عمران خان کی ٹیم پر بے جا تنقید کیوں!

راؤ منظر حیات  ہفتہ 17 نومبر 2018
raomanzar@hotmail.com

[email protected]

سرفرازوہیں ٹھہریں گے تواستقامت اورصبرسے موجودہ طوفان میں کھڑے رہینگے۔اس لیے کہ جس بات کا ڈرتھا،خوف تھابلکہ کئی بزرجمہروں کویقین تھا،ملک اس حادثہ سے بچ گیاہے۔اقتصادی طورپرڈیفالٹ سے مکمل محفوظ۔ یہ عمران خان کی پہلی کامیابی ہے جواس نے خاموشی سے حاصل کی ہے اوراس پرزیادہ بحث بھی نہیں کرتا۔

پرانے کھلاڑیوں نے خاص منصوبہ بندی کے تحت ملک کوقرضوں میں گروی تورکھا ہی تھامگرمنصوبہ کچھ اور تھا۔ اس منصوبہ میں چندغیرملکی طاقتیں بھی شامل تھیں۔ بساط اس اَمرکی بچھائی گئی تھی کہ اگر پنتیس سال سے اس ملک کی شاہ رگوں سے خون پینے والے کامیاب ہوگئے تو فوری طورپرڈھول ڈھمکے کے شورمیں چپ کرکے حددرجہ سخت شرائط پرسخت قرض لے کرچندبڑے بڑے منصوبے جن میں سے ایک دو تو جاری بھی ہیں،انھیں کھلونابناکرعوام کا دل بہلایاجائے گا۔

لوگوں کودوبارہ بیوقوف بنایاجائے گا۔جیسے لاہور کی اورنج ٹرین اورشائدایک دواسی قبیل کے غیرسنجیدہ مہنگے ترین ترقیاتی اقدام۔ان منصوبوں میں ملک کی خیر مطلوب نہیں تھی۔پہلے بھی عرض کیاہے کہ انکواپنی جیت کا یقین تھا۔ہرادارے میں انھی کے پروردہ لوگ موجود تھے۔الیکشن میں ہارنابقول ان کے ممکن ہی نہیں تھا۔ مگر خدا کی مرضی بالکل مختلف تھی۔انتہائی بے ترتیبی سے الیکشن لڑتے ہوئے عمران خان کی جیت ہوگئی۔ ایک ایساکام، جوالیکشن سے چارپانچ ماہ قبل سوچابھی نہیں جاسکتا تھا۔

خیر یہ عوام کی مرضی تھی کہ ووٹ اسکوحددرجہ زیادہ پڑے۔آل شریف کے پیروں سے زمین نکل گئی۔یہی وہ وقت تھا جب پرانے کھلاڑیوں نے بوسیدہ کھیل کھیلا۔ دیر سے نتائج آنے کودھاندلی قراردیدیا۔حالانکہ پچھلے تمام الیکشنوں میں کبھی بھی کوئی نتیجہ وقت پرموصول نہیں ہوا۔ مسلم لیگ ن کے جیتے ہوئے کسی بھی الیکشن کے نتائج کومثال بناکر سامنے رکھ لیجیے۔دلیل سے عرض کرتا ہوں۔ چند سیاسی قوال حاصل کیے گئے۔قوالی کامصرع تھاکہ نادیدہ ہاتھ، پی ٹی آئی کی حکومت کولے کرآئے ہیں۔جب اسکابھی کوئی ثبوت نہ مل سکاتوپھردوتین ہفتوں کے لیے خاموشی چھاگئی کہ اب کیا کریں۔

چنانچہ ٹھیک دوماہ پہلے ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت یہ بات پھیلانے کا عزم ہواکہ عمران خان کی ٹیم ناتجربہ کار،نااہل اورنکھٹوہے۔چند گروپ جن کو پیسے ملنے بندہوچکے تھے،انھیں سرمایہ بھی مہیا کیا گیا۔ دوماہ سے قیامت برپا کر دی گئی کہ ہائے ہائے،ملک بربادہوگیا۔تباہی مچ گئی۔ نااہل اورناتجربہ کارٹیم نے توملک کابیڑہ غرق کردیا۔

تحریک انصاف اس سازش کوموقعہ پرسمجھ نہ پائی۔اس کی ٹیم نے دوہفتے ضایع کردیے۔مگرجب معاملات کی سنجیدگی کا احساس ہواتوچوہدری فواد اور دیگر حضرات نے ترکی بہ ترکی جواب دیاجوجارحانہ بھی تھا تو بہت حدتک حقائق پر مبنی بھی۔ن لیگ کواس رویہ کی توقع نہیں تھی۔لہٰذااب انھوں نے روش تبدیل کرکے تحریک انصاف کے وزراء پر کیچڑاُچھالناشروع کردیا ہے۔ یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔ مگراگلے پندرہ بیس دن میں یہ معاملہ بھی ٹھنڈاپڑجائے گا۔

وزیراطلاعات کاعہدہ حددرجہ مشکل ہے۔ اگر دیکھا جائے توہروزیراطلاعات بھنورکی آنکھ میں زندگی گزارتا ہے۔فوادچوہدری کے ساتھ بالکل یہی ہورہاہے۔میری دانست میں وہ اپناکام سنجیدگی سے کررہاہے۔معاملات کو ان کے حقیقی تناظرمیں بیان کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ دو مثالیں لے لیجیے۔

وزیراطلاعات کایہ کہناکہ بڑے بھائی یعنی نوازشریف کی بے قاعدگیوں کی تحقیقات کے لیے پی اے سی کمیٹی کی صدارت چھوٹے بھائی یعنی شہباز شریف کو نہیں دی جاسکتی۔یہ اُصولی طورپرحددرجہ درست بات ہے۔پوری دنیامیں ایک مثال بھی نہیں ملتی کہ سیاسی نظام میں ایک فردکی مالی بدعنوانی کواُسی خاندان کاایک فرد پرکھے۔لازم ہے کہ اسکارویہ حددرجہ جانبدارانہ ہوگا۔ اس اُصول کے تحت فواد چوہدری ٹھیک کہہ رہاہے۔ اس معاملے میں پی ٹی آئی کی پالیسی مکمل طورپردرست ہے۔

دوسری مثال، فوادچوہدری کایہ کہناکہ اگرنیب،آل شریف کے خلاف تحقیقات کرناختم کردے توقومی اورپنجاب کی صوبائی اسمبلی میں ہنگامہ ختم ہوجائے گا۔یہ بات بھی بالکل درست ہے۔آج اگر شہباز شریف اوربڑے بھائی کواین آراومل جائے۔ان کے خلاف تحقیقات روک دی جائیں۔ نیب برادرخوردکوچھوڑدے تو جمہوریت کے لیے ہرخطرہ ختم ہوجائے گا۔نکتہ ہی یہی ہے۔اگرعمران خان ،آل شریف کے معاشی جرائم سے صرفِ نظرکرلے،توسارامعاملہ ٹھیک ہوجائے گا۔مگرعمران این آراو ہونے نہیں دے رہا۔

اصل تکلیف بھی یہی ہے۔سامنے فواد چوہدری ہے کیونکہ بہرحال حکومت کانقطہِ نظراسی نے بیان کرنا ہے۔ لہذ اپرانے تمام کھلاڑی،فوادچوہدری کے خلاف کمال واویلا فرمارہے ہیں۔پرانے سیاسی کھلاڑی ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ تحریک انصاف کی ٹیم بچوں پرمشتمل ہے۔یہ تو ناتجربہ کارہے۔یہ توکام کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے۔ یہ منصوبہ بندی مکمل طورپرجاری وساری ہے۔ پر اب یہ اپنے منطقی انجام تک پہنچ رہی ہے۔ پرانے سیاسی گرگوں کو معلوم ہوچکاہے کہ وہ موجودہ حکومت کوگرانھیں سکتے۔

چلیے،تھوڑی دیرکے لیے عمران خان کی ٹیم کاسرسری ساجائزہ لے لیتے ہیں۔اس کے ارکان پر طائرانہ نظرڈال لیتے ہیں۔شاہ محمودقریشی سے بہتر وزیرخارجہ پچھلے دس پندرہ سال سے نہیں آیا۔ پیپلزپارٹی کی حکومت میں اس کی بہترکارکردگی سے گھبراکر”گرو”نے اسے تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی۔مگرشاہ محمود،پیپلزپارٹی ہی چھوڑگیا۔ اس کا تمسخر اُڑایاگیا۔”گرو”نے کہاکہ وہ کبھی سیاست میں واپس نہیں آئیگا۔توقعات کے برعکس شاہ محمود قریشی دوبارہ الیکشن جیت گیا۔شاہ محمودسفارتی سطح پر حد درجہ فعال انسان ہے۔

اس کے مسلسل مربوط دوروں سے پاکستان کا نقطہِ نظروضاحت سے دنیاکے سامنے آرہاہے۔ہمارے دوستوں کے دل وسیج رہے ہیں۔ملتان اورتحریک انصاف کی اندرونی سیاست میں شاہ محمودکاکیارول ہے،اس پر دورائے ہوسکتی ہیں۔مگرسفارتی سطح پروہ حددرجہ کامیاب ہے۔کم ازکم، سرتاج عزیزاورفاطی سے ہزاروں نوری سال بہتر۔ خاموشی سے اپناکام کررہاہے ۔چلیے،اسے بھی چھوڑ دیجیے۔ کیا اَسد عمر وزارت خزانہ اسحاق ڈار سے بہترنہیں چلا رہا۔بالکل چلا رہا ہے۔مشکل ترین صورتحال میں اَسد عمر، نے پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچایاہے۔ورنہ امریکی ڈالر دو سو روپے سے بھی بڑھ چکاہوتا۔مہنگائی کا بڑھنا تو کوئی لفظ ہی نہیں ہے۔ اگر پاکستان اقتصادی طورپر دیوالیہ ہو جاتا، تو کھانے پینے کی اشیاء کم ازکم دوسے تین ہزار گنا بڑھ جاتیں۔

پیٹرول کی قیمت کیاہوتی؟سوچتے ہوئے بھی خوف آتاہے۔یہ بات بھی درست ہے کہ چند اقتصادی فیصلے غیرمقبول ہوئے ہیں۔ مگر یہ سب کچھ مجبوری میں کیا گیا۔صرف اورصرف دیوالیہ پن سے بچنے کے لیے۔ یہ بھی درست ہے کہ پٹرول کی قیمت بڑھنے سے مہنگائی بڑھی ہے۔مگربتائیے جس ملک میں کوئی امیرآدمی ٹیکس دینے کے لیے تیارنہیں۔طاقتورطبقہ ایف بی آرکواپنی جیب میں ڈال کررکھتاہے۔وہاں ان ڈائریکٹ ٹیکس کے علاوہ دوسراراستہ کون سارہ جاتاہے۔

قوی یقین ہے کہ چھ ماہ کے اندر اندر، مہنگائی کم ہوجائیگی۔اَسدعمراس وقت اپنی بساط سے بڑھ کرمحنت کررہاہے۔آئی ایم ایف کی کڑی شرائط بھی تسلیم نہیں کررہا۔کیایہ سب کچھ اسحاق ڈار صاحب کررہے تھے۔ دل پرہاتھ رکھ کر بتائیے۔ کیا پاکستان میں کسی کوبھی معلوم تھا کہ اسحاق ڈار،کس دھڑلے سے ملک کی معیشت کو برباد کررہاہے۔گروی رکھ رہاہے۔ پیسہ بنارہا ہے۔ اَسد عمر کا مقابلہ اسحاق ڈار سے کرنا غیرمناسب ہے۔ اَسدعمرکے کردار پرکرپشن کاکوئی داغ نہیں ہے۔ یہ بذات خودایک محترم بات ہے۔

آگے بڑھیے۔کیاشفقت محمودکام نہیں کررہا۔ وزارت داخلہ کاوزیرمملکت فعال نہیں ہے۔صرف اور صرف میرٹ پربات کیجیے۔عمران خان اپنی ٹیم کے ساتھ میدان میں جم کرکھڑاہوچکاہے۔لازم ہے،چندکھلاڑی دوسروں سے بہترہونگے۔آہستہ آہستہ کام نہ کرنے والے،ٹیم سے باہر ہوجائینگے۔ کیا وزراء کی کارکردگی پر پہلے کبھی بھی کڑی نظررکھی گئی تھی۔بڑے میاں صاحب تو وزراء سے ملناتک پسند نہیں کرتے تھے۔ان کی کارکردگی کا جائزہ کیسے لیتے۔ ان کے مصاحبین کسی کے متعلق جوکچھ بھی فرما دیتے۔میاں صاحب اسی انفارمیشن کی بنیاد پر اپنا رویہ ترتیب دیتے تھے۔ ویسے ایک ایساشخص جوقومی اسمبلی میں جانااپنی توہین سمجھتا تھا،جوسینٹ کوجوتے کی نوک پر رکھتاتھا،جووزراء سے دور رہتا تھا۔ جسکو ملنے کے لیے ایم این اے سفارشیں کرواتے تھے۔

کیا واقعی اسکاموازنہ موجودہ وزیراعظم سے ہوناچاہیے جوہرہفتہ کابینہ کی میٹنگ بلاتا ہے۔مشاورت کرتا ہے۔ درست فیصلے کرنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ اداروں کے ساتھ توازن رکھنے کی عملی پالیسی اپناتا ہے۔کیاواقعی عمران خان پرتنقید کرنی چاہیے کہ وہ تین ماہ میں کابینہ کے درجنوں اجلاس کیوں بلاچکا ہے۔یہ بھی کامل بات ہے کہ اس کے سارے فیصلے درست نہیں ہیں۔لیکن کون سی حکومت ہے۔ جسکے سو فیصدفیصلے درست ہوں۔ہاں،ایک اور چیز پر بھی توجہ دیجیے۔اس حکومت میں کرپشن کاایک بھی اسکینڈل سامنے نہیں آیا۔

عمران خان،ایک ہیڈ ماسٹر کی طرح سختی کررہا ہے۔ کسی وزیرکی جرات نہیں کہ مالیاتی بے ضابطگی کرے۔آل شریف کوخوف ہی یہ ہے کہ اگرعمران خان پانچ سال حکومت کر گیا تو پھر انکاکیابنے گا۔اگرملک کی اقتصادی صورتحال درست ہوگئی توپھران کے اخباروں کی حدتک ترقیاتی کرشموں پرکون یقین کریگا۔قرائن تویہی ہیں کہ عمران خان کام بھی کرتارہیگااورپانچ سال بھی پورے کریگا۔ باقی غیب کاعلم توصرف خداکے پاس ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔