لال حویلی... لاہور والی!

طلحہ شفیق  اتوار 18 نومبر 2018
یہ حویلی پرانے لاہور کی ایک اور یادگار ہے، اگر اس کی مرمت نہ کی گئی تو شاید یہاں جلد خالی میدان ہوگا۔ (تصاویر بشکریہ بلاگر)

یہ حویلی پرانے لاہور کی ایک اور یادگار ہے، اگر اس کی مرمت نہ کی گئی تو شاید یہاں جلد خالی میدان ہوگا۔ (تصاویر بشکریہ بلاگر)

راولپنڈی کی لال حویلی کو تو سبھی جانتے ہیں لیکن لاہور میں بھی لال حویلی ہے جس کا بہت کم لوگوں کو علم ہے۔ یہ لال حویلی اندرون شہر میں لوہاری دروازے میں موجود چوک لوہاری منڈی کے قریب واقع ہے۔ یہ حویلی چھوٹی اینٹ سے تعمیر کی گئی ہے۔ حویلی پر نگاہ ڈالتے ہی اِس کے خوبصورت لکڑی کے جھروکے متوجہ کر لیتے ہیں۔ اس حویلی پر سرخ پلستر کیا گیا ہے جس کے باعث یہ لال حویلی کہلاتی ہے۔

بازار کے لوگوں سے معلوم ہوا کہ اس حویلی کا دوسرا نام ’’دارو کی حویلی‘‘ ہے۔ ان کے بقول لال حویلی کشمیر کے راجا نے اپنے خاص درباری دارو کےلیے بنوائی تھی اور اسی وجہ سے یہ دارو کی حویلی بھی کہلاتی ہے۔ اب یہ کون سے مہاراجہ کشمیر تھے اور دارو کون ہے؟ اس کا کچھ پتا نہیں چل سکا۔ اسی بناء پر حویلی کی تعمیر کا درست سن تو معلوم نہیں البتہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ حویلی انیسویں صدی کے آغاز میں تعمیر ہوئی ہوگی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ حویلی وسیع رقبے پر مشتمل تھی جو بعد ازاں 3 حصہ داروں میں تقسیم ہوئی۔ والڈ سٹی کے مطابق حویلی کا موجودہ پلاٹ نمبر ڈی 747، 748، 749 اور 750 ہے۔ حویلی کی عمارت بہت خستہ حال ہوچکی ہے۔

حویلی میں جوتوں کی بہت سی دکانیں ہیں اور حویلی کا پرانا دروازہ انہی دکانوں کی نذر ہوگیا ہے۔ ان دکانوں کے باعث عمارت صحیح نظر نہیں آتی۔ سن 2013 میں ایکسپریس ٹریبیون میں ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں بتایا گیا کہ حویلی کے مالک ناصر جٹ عمارت کو بیچنا چاہتے ہیں اور یہاں جلد ایک پلازہ تعمیر ہوگا۔ پھر اس حویلی کو ثقافتی ورثے میں شامل کرلیا گیا۔ اپریل 2018 میں شہاب عمر صاحب نے ڈیلی ٹائمز میں حویلی پر مضمون تحریر جس میں حویلی کے مالک کے حوالے سے بتایا گیا کہ وہ اسے فروخت کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، انہیں اس عمارت کا کوئی فائدہ نہیں اور وہ اس کی مرمت کےلیے کوئی پیسہ خرچ کرنے پر تیار نہیں۔ حویلی کی فروخت میں بھلے وقتوں میں بنائے گے قوانین حائل ہیں ورنہ جب تک میں نے اس کی زیارت کی، تب تک شاید یہاں پلازہ ہی ہوتا۔

پلازے کا تو اب معلوم نہیں کہ یہاں بنے گا یا نہیں، البتہ اگر اس حویلی کی مرمت نہ کی گئی تو شاید یہاں جلد خالی میدان ہوگا۔ حویلی کے ایک حصے میں ویرانیاں بستی ہیں۔ عرصہ دراز سے یہاں صفائی نہیں ہوئی مگر عمارت کی دیواروں پر کیا گیا کام اب بھی حیران کردیتا ہے۔ حویلی کو بنانے والے، شاہی قلعے کے شیش محل سے خاصے متاثر نظر آتے ہیں۔

لال حویلی کے نام سے ایک اور عمارت موچی دروازے میں بھی موجود ہے۔ موچی دروازے میں داخل ہوتے کے ساتھ ہی یہ حویلی نظر آجاتی ہے۔ یہاں امام بارگاہ ہے۔ عمارت اس حویلی کی بھی بے حد خوبصورت ہے۔ کچھ لوگ اس عمارت کو چندو لال سے بھی منسوب کرتے ہیں جس نے سکھوں کے پانچویں گرو ارجن دیو جی کو قید کیا تھا۔ مگر حویلی کی عمارت اتنی قدیم نہیں بلکہ باہر لگی تحتی پر سن تعمیر 1328 درج ہے۔ قریب واقع لال کھوہ سے مماثلت کے باعث شاید بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوئی یا شاید ماضی میں چندو لال کی حویلی لال کھوہ سے یہاں تک ہو۔ بہرحال ان دونوں حویلوں کی تاریخی اہمیت ہے اور والڈ سٹی اتھارٹی کو ان کی مرمت و حفاظت کےلیے فوری اقدمات کرنے چاہئیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔