ادب کی باکس آفس دوڑ

طاہر سرور میر  ہفتہ 18 اگست 2012
tahir.mir@expressnews.tv

[email protected]

کشور ناہید کا شمار ان لکھنے والیوں میں ہوتا ہے جنہیں لکھنا آتا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ خوب لکھنا آتا ہے تو مجھے یقین ہے کہ میں ’’توہین ادب‘‘ جیسے کسی فعل کا ارتکاب نہیں کر رہا جیسے ہمارے ہاں ایک عرصے سے وزرائے اعظم سے سرزد ہو رہا ہے۔ کشور ناہید نے امجد اسلام امجد کی نمبر ون حیثیت کو ماننے سے انکار کر دیا ہے جن کا شعر ہے کہ

تم جس خواب میں آنکھیں کھولو اس کا روپ امر
تم جس رنگ کا کپڑا پہنو وہ موسم کا رنگ

وقوعہ یہ ہے کہ کشور ناہید نے اس گیلپ سروے پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے جس میں ظاہر کیا گیا ہے کہ امجد اسلام امجد آج کے مقبول مصنف ہیں۔ ادب سے وابستہ اس خاتون اعلیٰ (براہ کرام بروزنِ خادم اعلیٰ نہ پڑھیے گا) نے اس ادبی گیلپ سروے سے اختلاف کیا ہے جس کے مطابق جناب امجد اسلام امجد کو مقبول مصنف قرار دیا گیا ہے۔ کہتے ہیں کسبیوں سے داد لینا بہت مشکل بلکہ ناممکن فعل ہے اس کی عمومی دو وجوہات ہیں اول یہ کہ وہ اپنے کسی بھی کسبی اور ساتھی کے کام اور فن کے اصل ناقد ہوتے ہیں، دوم وہ گھر کے بھیدی ہوتے ہیں۔ کشور ناہید نے نمبر ون ادیب ہونے کے معاملہ پر ایڈووکیٹ اکرم شیخ کی طرح اچھی بھلی ’’رٹ پٹیشن‘‘ دائر کر دی ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ سروے کا اصل مقصد مستنصر تارڑ کی دھوتی چرانا ہے کیونکہ سب سے مقبول ادیب ہونے کا دعویٰ تو وہ کرتے ہیں اور انھیں اس کام میں پبلشروں کی ’’پشت پناہی‘‘ (منافع) حاصل رہتی ہے۔

کشور ناہید نے اپنی پٹیشن میں اعتراض اٹھایا ہے کہ سروے کا مقصد کیا ہے؟ یعنی واضح نہیں کیا گیا کہ متذکرہ سروے شاعروں کے بارے میں ہوا یا اس کا ایجنڈا ڈراما نگاروں اور کالم لکھنے والوں کی باکس آفس ریٹنگ جانچنا تھا؟ یہ بھی حوالہ دیا گیا ہے کہ گزشتہ دنوں ایسے ہی ایک سروے میں کہا گیا کہ عمران خان اس وقت سب سے مقبول سیاسی لیڈر ہیں۔ اس کے فوراً بعد ایک دوسرے سروے میں کہا گیا کہ عمران خان کا تو کوئی ایجنڈا ہی نہیں ہے۔ یوں لگتا ہے کہ سروے کرانے والی ایجنسیاں بھی خفیہ ایجنسیوں کی طرح کام کرتی ہیں اور ان کے بھی ایجنڈے ہوتے ہیں۔

بانیان پاکستان میں شامل ایک ہستی کے نواسہ گزشتہ شب ایک محفل میں شریک تھے۔ میں نے ان سے دریافت کیا کہ عمران خان کو یہاں تک لانے میں کیا خفیہ ایجنسیوں کا ہاتھ ہے؟ جواب ملا اس ملک کی 90فیصد لیڈرشپ ایجنسیوں کی پیداوار ہے، میں نے دریافت کیا باقی 10فیصد کون ہیں؟ جواب ملا 10فیصد وہ مسکین یتیم ہیں جو اس کوشش میں ہیں کہ ایجنسیاں انھیں بھی لفٹ کرائیں تاکہ وہ بھی اس قوم کے ’’خادمین‘‘ میں شامل کر لیے جائیں۔ ہمارے ہاں سیاسی رہنمائوں اور قومی ہیروز تراشنے کا جب ایک ہی نگارخانہ اور ایک ہی ٹکسال ہو تو کوئی کہاں سے معرض وجود میں آئے؟ ہمارے دائیں بائیں سبھی ہیروز ایک ہی ’’پروڈکشن ہائوس‘‘ کے اسٹارز ہیں جو ان کے سیاسی، نظریاتی، معاشی اور ترجیحاتی پیکر سے یوں واضح ہوتا ہے کہ

نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا

ادب بھی صحافت کی طرح کمرشل ازم کا شکار ہو چکا ہے لہٰذا اس میں سے نمبر ون اور نمبر دو ڈھونڈنے چاہییں، ویسے نمبر ون تو ایک ہی ہوتا ہے باقی تو دونمبر ہوتے ہوں گے۔ ادب جب کمرشل ازم کا شکار ہو چکا تو یقینا اس میں کوئی کنگ خان بھی ہو گا اور کوئی ادبی آئٹم گرل بھی ہو تو ہو گی؟ بہت سال پہلے میرے ایک سینئر نے عمر شریف، امان اللہ اور سہیل احمد کے مابین نمبر ون ہونے کی بحث کا آغاز کر دیا تھا۔ اس دوڑ میں چوتھے اداکار طارق جاوید نے مقابلہ یہ کہہ کر ختم کرایا تھا کہ نمبر جوتے کے ہوتے ہیں فنکاروں کے نہیں۔

کشور ناہید ایسے کسی سروے کو نہیں مانتیں جس میں پروین شاکر اور خود انھیں شامل نہ کیا گیا ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر اس ’’مردانہ سروے‘‘ میں پروین شاکر سمیت بعض دوسری خواتین شعراء کو بھی شامل کر لیا جاتا تو ادب کی ’’مردانگی‘‘ کو خطرہ لاحق نہ ہوتا۔ موصوفہ نے مقبولیت اور معیار کی بابت مرتب کردہ ایک رپورٹ خود بھی شایع کی ہے جو کچھ یوں ہے کہ کالجوں میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے مصنف مستنصر حسین تارڑ ہیں ان کے بعد اشفاق احمد اور شہاب نامہ کی مانگ رہتی ہے جب کہ مزاح نگاروں میں یونس بٹ سرفہرست ہیں حالانکہ مشتاق احمد یوسفی ہونے چاہئیں۔

2000کے اختتام میں جب نئی صدی کا آغاز ہو رہا تھا تو بھارت میں ’’آرٹسٹ آف دی ملینیم ایوارڈ‘‘ امیتابھ بچن کو دیا گیا۔ ان دنوں میں ممبئی میں تھا،میں نے امیتابھ سے انٹرویومیں پوچھا تھا کہ… دلیپ کمار کے ہوتے ہوئے کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آرٹسٹ آف دی ملینیم آپ ہیں؟ اس پر انھوں نے کہا کہ مذکورہ ایوارڈ کے لیے انٹرنیٹ پر ووٹنگ کرائی گئی ہے جس میں زیادہ تر ٹین ایجرز نے حصہ لیا ہے، اگر انھوں نے یہ کہا ہے کہ امیتابھ بڑا اداکار ہے تو آپ اس بڑے اداکار سے بھی تو پوچھیں کہ اس کا ووٹ کس کے لیے ہے؟ امیتابھ بچن نے کہا کہ میرا ووٹ دلیپ کمار صاحب کے لیے ہے ۔

امیتابھ بچن نے کہا کہ میرے نزدیک آرٹسٹ آف دی ملینیم دلیپ کمار صاحب ہیں۔ فن و ادب کے میدان میں ایسا بہت ہی کم ہوا ہے کہ جہاں معیار اور مقبولیت یکجا ہوتے ہیں۔ اگر کہیں ایسا ہو جائے تو وہ نور جہاں ہوتی ہے، لتا منگیشکر ہوتی ہے اور مہدی حسن ہوتے ہیں۔ فن کے جہان میں جہاں نور جہاں، لتا اور مہدی حسن ہوتے ہیں وہاں استاد نزاکت خان سلامت خاں اور استاد بڑے غلام علی خاں بھی ہوتے ہیں۔ ایک مرتبہ استاد سلامت علی خاں نے لتا سے کہا کہ آپ کو ساری دنیا سنتی اور پیار کرتی ہے اس پر لتا نے کہا کہ جسے ساری دنیا سنتی اور پیار کرتی ہے وہ آپ کو سنتی اور پیار کرتی ہے۔

لتا منگیشکر وہ گائیکہ ہے فن گائیکی میں جس کا ’’فتویٰ‘‘ چلتا ہے۔ استاد بڑے غلام علی خان واقعی بڑے فنکار تھے مگر ان کی ایک حیثیت یہ بھی تھی کہ آپ لتا منگیشکر کے استاد تھے۔ لتا نے مہدی حسن کے لیے کہا تھا کہ خاں صاحب کے گلے میں بھگوان بولتے ہیں تو سند ہو گئی۔ لتا منگیشکر کے پلے بیک گائیکی میں اپنی ساری زندگی معیار، مقبولیت اور منافع کے جو جھنڈے گاڑے تھے عاطف اسلم کے ایک گیت نے توڑ دیے ہیں۔ گلوکار عاطف اسلم کے صرف ایک گیت ’’تیرا ہونے لگا ہوں‘‘ سے بھارتی ریکارڈنگ کمپنی نے 18کروڑ روپیہ کمایا اس پر کیا عاطف اسلم کو لتا منگیشکر، کشور کمار، رفیع اور مہدی حسن سے بڑا گلوکار مان لیا جائے؟۔

اب کشور ناہید امجد اسلام امجد کی طرح عاطف اسلم کی اس مستند حیثیت کو بھی تسلیم کرنے سے انکاری ہوں گی۔ کشور ناہید مانیں یا مانیں ریکارڈنگ کمپنیاں عاطف اسلم کو لتا سے بڑا گویا مان چکی ہیں۔ رٹ پٹیشنر (سائلہ) کشور ناہید کے مقدمے میں خاصے شواہد موجود ہیں لیکن ہم مسئول الیہ امجد اسلام امجد کے لیے ’’ادبی انسانی حقوق‘‘ کے غائبی وکیل انصار برنی کا روپ دھارتے ہوئے بغیر فیس یہ ’’غالبانہ دلیل‘‘ دیں گے کہ

غالب برا نہ مان جو واعظ برا کہے
ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔