت کی کام یابی کا انحصار ہے۔

’’بعد از خدا بزرگ تُوئی قصہ مختصر‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔