نفرتوں کوفروغ مت دیجیے

رئیس فاطمہ  ہفتہ 18 اگست 2012
رئیس فاطمہ

رئیس فاطمہ

عید کا تہوار دوسرے تمام دنوں سے کیوں مختلف ہے؟ کیا صرف اس لیے کہ یہ سال میں ایک بار آتا ہے اور اس دن سویّاں پکا کر کھائی جاتی ہیں؟ نئے کپڑے پہنے جاتے ہیں؟ اور سیر و تفریح کی جاتی ہے؟ ہاں شاید آج کی نوجوان نسل کے لیے تو عید ان ہی چیزوں سے عبارت ہے لیکن میری نسل کے ان لوگوں کو جو ایک حسّاس اور محبت بھرا دل رکھتے ہیں، یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے کہ عید کا اصل عنصر کہیں غائب ہوگیا ہے یا اسے نفرتوں کے پروردہ لوگوں نے اپنے اپنے ذاتی مفاد اور گھریلو اقتدار کے لیے دفن کردیا ہے۔ آج لوگ عید نفرتوں کو دل میں لیے اور بظاہر گلے مل کر مناتے ہیں کہ آج کا دور نفرتوں کو فروغ دینے والوں کا ہے۔ یہ وہ ظالم لوگ ہیں جو اپنی ذاتی چوہدراہٹ کے لیے بھائی کو بھائی سے جدا کردیتے ہیں۔

میری نسل کے لوگ آج کی عید کا رنگ دیکھ کر بہت افسردہ ہوتے ہیں کہ ہمارے بچپن کی عیدیں تو بہت مختلف ہوتی تھیں۔ خاندانوں کے بیچ اگر ناراضگی یا رنجش ہوتی تھی تو وہ اس کو دور کرنے کے لیے اس تہوار کا انتظار کرتے تھے۔ چھوٹے بڑوں کے گھر عید کی نماز کے فوراً بعد مٹھائی اور خستہ کچوریاں لے کر سلام کو جاتے تھے اور اپنے بڑوں کوجھک کر سلام کرنے کے ساتھ ہی ان کے گلے سے لگ جاتے تھے۔ لو بھئی ، رنجشیں، شکایات، سب دور… کہ جو عید پر اپنے بڑوں کے گلے لگ گیا، اس کی ساری خطائیں معاف۔ ہماری تہذیب، روایات اور پرورش یہی بتاتی ہے کہ نفرتیں رشتوں کو جلا کر بھسم کردیتی ہیں۔

قصور اگر بڑوں کا ہوتا تھا تو بڑے بھی اپنا دل بڑا کرکے چھوٹوں کے گھر پہنچ کر انھیں خود گلے لگالیتے تھے۔ لو بھئی برسوں کی دشمنی اور رنجشیں پل بھر میں ختم! کیونکہ بڑوں نے گھر آکر اپنی غلطی تسلیم کرلی، زبان سے ایک لفظ بھی کہنے کی ضرورت نہیں پڑی کہ محبتوں کی ایک اپنی زبان بھی ہوتی ہے، بالکل اسی طرح جیسے نفرتیں بنا کچھ کہے اپنا وار کرتی ہیں، اولاد کو ماں باپ سے اور بھائی کو بھائی سے جدا کرکے شادیانے بجاتی ہیں… لیکن کیا پہلے بھی ایسا ہی تھا؟

آج ہر خاندان نفرتوں کے کانٹوں میں الجھا ہوا ہے۔ رنجشیں اور گلے شکوے تو ہمیشہ سے لوگوں کے درمیان رہے ہیں، لیکن پہلے خاندان کے بڑے ان نفرتوں کو پروان نہیں چڑھنے دیتے تھے۔ میرے والد اور والدہ ہمیشہ اس کوشش میں رہتے تھے کہ دو خاندانوں کے درمیان تعلقات خراب نہ ہوں۔ عید کے موقعے پر وہ ہمیشہ ایسے دونوں خاندانوں کی صلح کروادیتے تھے جن میں کسی وجہ سے ان بن ہوتی تھی۔ وہ رمضان میں خاموشی سے دونوں خاندانوں کو افطار پر بلالیتے تھے اور افطار کے بعد دونوں خاندانوں کی شکایت سامنے بٹھا کے سنتے تھے، معاملات نمٹاتے تھے اور دونوں کو گلے ملوادیتے تھے اور پھر یہی دونوں خاندان مل کر ہمارے گھر آتے تھے۔ میری والدہ ہمیشہ کہتی تھیں کہ جس کسی نے بھی اپنی جلن اور حسد سے مجبور ہو کر والدین کو اس کی اولاد سے جدا کیا، بیٹوں کو اپنے ہی ماں باپ کے خلاف اکسایا، بھائیوں کو آپس میں لڑایا، اسے وہ انسان نہیں سمجھتی۔

خاندانی جھگڑوں کی ذمے دار 99 فیصد خواتین ہی ہوتی ہیں۔ لیکن مرد نہ چاہتے ہوئے بھی ان میں ملوث ہوجاتے ہیں، بلکہ انھیں کردیا جاتا ہے، اس طرح مزید الجھنیں بڑھتی ہیں، مکالمہ ہوتا نہیں کہ آمنے سامنے بیٹھ کر شکایات کا ازالہ کیا جاسکے۔ وہی بات کہ:

دلوں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے

مرد حضرات کوبھی چاہیے کہ اگر بیگم مسلسل ان کے کسی عزیز، رشتے دار، بھائی، ماں یا باپ کے خلاف زہر اگل رہی ہے تو بجائے بیگم کی خوشنودی کے لیے تعلقات ختم کرکے منفی پروپیگنڈا پھیلانے سے بہتر ہے کہ کھلے دل سے نفرتوں کو ایک طرف رکھ کر حقائق جاننے کی کوشش کی جائے اور گلے شکوے دور کرلیے جائیں۔ گھر میں بیٹھ کر شوہر کی کمائی پر عیش کرنے والی خواتین نہیں جان سکتیں کہ ملازمت میں مرد کو کتنا دبائو سہنا پڑتا ہے۔ وہ تو بس اس انتظار میں دن گزارتی ہیں کہ کب تھکا ہارا شوہر گھر آئے اور کب وہ اسے اس کے والدین کے خلاف بھڑکائیں ۔ اس رویے سے بیشتر خواتین اپنے شوہر کو ایک ایسی کرب انگیز صورتِ حال میں مبتلا کردیتی ہیں جس کے نتائج بہت خطرناک نکل سکتے ہیں۔

وہ یہ نہیں سوچتیں کہ جن مردوں کو یہ دہرا عذاب سہنا پڑتا ہے کہ ایک طرف دفتری کاموں کا دبائو، دوسری جانب بیوی کا رویہ، گھریلو کام، بچّوں کی ذمے داری اور دیگر ذمے داریاں۔ ایسی صورت حال انسان کو بہت بڑے ذہنی اور جسمانی مسائل میں مبتلا کردیتی ہے کہ نفرتوں کی آبیاری ہمیشہ نقصان دہ ہوتی ہے، خواہ وہ خاندانوں کے درمیان ہو یا دو ملکوں کے درمیان۔ کچھ لوگوں کا فائدہ محض نفرتوں، حسد اور رنجشوں کے کاروبار کو فروغ دینے سے ہے۔ بالکل اس طرح جیسے بھارت اور پاکستان کے عوام ایک دوسرے سے ملنا چاہتے ہیں لیکن دونوں ملکوں میں ایسے شرپسند لوگ اور بدفطرت قوتیں موجود ہیں جن کا حلوہ مانڈہ، فائدہ اور اقتدار دونوں ملکوں کی آپسی دشمنی میں پوشیدہ ہے۔ اسی لیے وہ اپنے اپنے طور پر دونوں ملکوں کی حکومتوں کو یقین دلاتے ہیں کہ ان کی بقا دشمنی میں ہے نہ کہ دوستی، امن اور محبت کے ساتھ تعلقات استوار کرکے سکون سے رہنے میں۔

یہ معاشرہ کیا ہے؟ سوسائٹی کسے کہتے ہیں؟ یہ انسانوں کے اجتماعی گروہ کا نام ہے لیکن سوسائٹی سے پہلے خاندان وجود میں آتے ہیں اور اجتماعی خاندانوں سے معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ اس لیے اگر کسی خاندان میں رنجشیں ہیں، حسد اور بغض ایک دوسرے کے لیے بھرا ہے تو یہی زہر پورے معاشرے میں پھیل کر اسے زہر آلود کردیتا ہے۔ آج اسی نفرت، بغض اور کینہ پروری کا بازار گرم ہے، کیونکہ اس کاروبار کے بیوپاریوں نے حضورؐ کی تعلیمات کو بھلا دیا ہے۔ نماز، روزہ، مصلیٰ، سب ذاتی فعل ہیں، لیکن حقوق العباد کی اہمیت اﷲ اور اس کے رسولؐ کی نظر میں سب سے زیادہ ہے۔

حضورؐ نے فرمایا کہ ’’جب دو بھائی مصافحہ کرتے ہیں تو ستّر رحمتیں تقسیم کی جاتی ہیں، انہتّر رحمتیں اس کو ملتی ہیں جو ان دونوں میں زیادہ خندہ رو اور کشادہ پیشانی ہوتا ہے، اور ایک رحمت دوسرے کو۔‘‘… ’’رنجش کی حالت میں وہ بہتر ہے، جو صلح میں سبقت کرے‘‘… ’’خدا کے نزدیک سب سے زیادہ کینہ اس شخص کے دل میں ہے جو بہت جھگڑے اور بکھیڑے کھڑا کرتا ہے‘‘ … گویا فتنہ کی جڑ نفرت و عداوت ہے۔ اسی لیے بعض صلح جو لوگ فساد سے بچنے کے لیے اپنی زبان بند کرکے اپنے گھر تک محدود ہوجاتے ہیں۔ کسی سے کسی کے رویے کی شکایت نہیں کرتے، لیکن ان کا یہ مثبت رویہ بھی بعض لوگوں کو پسند نہیں آتا۔ آج بیشتر خاندان اس صورت حال سے گزر رہے ہیں، جس کے نتیجے میں ہائی بلڈپریشر اور شوگر کا مرض عام ہوگیا۔ بظاہر سب ٹھیک ٹھاک ہے لیکن بیماریاں پیچھا نہیں چھوڑتیں کیونکہ نفرتوں اور عداوتوں نے ہی ان خاموش قاتلوں کو جنم دیا ہے۔

ذرا سوچیے ہمارے بزرگ ان بیماریوں کا شکار کیوں نہیں تھے؟ اس لیے کہ وہ لوگ محبتوں پہ یقین رکھتے تھے اور ناراض رشتے داروں کو ایک دوسرے سے ملانا مسلمان اور انسانیت کی پہلی ذمے داری… کیوں نہ آج عید کے موقع پر میں اپنے قارئین سے درخواست کروں کہ اپنے اپنے عزیز رشتے داروں سے گلے شکوے دور کرکے ان کے گلے لگ جائیے کہ میرے خدا اور رسولؐ کا یہی حکم ہے۔ زندگی چند روزہ ہے، یہاں ایسا کچھ کرکے چلیے کہ بعد میں لوگ آپ کو بھی اسی طرح یاد کریں جس طرح میرے والد اور والدہ کو یاد کرتے ہیں۔

ان کی زندگی میں کوئی رشتے دار کبھی زیادہ دن ناراض نہیں رہ سکتا تھا کیونکہ خاندان کا بزرگ ہونے کے ناتے دونوں اپنی اپنی ذمے داری سمجھتے تھے کہ بھائیوں اور رشتے داروں کی رنجشیں دور کروادیں! آج ایسے بزرگ کہاں؟ آج تو خاندان کے بڑے خود نفرتوں کی آبیاری کرتے ہیں! کیوں نہ آج سے ہم سب محبت بانٹیں۔ چھوٹے اگر اپنی غلطی تسلیم کرکے ہمارے گلے لگنا چاہیں تو بڑھ کر خود انھیں گلے لگا لیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔