اے این پی کو شو کاز نوٹس

سعد اللہ جان برق  ہفتہ 17 نومبر 2018
barq@email.com

[email protected]

خبر تو آپ نے پڑھ یا سن لی ہوگی کہ اے این پی نے افراسیاب خٹک اور بشریٰ گوہر نام کی دو خواتین و حضرات کو پہلے شوکاز نوٹس (بزبان اردو ) دیا اور پھر ان کو بزبان میاں افتخار پارٹی بدر کر دیا ہے۔ ان دونوں لوگوں کو ہم پہلے جانتے تھے لیکن اب نہیں جانتے کیونکہ جو لوگ ہمیں نہیں جانتے ہم ان کو کیا جانیں ویسے بھی ’’ جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے‘‘ لیکن ان کے ساتھ جو تیسرا ہے یعنی شوکاز نوٹس‘‘ ۔

تو اس سے ہمیں لینا دینا ضرور ہے اوربہت لینا دینا ہے کیونکہ ایک عرصے سے ہم بھی کسی کے ساتھ ایسا کچھ کرنا چاہتے تھے لیکن سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیسے کریں اوراب جب کہ اے این پی نے’’ راہ سخن ‘‘ وا کردی ہے توہم بھی سم تھنگ سم تھنگ کر ہی ڈالیں تو اچھا  ہے، اب ان دونوں ’’ خواتین و حضرات ‘‘ کا کیا بنے گا کہ یہ تو کالیے بھی نہیں ہیں اچھے خاصے سرخ و سفید ہیں رنگ کی حد تک۔

جہاں تک اے این پی کی بات ہے تو وہ جانے اور ان کی دکان ، چاہے وہ لوگوں کے مشوروں سے اپنی دکان کو بلا بورڈ کے رکھے یا یہ لکھے کہ یہاں پر تازہ مچھلی فروخت ہوتی ہے۔ لطیفہ پرانا ہے لیکن نو واردوں کے لیے نیا ہے ۔ خاص طور پر اے این پی والوں کے لیے کہ صرف لطیفے چھوڑتے ہیں سنتے یا پڑھتے پڑھاتے نہیں مثلاً اس کے دور حکومت میں جب ان کو نجانے کس نے یاد دلایا تھا کہ شاعروں اور ادیبوں کا بھی کچھ کیا جانا چاہیے توچارسو کے لگ بھگ خدا ماروں کو وزیر اعلیٰ ہاؤس کی سیر کراتے ہوئے ایک ایک سرٹیفکیٹ پکڑاتے ہوئے کہا کہ اس سرٹیفکیٹ کو معمولی مت جانو اس پر باچا خان کی تصویر ہے، اس پر ہمارے قریب بیٹھے ہوئے ایک خدا مارے نے چپکے سے کہا کہ باچا خان کی تصویر تو ہمارے دل پر لگی ہوئی ہے کچھ قائد اعظم کی تصویر کا ہو جاتا تو ؟ دوسرے ساتھی نے کہا کہ چنگر بلیوں سے گوشت کبھی فالتو نہیں ہوتا ۔

ہاں وہ پرانا لیکن نئے معنوی والا لطیفہ کہ ایک شخص نے مچھلیوں کی دکان کھولی اور اس پر بڑا سا بورڈ لگا دیا کہ یہاں تازہ مچھلی فروخت کی جاتی ہے۔ ایک دوست نے کہا کہ ’’ تازہ ‘‘ کا لفظ کھٹکتا ہے اور پڑھنے والے کا ذہن ’’ باسی مچھلی ‘‘ کے امکانات پر بھی جا سکتا ہے چنانچہ اس نے ’’تازہ ‘‘ کا لفظ مٹا دیا۔ دوسرے دوست نے کہا کہ ’’یہاں‘‘ کا لفظ بھی فالتو ہے جب دکان ’’ یہاں ‘‘ ہے تومچھلی کہیں اور تونہیں فروخت کرے گی ۔

’’ یہاں ‘‘ کا لفظ بھی مٹ گیا۔ تیسرے دوست نے کہا کہ ’’ فروخت کی جاتی ہے ‘‘ کے الفاظ زائد ہیں جب دکان ہے تو دکان میں مچھلی مفت تو نہیں بانٹی جائے گی اس نے یہ الفاظ بھی خذف کردیے۔ باقی صرف ’’ مچھلی ‘‘ رہ گئی اس پر بھی ایک دوست نے اعتراض کیا کہ مچھلی کی بو خود مچھلی کا پتہ دیتی ہے اور جب مچھلیاں سامنے پڑی ہیں تومچھلی لکھنے کا مطلب ہی ختم ہو جاتا ہے صرف خالی بورڈ ہی رہ گیا۔

لیکن اے این پی کی دکان بالکل ہی بغیر بورڈ کے نہیں ہوگی نہ ہی بورڈ خالی ہوگا ۔ ٹھیک ہے فالتو الفاظ کو ایک ایک کرکے نکال دیا جائے گا اوراب تک بہت سارے فالتو الفاظ نکالے بھی جاچکے ہیں لیکن بورڈ پھر بھی خالی نہیں ہوگا کیونکہ تین مچھلیوں کی تو بورڈ پر پکی پکی تصویریں بنی ہوئی ہیں جو اصلی جدی پشتی اورخاندانی مچھلیاں ہیں ۔

ہاں وہ اصلی بات کہ اس شوکازنوٹس اورپھر ’’ تھڑی پار ‘‘ نے ہمیں بھی ایک اچھی’’ راہ ‘‘ سمجھا دی ہے جو ایک عرصے سے ہمارے دل میں تھی لیکن اب شوکاز نوٹس کی صورت اختیار کرلے گی بلکہ کر چکی ہے کہ آگے وہی شوکاز نوٹس ہے جوہم اے این پی کو دے رہے ہیں ۔

بے شک کوئی وکیل یہ سوال اٹھا سکتا ہے کہ شوکاز نوٹس دینے کی ہماری حیثیت ہے یا نہیں یا ہم کون ہوتے ہیں شوکاز نوٹس دینے کے لیے، یا ہم شوکاز نوٹس کے مجاز کس بنیاد پر ہیں ۔

توپہلے یہ بات ثابت کیے دیتے ہیں جناب اسفند یار اورہم دونوں اس پارٹی اس تحریک یا اس کھیت کی تیسری پشت میں ہیں۔ ہمارے دادا کو انگریز سرکار کی طرف سے ایک ہزارجرمانہ بھرنا پڑا، اس قرضے کی ادائیگی کے لیے انھیں پچیس جریب زمین بیچنا پڑی جو اس وقت چالیس روپے فی جریب تھی اورآج کل بیس لاکھ روپے جریب ہے ۔والد کو جیلوں میں مارنے پیٹنے اوربرف کی سلوں پر لٹانے کی وجہ سے نمونیاہو گیا تھا، نمونیا سے توبچ گئے لیکن بیس سال کی عمر میں دمہ لاحق ہوگیا جس نے انھیں 45سال کی عمر میں مار دیا۔

خیر اس سے محض شوکاز نوٹس کے لیے خود کو کوالی فائی کرنا تھا کہ جس کو ہم نوٹس دینا چاہتے ہیں اس کی اورہماری ’’ قانونی ‘‘ اخلاقی تاریخی اورخاندانی حیثیت ایک جیسی ہے۔ وہ قبضے اوردعوے والی بات کو اگر درمیان سے نکال دیا جائے توہماری اوران کی حیثیت ایک سی ہوجاتی ہے بلکہ ہماری کچھ بڑھ جاتی ہے کہ اس نے پایا ہی پایا ہے اور ہم نے صرف کھویا ہی کھویا ہے تو صرف خسارہ ہی خسارہ ۔ بشرطیکہ پارٹی یا نظریے یا تحریک کو خاندانی ملکیت نہ سمجھا جائے ۔

گویا ہر لحاظ سے ہمیں شوکاز نوٹس دینے کا حق حاصل ہے اور وہ ہم دے رہے ہیں ۔ لیکن ہم اتنے کٹھور اتنے ڈھیٹ اور اتنے پتھر چشم بھی نہیں ہیں کہ رشتے ناتوں کا پاس نہ کریں۔ طول طویل حسابات اور ’’ کھایاپیا ‘‘ بالکل بھی شمار نہیں کریں گے ۔ جوہوا سوہوا، اگر کسی نے کھایا پیا تو ماں کا دودھ، کسی نے کچھ چکھا تک نہیں وہ بھی اپنا اپنا نصیب لیکن اتنا پوچھنے کا حق تو ہم رکھتے ہیں کہ ’’ تونے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے‘‘ ؟

جناب ولی خان نے اپنی زندگی میں اجمل خٹک کو صدر بنا کر پارٹی کو موروثیت سے بچانے کی کوشش کی تھی لیکن پھر نہ جانے کیا ہوا کیسے ہوا کیوں ہوا اورکس نے کیا کہ وہی بے ڈھنگی بے ڈھنگی چال شروع ہوگئی ۔ جو اس ملک میں سب اختیار کیے ہوئے ہیں لیکن اے این پی تو پارٹی نہیں تھی ایک تحریک تھی ایک نظریہ تھا ایک منزل تھی ایک مرام تھی اس کے بانی مبانی بھی ’’ سیاسی لیڈر ‘‘ نہ تھے نہ ہی اس کی منزل مقصود پارلیمانی سیاست ، وزارتیں اورفنڈ تھے ۔ وہ توجوڑنے کے لیے اٹھی تھی توڑنے کے لیے نہیں ۔

وہ تحریک جس میں ہرپانچ پشتونوں میں چار پشتون شامل تھے،کہاں گئی اوراگر گئی توکیوں گئی ہے بات پھر آئے گی تو موروثیت اورنااہلی پر آئے گی ۔ اگر یہ کوئی ذاتی جائیداد ہوتی اورکوئی اسے تہس نہس کرتا یا بیج ڈالتا یا کھاپی کر برابر کرتا تواس سے کوئی غرض نہیں تھی لیکن یہاں توایک وسیع وعریض قومی دولت قومی ملکیت اور شریک ’’دولت ‘‘ توکسی فرد یاکچھ افراد کا نہیں بلکہ ایک پوری تحریک پورے نظریے اورپورے کاروان کا قتل ہوا ہے ۔

کس نے قتل کیا کب اورکیسے قتل کیا گولی ماری خنجر جونکا لاٹھی سے مارا یا اینٹ پتھر سے ۔ ہمیں اس سے کچھ لینا دینا نہیں وہ پشتو کہاوت کہ میرے محبوب کو مار دیا کسی بھی ’’ چیز ‘‘ سے مارا ہو مارا تو گیا ۔ اور ایسے حالات میں ساری ذمے داری صرف اور صرف چوکیدار پر آتی ہے ۔ توکیا چوکیدار یہ بتانا پسند کریں گے کہ کیسے ہوا کب ہوا تم کہاں تھے جب ہوا اور یہ اتنا بڑا غضب ہوا ۔ حضرت یوسف ؑ جب کھو گئے تو حضرت یعقوب نے روتے ہوئے کہا تمہیں کس تلوار سے مارا گیا کس کنوئیں میں ڈالا گیا ہے اورکس بحر میں ڈبویا گیا ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔