ہوا کا دروازہ۔۔۔ گوادر۔۔۔ اور اُمید کی شہزادی

عرفان احمد بیگ  اتوار 18 نومبر 2018
گوادر بندرگاہ کے لیے عالمی طاقتوں کی دو صدیوں سے زائد عرصہ پر محیط کشمکش کا دلچسپ احوال۔ فوٹو: فائل

گوادر بندرگاہ کے لیے عالمی طاقتوں کی دو صدیوں سے زائد عرصہ پر محیط کشمکش کا دلچسپ احوال۔ فوٹو: فائل

وسط ستمبر1992 کی صبح کراچی اس اعتبار سے زیادہ خوشگوار نہیں تھا کہ مجھے خلاف معمول اُس روز رات چار بجے تک جاگنا پڑا، بعض لوگ اِسے علی الصبح بھی کہتے ہیں۔

صدر کراچی میں، میں جس ہوٹل میں ٹھہرا تھا اس کے بلمقابل ہی پی آئی اے کا ایک آفس تھا۔ میں نے کمرے کی بالکونی سے نیچے دیکھا تو پی آئی اے کی ایک قدرے نئی ویگن میں نصف درجن ائیر ہوسٹسز اور فلائٹ اسٹیورٹ بیٹھے تھے۔ ویگن بالکل تیار تھی ایک ایئر ہوسٹس مزید آئی اور اس کے بیٹھتے ہی ویگن چل دی، اسی لمحے ہوٹل کے منیجر کا فون آیا کہ ائیر پورٹ جانے کے لیے گاڑی میں سامان لوڈ کروا دیا ہے اور آپ کا انتظار ہے اور تھوڑی دیر بعد ہم ایئر پورٹ پر تھے۔

گوادر جانے کے لیے بورڈنگ کارڈ لیا اور آگے بڑھا۔ فوکر طیارے میں یہ ہمارا پہلا سفر تھا، 44 نشستوں پر مشتمل یہ طیارہ غالبا اُس وقت اپنی طبعی عمر جو کمپنی نے اس کے لیے تیاری کے بعد دی تھی وہ کچھ برس پہلے ہی پوری کر چکا تھا ،اس میں دو ایئر ہو سٹس وہی تھیں جو ہمارے ہوٹل کے سامنے سے ویگن میں سوار ہو ئیں تھیں، ہمارے نشست پہ بیٹھنے کے آدھے گھنٹے بعد جہاز کے دروازے بند ہو گئے اور جہاز دھیرے سے  چلتا،ٹیکسی،کرتا رن وے پر سیدھا ہوااور پھر سارے انجن پوری قوت سے گرجے تو پورے جہاز پر جیسے یک دم لرزا طاری ہوگیا، اس کی حالت بالکل ایسے ہی تھی جیسے ملیریا بخار میں مریض کی ہوتی ہے۔ پھر ایک جھٹکے سے جہاز رن وے پر دوڑکر اڑا اور پھر دائیں بائیں لرزتافضا میں بلند ہوتا چلا گیا۔

کراچی شہر کی بلند و بالا عمارتوں پر دس منٹ پرواز کرنے کے بعد جہاز پاکستان کے ایک ہزار کلو میٹر طویل ساحل پر بالکل ساحل یعنی سمندر کی لہروں اور ریتلے کناروں پر پرواز کر رہا تھا۔ ساتھ بیٹھے ہو ئے مسافر سے بات چیت شروع ہوئی تو پتا چلا کہ یہ جہاز جسے ہم عام طیاروں سے کمتر سمجھ رہے تھے درحقیقت انٹرنیشنل پرواز پر ہے اور یہ گوادر میں کچھ دیر رکنے کے بعد سلطنت عمان ’’مسقط ‘‘ جائے گا۔ نیچے بحیرہِ عرب کا نیلا پانی اور اس کے پہلو میں ہمارا سنہرا ریتلا ساحل چل رہا تھا جس پر ایک دو مقامات پر منگروز کے درختوں پر مشتمل زمرد کی طرح چمکتے سبز دھبے سے نظر آئے، کوئی ایک گھنٹے بعد ایئر ہوسٹس کی آواز گونجی کہ گوادر کے ایئر پورٹ پر زیادہ دھند ہے۔

اس لیے جہاز کچھ دیر بعد پسنی ا یئر پورٹ پر لینڈ کر ے گا اور دھند کے کم ہونے پر ہم گوادر جائیں گے اور پھر جلد ہی جہاز نیچی پرواز کرتے ہو ئے رن وے پر اترا۔ میری حیرت زدہ نظروں کو دیکھتے ہو ئے ساتھ بیٹھے ہو ئے مسافر نے بتایا کہ پہلے گوادر کا رن وے بھی کچا تھا اور جب بارش ہوتی تو پروازیں بند ہو جاتی تھیں اب گوادر، تربت وغیر ہ کے ایئر پورٹ پختہ کر دیئے گئے ہیں ۔کوئی بیس منٹ بعد پی آئی اے کے طیارے نے پھر پرواز بھری اور ہم گوادر کے ننھے منے ائیر پورٹ پر اتر گئے۔

اس کے بعد 1995ء تک گوادر،کراچی،کو ئٹہ یا پھر کوئٹہ، تربت،گوادر سفر کرنے کا اتفاق ہوتا رہا اس دوران ایک بار براستہ سڑک کراچی اور پھر ایک دفعہ گوادر، تربت ،کو ئٹہ بھی گئے پھر سمندر میں بھی ایک دو روز تک رہنے کااتفاق ہوا ۔ 1995ء میں میرا تبادلہ بطور اسسٹنٹ پروفیسر گورنمنٹ سائنس کالج کوئٹہ ہو گیا۔ ان ساڑھے تین برسوں میں ، میں نے ڈسٹر کٹ گوادر اور یہاں کے لوگوں کے درمیان رہ کر دیکھا، ہمارے ہاں خصوصاً مکران میں اساتذہ کا بہت احترام ہے۔

گوادرکو ضلع کا درجہ یکم جولائی 1977 کو ملا، اس کی چار تحصیلیں گوادر،جیوانی اورماڑا اور پسنی ہیں جن کی 13 یونین کو نسلیں ہیں۔ بلوچستان کے پاس ہمارے ملک کے کل ایک ہزار کلو میٹر ساحل میں سے 770 کلو میٹر سے زیادہ ساحل ہے، جس میں سے 170 کلو میٹر بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کے پاس ہے اور باقی 600 کلومیٹر ساحل ضلع گوادر کے پاس ہے۔

گوادر کا شہر اور بندر گاہ ’’ڈیپ سی پورٹ ‘‘ بحیرہ عرب پر خلیج فارس اور اومان کے نزدیک واقع ہے۔ اس کے مشرق میں ضلع لسبیلہ اور کراچی، مغرب میں ایران ہے، شمال میں آواران، تر بت ہیں، جنوب میں سمندر ہے، گوادر شہرکے تین اطراف میں سمندر ہے، یہ ایک ہتھوڑے کی طرح ہے جس پر دستے سے آگے ہتھوڑے کا حصہ کوہ باتیل نامی پہاڑ ہے، یہ پہاڑ یا پہاڑی پانچ یا سات سو فٹ بلند ہے اور اُ وپر کی سطح میدان کی طرح با لکل ہموار ہے، یہ تقریباً ایک کلومیٹر چوڑی اور تقریباً تین کلومیٹر لمبی ہے اور یہاں ہی ملک کی سب سے خوبصورت سنگہار ہاو سنگ اسکیم ہے جو1990 میں شروع کی گئی تھی۔

1998 کی مردم شماری کے مطابق ضلع گوادر کی کل آبادی 185498 تھی جو 2017 کی مردم شماری کے مطابق 263514 ہو گئی جس زمانے میں، میں یہاں تعینات تھا تو گوادر شہر کی آبادی ریکارڈ کے مطابق تو چالیس ہزار کے قریب تھی لیکن زیادہ تر مقامی لوگ مسقط ’’اومان‘‘ اور دبئی میں رہتے تھے اور کو ئی بیس ہزار افراد ہی شہر گوادر میں مستقل رہتے تھے، اب سنا ہے کہ اس شہر کی آبادی 80 ہزار سے کچھ زیادہ ہو چکی ہے،ڈسٹرکٹ میں آج بھی مقامی افراد کا سب سے بڑا روز گار ماہی گیری ہے، یہاں پچاس ہزار سے زیادہ افراد ماہی گیری کے شعبے سے وابستہ ہیں جن کے پاس سات ہزار کے قریب کشتیاں ، لانچیں ہیں، یہاں ہوت،گچکی،کودا، میرز،کلمتی، دشتی اور رند بلوچ قبائل ہیں۔

گوادر بحیرہ عرب پر اہم اسٹرٹیجک پوزیشن پر واقع ہے۔ اس کے بالکل نزدیک ایرانی بلوچستان کی بندر گاہ چابہار واقع ہے، یہ بندر گاہ ویسے تو 1983 میں کھولی گئی مگر یہاں گذشتہ سات آٹھ سال سے بھارت نے گیارہ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے اس پورٹ کو افغانستان،بھارت اور ایران کی تجارت کے لیے گوادر کے مقابلے میں تعمیر کیا ہے اور مزید کام جاری ہے۔

گوادر ڈیپ سی پورٹ کے مقابلے میں ان کی کوشش بھی یہی ہے کہ پھر اسی روٹ سے آگے ایران سے ترکی، آذربائیجان اور افغانستان سے ترکمانستان، تاجکستان ،ازبکستان اور اس سے آگے روس پہنچا جائے، مگر یہ گوادر ڈیپ پورٹ کے مقابلے میں سب کے لیے کہیں زیادہ مہنگا سودا ہے، تجارتی، اقتصا دی اور مالیاتی اعتبار سے بھی اور دفاعی لحاظ سے بھی۔گوادر دنیا کی اُن چند بندرگاہو ں میں سے ہے جو قدرتی طور پر بہت گہری ہیں اور یہاں سمندر کے کنارے بندر گاہ کی برتھوں کے قریب تہہ سے با ر بار ریت ہٹا نے کی ضرورت نہیں پڑتی گوادر کی بندر گاہ پر ساحل کے ساتھ ہی چٹانی تہہ کے ساتھ سمندر بہت گہرا ہے۔

یوں یہاں بڑے سے بڑا بحری جہاز سمندر کے کنارے برتھوں ’’یعنی ٹرین کے پلیٹ فارم جیسی جگہ ‘‘ پر بہت سہولت سے کھڑا ہوتا ہے جہاں بڑی بڑی کرینیں نصب ہیں جو بڑے بڑے کنٹینروں کو اٹھا کر جہازوں میں رکھتی اور اتارتی ہیں۔ جب کہ اس کے مقابلے میں گوادر کے قریب ایرانی بلو چستان کے ساحل پر قائم چابہار نامی بندر گاہ گوادر کی طرح قدرتی اور ڈیپ سی پورٹ نہیں ہے، یوں یہاں جہاز و ں پر سامان چڑھانے اور اتارنے کے لیے مشکلات ہیں اور کہیں زیادہ اخراجات ہیں۔ چابہار کی بندر گاہ پر ساحل یعنی سمندر کے کنارے پر بڑے جہاز نہیں آسکتے کہ سمندر یہاں گہرا نہیں ہے اس لیے یہاں سے کشتیاںاور چھوٹے جہاز دور گہرے سمندر میں ٹھہرے ہو ئے بڑے بحری جہازوں سے سامان اتارتے اور چڑھاتے ہیں اور ساحل پر لاتے اور لے جاتے ہیں۔

پھر یہاں سے افغانستان اندرون ایران اور سنٹرل ایشیا کے ممالک تک فاصلہ پاکستان اٖفغانستان ، ایران کے راستے کے مقابلے میں طویل ہے اور جہاں تک تعلق بھارت کا ہے تو خشکی سے بھارت کی سرحدیںایرا ن، افغانستان یا سنٹرل ایشیا سے نہیں ملتیں اور بحرہند میں اسے یہاں آنے کے لیے ممبئی سے بحیرہ عرب سے ہی آنا ہوتا ہے جو پھر ایک طویل مرحلہ ہے مگر بھارت،ایران،افغانستان اسٹرٹیجک اعتبار سے چابہار کو اہمیت دیتے ہیں لیکن اسٹرٹیجک لحاظ سے بھی گوادر چابہار کے مقابلے میں کہیں زیادہ بہتر محل وقوع رکھتا ہے چونکہ ایران بھارت بھی افغانستان میں اہم کردار ادا کرنے اور یہاں اپنے مفادات کا تحفظ چاہتے ہیں اس لیے ایران میںجہاں شروع ہی سے شاہراہیں معیاری ہیں وہاں چابہار سے تہران شاہراہ بہتر ہے ۔

گوادر کے سامنے چند سوکلومیٹر یعنی چند گھنٹوں کی بحری مسافت اور صرف 45 منٹ کی فضائی مسافت کے بعد سلطنتِ اومان ’’مسقط‘‘ ہے اس کے ساحل کے سمندر کو خلیجِ اومان کہتے ہیں جو شروع ہی سے بہت اہمیت کا حامل ہے اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگا یا جا سکتا ہے کہ جب 1492 میں اسپین سے کولمبس ہندوستان کا نیا بحری راستہ تلاش کرتے ہوئے امریکہ دریافت کر بیٹھا تو اسی زمانے میں پرتگال کا واسکو ڈی گاما راس امیدا کا چکر لگاتا ہوا ہندوستان پہنچا تو اس کے لیے مسقط اور گوادر اہم تھا۔ سلطنت اومان پر پرتگیزوں کا قبضہ 1507 سے 1650 تک یعنی 143سال تک رہا۔

اس دوران گوادر کے ساحل سے اسماعیل بلوچ اور بعد میں میر حمل ہوت اور کلمتی نامی بلوچ سردار کی جانب سے پرتگیزوں کے خلاف جنگ کی گئی۔ بلو چستان کے دانشور محقق پروفیسر عزیز بگٹی اپنی کتاب ’’ بلوچستان شخصیات کے آئینہ میں‘‘ لکھتے ہیں کہ میر حمل بلوچ ہوت قبیلے کا نوجوان سردار تھا جس نے ایک چھوٹا سا بحری بیڑا بنا کر پسنی، جیوانی اور گوادر کی بندر گاہوں کے قریب سولہویں صدی کے آغاز میں پرتگیزوں کے خلاف دفاعی جنگ لڑی۔ برصغیر میں ملک کے لیے دشمن سے سمندر میں لڑنے والی غالباً یہ واحد شخصیت تھی ۔

انگریزوں نے گزیٹیرر میں بھی ا س کا ذکر ایک پرتگالی مورخ Manuel de Faria Y Souza کے حوالے کے ساتھ کیا ہے، کتنی عجیب بات ہے کہ ٹیپو سلطان، نواب سراج الدولہ کی شخصیات کے بارے میں تو ہمارے نصا ب میں بہت کچھ شامل ہے مگر اس شہید کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں جس نے سمندر میں بحری بیڑا بنا کر باقاعدہ ایک مضبوط پرتگیزی بحریہ کا مقابلہ کیا۔ سمندر میں 1552 میں ترک خلافت کی فوجوں نے اومان کو پرتگیز وں سے آزاد کروایا۔

1737ء تک ترکوں کا قبضہ رہا اس کے بعد ایران کا اثر رہا مگر یہاں مقامی طور پر اومانی حکمران اب بااختیار تھے۔ 1783ء میں جب تاریخ کے اہم دور میں بلوچستان آزاد اور خودمختار تھا اور نصرالدین نوری یہاں کا حکمران تھا جس نے احمد شاہ ابدالی کے ہمراہ اپنے لشکر کے ساتھ ہندوستان پر حملہ کیا تھا اس کے اُس زمانے میں سلطنت اومان کے سا تھ اچھے تعلقات تھے۔ اُ س زمانے میں 1783 میں گوادر کا علاقے اومان کے حکمران سلطان تیمور کے پاس گیا اور گوادر میں اومانی گورنر کی تعیناتی شروع ہوئی۔

مسقط سلطنت اومان گوادراور دیگر علاقوںعرب امارات پر انیسو یں صدی سے انگریزوں کا غلبہ رہا۔ فرانس اٹھارویں صدی کے بالکل آخر میں نپولین کی کمانڈ میں ایک بڑی قوت بن کر ابھرا اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ نپولین جلد ساری دنیا کو فتح کر لے گا۔ 1799 میں مصر میں خشکی پر لڑائی میں نپولین نے بحیثیت کمانڈر انگریزوں کو شکست دی مگر برطانیہ کی زبردست بحریہ نے اسے سمند ری جنگ میں شکست دی، یہاں یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ اسی زمانے سے روس گوادر کے ساحل پر گرم پانیوں تک پہنچنا چاہتا تھا کیونکہ دنیا میں رقبے کے لحاظ سے اس سب سے بڑے ملک کے پاس سارا سال موجیں مارتا سمندر نہیں۔ یوں 1801 میں روس کے بادشاہ زار پال نے نپولین کو پیغام دیا کہ وہ ہندوستان پر حملہ کرے تو وہ یہاں سے یعنی سنٹرل ایشیا افغانستان بلوچستان سے ہوتا ہوا آگے بڑھے گا اور یوں ہندوستان کے علاقوں سے انگریز کے قبضے کا خاتمہ ہو جائے گا۔

اس کا اشارہ یہی تھا کہ وہ یہاں گوادر کے ساحل میں دلچسپی رکھتا ہے۔ پھر1807 میں نپولین کی زار سے ملاقات ہوئی اور ان کے درمیان ٹلسٹ کے معاہدے کے تحت دوستی کا پیمان بھی ہوا، مگر تاریخ میں قدرت کے فیصلے عجیب ہو تے ہیں، یہی نپولین جون 1812 میں روس پر حملہ آور ہوا، ستمبر میں نپولین نے ماسکو پر قبضہ کر لیا لیکن روسیوں نے شہر کو آگ لگا دی اور اپنے وسیع  ترین رقبے کے ملک میں پیچھے ہٹ گئے۔ اس جنگ کو روسی Patriotic War یعنی جنگِ حب الوطنی کہتے ہیں اور روسی فوج کی بجائے بھوک اور سردی سے فرانسیسی فوج شکست کھا گئی۔ نپولین کی 380000 فوج میں سے صرف 22 ہزارفوجی زندہ بچ سکے۔

ایران ’’چابہار‘‘ کے بعد جنوب مغرب میں خلیج فارس میں سامنے عرب امارات ہیں اور یہاں یہ سمندری آبی گزرگاہ بہت تنگ ہوتی ہے، یہ آبنائے ہرمز اور انگریزی میں ہرمز واٹر وے کہلاتی ہے۔ ایران اور عرب امارات کے درمیان گوادر کے قریب واقع اس آبی گذرگاہ میں اگر دو بحری آئل ٹینکر ڈبو دیئے جائیں تو مشرق وسطیٰ ، افریقہ سے فار ایسٹ تک تمام ممالک کے تیل کی سپلائی بند ہو جائے، جہاں ایران اور بھارت نے گوادر ڈیپ سی پورٹ کو اپنے مفادات کے زیادہ حق میں نہیں سمجھا بلکہ بھارت نے تو اس کا اعلانیہ اظہار بھی کیا اسی اعتبار سے یہ بھی کہا جاتا رہا کہ گوادر سے اقتصادی تجارتی لحاظ سے دوبئی ابوظہبی بھی خطرہ محسوس کرتے ہیں اس لیے عرب امارات بھی شائد خوش نہیں کہ گوادر کی بندر گاہ فعال ہو، اس حوالے سے بہرحال کو ئی ثبوت نہیں ہے۔ مگر اب علاقے میں صورتحال بدل رہی ہے لیکن عرب امارات خصوصی اہمیت کی حامل ہیں۔ 1971-72 تک عرب امارات کے معاملات کو برطانیہ دیکھا کرتا تھا پھر یہ خود مختاراورآزاد ہوگئیں۔

ابوظہبی جس کی آبادی 1678000 ہے، رقبہ 6734 مربع کلو میٹر ہے، یہ 2 دسمبر 1971 کو عرب امارات میں شامل ہوا، عجمان کی آبادی 258000 رقبہ 259 مربع کلو میٹر، دوبئی کی آبادی 252715 رقبہ 3885 مربع کلو میٹر، الفجیر کی آبادی 127000 رقبہ 1165مربع کلومیٹر، شارجہ کی آبادی 678000 رقبہ 2590 مربع کلومیٹر، اُم القوان آبادی 68000 رقبہ 777  مربع کلومیٹر جب کہ راس الخیمہ کی آبادی 205000 اور رقبہ 1684 مربع کلومیٹر ہے، یہ ریاست عرب امارات میں 10 فروری 1972 میں شامل ہو ئی۔ عرب امارات کے پہلے صدر شیخ زید سلطان بن النہیان ہوئے۔ یہ وہ دور ہے جب دسمبر1971 میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش میں تبدیل ہوگیا اور بھٹو پہلے صدر اور پھر وزیر اعظم ہو گئے تھے،اُس وقت مڈل ایسٹ میں لبنان کا بیروت جو پہلے یہاں کا پیرس کہلاتا تھا اس کی روشنیاں 1967 کی عرب اسرئیل جنگ اور پھر اس کے بعد 1973 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد بالکل ماند پڑگئیں۔ 1974ء لاہور میں ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس نے اُس وقت اہم اقدامات کئے۔

تیل کی قیمتوں میں اضافے سے عرب جہاں اسرائیل کے حمایتی ممالک خصوصاً امریکہ مغربی یورپ پر دباؤ پڑا تو ساتھ ہی عرب ملکوں اور نوآزاد عرب امارات کی آمدنیوں میں بھی بہت اضافہ ہوا اور اُس وقت خصوصا دوبئی، ابوظہبی اور دیگر ریا ستوں میںتیز رفتار تعمیر و ترقی ہوئی اور اس میں بھی پاکستا ن کا اہم کردار تھا پھر جہاں تک تعلق سلطنت اومان کا ہے تو 1920 میں برطانیہ اور سلطنت اومان کے درمیان معاہدہ Treaty of Seed طے ہوا جس میں سلطان کی اومان کے اندرونی معاملا ت میں خود مختاری کو تسلیم کرلیا گیا اور یہ صورتحال 1970 تک جاری رہی اور پھر بیرونی معاملات میں بھی سلطنت کو خودمختاری مل گئی۔

اسی سال سلطان کے خلاف مسلح بغاوت ہوئی جس کے بعد سلطان کے بیٹے اور ولی عہد سلطان قابوس اقتدار کے مالک ہوگئے، سلطنت اومان کی مالی حیثیت 1964 تک خستہ تھی اس کے بعد یہاں بہت سے مقامات سے اعلیٰ معیار کے تیل کے وسیع ذخائر دریافت ہو ئے، لیکن اس سے چھ سال قبل 8 ستمبر 1958 میں پاکستان کے وزیر اعظم فیروز خان نون اور صدر اسکندر مرزا کے  اقتدار کے آخری دنوں میں سلطنت اومان سے گوادر کا علاقہ 3.3  ملین ڈالر میں خریدا گیا۔

واضح رہے یہاں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ رقم کا ایک بڑا حصہ پرنس کریم آغا خان نے ادا کیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس سودے کے وقت نواب اکبر خان بگٹی وزیر مملکت امور دفاع تھے اور بلو چستان سے تعلق تھا یوں اِن کا کردار بھی اہم تھا 1863 سے1879 تک گوادر میں ہندوستان کے گورنر جنرل کااسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ تعینات ہوا کرتا تھا اور ٹیلی گراف آفس قائم تھا، گوادر کی خرید کے موقع پر اومان کے سلطان نے خریداری کے معاہدے میں دو اہم نکات رکھے تھے، پہلا یہ کہ بلوچستان کے علاقے سے مسقط ،اومان کے لیے فوجیوں کی بھرتی جاری رہے گی یہی وجہ ہے کہ اومانی فوج میں بلوچوں کی تعداد بہت زیادہ ہے ، دوسرے گوادر کے وسائل کو ترقی دی جائے گی ۔

گوادر کے مقامی افراد کی دو شہریتیں ہیں ان کے پاس پاکستانی شہر یت بھی ہے اور مسقط اومان کی شہریت بھی ہے۔  گوادر کی خریداری کے بعد اومان کی آبادی4424760 ہے اور رقبہ 309500 مربع کلو میٹر ہے۔  اگرچہ گوادر کی فروخت سے سلطنت اومان کا رقبہ کم ہوا مگر نہ صرف آبادی بڑھی ہے بلکہ اس آبادی کا بہت بڑا حصہ گوادر اور مکران کے بلوچوں کا ہے۔

گوادر کی خریداری کے تقریباً ایک مہینے بعد صدر جنرل ایوب خان اقتدار میں آئے، یہ اکتوبر1958 تھا جب جمہوریت رخصت ہو گئی۔ اس زمانے میں ایران میں شہنشاہ رضا شاہ پہلوی کی حکومت اور افغانستان میں ظاہر شاہ بادشاہ تھے۔ البتہ سرد جنگ عروج پر تھی اور پاکستان امریکہ اور برطانیہ کا قریبی ساتھی اور اتحادی تھا جبکہ بھارت کی دوستی کیمو نسٹ چین اور سوویت یونین سے تھی۔ اب جہاں تک گوادر کا تعلق ہے تو اس کا تحقیقی بنیادوں پر سروے گوادر کی خریداری سے پہلے امریکہ نے کیا تھا،گوادر پر اگر اُس وقت بندر گاہ تعمیر کردی جاتی تو کراچی کی آبادی آج ڈھائی کروڑ نہ ہوتی اور اسی وقت سے پاکستان کو ایک متبادل بندرگاہ کی سہولت حاصل ہو جاتی لیکن شائد اُس وقت تک افغا نستان کی بفر زون اسٹیٹ کی حیثیت کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی تمام ویٹو پاور قوتیں تسلیم کرتی تھیں۔

1801ء میں جب روس کے بادشاہ زار پال نے نپولین سے گوادر کی بندر گاہ کے لیے رابطہ کیا تھا تو ہندوستان کے تمام علاقوں پر اگرچہ برطانیہ کی حکومت نہیں تھی مگر برطانیہ دنیا کی سب سے بڑی بحری قوت تھا اور نہ صرف ہندوستان میں وہ واحد نوآبایاتی قوت بن چکا تھا بلکہ دو بڑی نوآبادیاتی قوتوں پرتگال اور فرانس کو کئی محاذوں پر شکست دے چکا تھا، مگریہ بھی حقیقت ہے کہ1801 کے بعد نئی اور انیسویں صدی جہاں اُس کی نوآبادیات کی وسعت کے ساتھ شروع ہوئی تھی وہاں اس صدی کے آخر سے اس کی نوآبادیات میں کبھی نہ ڈوبنے والا سورج دنیا کو اس نوآبادیاتی نظام کی وجہ سے تاریخ کی بڑی تباہیوں و بربادیوں کی نوید دے رہا تھا۔

روس ساحل بلو چستان کے گرم پانیوں تک آنا چاہتا تھا اور برطانیہ اپنی سونے کی چڑیا کی حفا ظت کے لیے منصوبہ بندی کر رہا تھا۔ انگر یز کو تاریخ نے بتا دیا تھا کہ برصغیر میں زیادہ تر حملے سنٹرل ایشیا اور افغانستان سے آنے والے حملہ آوروں نے کئے اور ہندوستان کے مقامی حکمرانوں نے ان حملہ آوروں کو روکنے کی کو شش اپنے ملک کے میدانی علاقے پنجا ب کے پانی پت کے میدان میں کی اور عموماً ناکام رہے۔ 1839 کی پہلی اینگلو افغان جنگ میں انگریز نے یہ کوشش کی کہ وہ خود افغانستان کو فتح کر کے وہاں اپنی پہلی دفاعی لائن قائم کرے، یوں انگریز نے اُس وقت پنجاب کے حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فوجی مدد سے افغانستان کو فتح کر لیا۔

رنجیت سنگھ نے انگریزوں کی خاطر طورخم سے افغانستان پر حملہ تو کیا تھا مگر 22000 برطانو  ی انڈین فوج کو پنجاب سے گزرنے کی انگریزوں کی درخواست کو اپنی اسی فوجی مدد سے ٹال گیا تھا، اس لیے انگریزوں نے کراچی میں اپنی فوجوں کو ترتیب دینے کے بعد بلوچستان درہ بولان وادیِ کوئٹہ سے ہوتے ہوئے افغانستان پر حملہ کیا اور افغانستان سے فارغ ہوتے ہی بلو چستان پر قبضہ کرلیا۔ رنجیت سنگھ کی فوجیں کابل کو انگریز کے حوالے کرنے کے بعد واپس ہو گئیں تو انگریز نے بھی چار سال بعد یہی کیا کہ بارہ ہزارفوج کوکابل میں چھوڑ کر باقی فوج کو واپس ہندوستان لے آیا اور پھر 1842 کے موسم سرما میں افغانیوں نے اس فوج کا مکمل خاتمہ کردیا اور صرف ایک انگریز ڈاکٹر برائیڈن کو زندہ چھوڑا تاکہ وہ بتا سکے کہ انگریزوں کی فوج کے ساتھ کیا سلوک ہوا۔

اس کے ساتھ ہی روس جو پہلے واجبی طور پر سنٹرل ایشیا کی مسلم ریا ستوں پر حق حاکمیت رکھتا تھا اس نے تاجکستان، ازبکستان، کرغیزستان، قازقستان، ترکمنستان، آزر بائیجان وغیرہ پر اپنی گرفت مضبوط کر لی اور افغانستان ازخود بلوچستان اور سنٹرل ایشیا کے درمیان بفراسٹیٹ بن گیا۔ 1878ء تک انگریز پنجاب بلوچستان سمیت پورے برصغیر پر اپنی حکومت مستحکم کر چکا تھا بلکہ 1857ء کی  جنگ آزادی کے بعد سے یہاں ایسٹ انڈیا کمپنی کی بجائے براہ راست تاجِ برطانیہ کی حکومت تھی، ریلوے لائنیںبچھائی گئیں تھیں، دفاع اور فوجی سپلائی کا موثر نظام ترتیب دیا جا چکا تھا اور 1878 میں تو کوئٹہ کا شہر بھی تعمیر کر کے یہاں بہت بڑی فوجی چھاؤنی بنادی گئی تھی۔ جب 1878ء میں دوسری برطانوی افغان جنگ ہوئی۔

اس جنگ میں برطانیہ نے یہاں اپنی حمایتی حکومت قائم کرکے افغان بادشاہت اور حکومت کو داخلی طور پر خود مختاری دی مگر ایک بڑی رقم سبسڈی کے طور پر دے کر امور خارجہ اور دفاع کو اپنے پاس رکھا، یوں اگرچہ افغان حکومت انگریزوں کی برتری کو قبول کر بیٹھی تھی مگر افغانستان میں برطانوی فوج نہیں تھی۔ یوں اُس وقت بھی افغانستان کی حیثیت بفر اسٹیٹ ہی کی تھی باوجود اس کے کہ ترکوں اور ہندوستان کے مسلمانوں کا بہت دباؤ رہا مگر پہلی جنگ عظیم میں افغانستان بالکل غیر جانبدار رہا اس جنگ سے ایک سال قبل روس میں لینن اور اسٹالن کمیو نسٹ انقلاب لے آئے اور جنگ سے باہر نکل آئے تو اِسی وقت امریکہ بھی ترکوں اور جرمنی کے خلا ف اتحادیوں میںشامل ہو گیا۔ 1914 سے جاری جنگ عظیم اول 1918 میں ختم ہو گئی تو 1919 میں جب افغانستان میں غازی امان اللہ خان باشاہ تھے تو امرتسر میں جلیانوالہ باغ کا خونی واقعہ پیش آیا اور اس کے چند دن بعد تیسری اینگلو افغان جنگ ہوئی جس میں انگریزوں  نے کابل پر بمباری بھی کی۔

اِس جنگ میں جزوی طور پر افغانستان کو فتح ہوئی اور اس کے بعد افغانستان کے بادشاہ غا زی امان اللہ نے انگریز وں کی سبسڈی کو مسترد کر کے افغانستان کی دفاعی اور خارجی پالیسیو ں کو آزاد کر وا لیا، اور افغانستان مختصر عرصے کے لیے سہی مگر مکمل غیرجانبدار،آزاد اور بفر اسٹیٹ رہا مگر یہ مدت بہت ہی کم رہی اور انگر یزوں نے سازش کے ذریعے غازی امان اللہ خان کو اقتدار سے بے دخل کروا کر دوبارہ افغانستان میں اپنا اثر ورسوخ قائم کر لیا اس کی ایک بڑی وجہ سوویت یونین میں اشتراکی اور لادینی حکومت کا قیام بھی تھا۔

قیام پاکستان کے بعد اگرچہ بادشاہ ظاہر شاہ نے کافی حد تک افغانستان کی خارجہ پالیسی کو متوازن رکھا مگر پاکستان کو تسلیم کرنے کے باوجود پاکستان سے اُن کے تنازعات رہے۔ یہ بھی اطلاعات تھیں کہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی سازش میں افغانستان ملوث تھا اور اُن کا قاتل سید اکبر افغانستان سے آیا تھا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ تینوں پاک بھارت جنگوں میں افغانستان نے بھارت کا ساتھ نہیں دیا۔

یوں ایک جانب عالمی معاملات میں افغانستان کبھی امریکہ کے ساتھ ہوتا اور کبھی روس کے ساتھ لیکن افغانستان کی سرزمین کے استعمال کے حوالے سے افغانستان دونوں طاقتوںکی منشا کے مطابق غیر جانبدار ہی رہا۔ یوں تیسری برطانوی افغان جنگ 1919ء کے بعد برطانیہ یا امریکہ نے بھی کبھی افغانستان کی سر زمین پر فوجیں اتارنے کی کوشش نہیں کی۔

افغانستان میں وزیراعظم سردار محمد داؤد نے جولائی 1973ء میں شاہ ظاہر شاہ کا تختہ الٹ دیا جنہوں نے اقتدار میں بطور صدر آتے ہی پختونستان کا پروپیگنڈا زیادہ شدت سے شروع کیا، جون 1976ء میں وزیر اعظم بھٹو نے افغانستان کا دورہ کیا اور جواباً صدر داؤد نے اگست 1976ء میں پاکستان کا دورہ کیا اس کے فوراً بعد پاکستا ن، ایران اور افغانستان میں بہت اہم اور تاریخی تبدیلیاں سامنے آئیں۔ 1977 میں مارشل لاء کے ساتھ بھٹو حکومت کا خاتمہ ہو گیا، 1979 میں ایران میں انقلاب آ گیا اور امریکن پویس مین شہنشاہ ایران رخصت ہو گئے، اور پھر اسی سال 1979ء میں افغانستان میں روسی فوجیںداخل ہو گئیں۔

1941 کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ روسی فوجیں کسی ملک میں داخل ہوئیں تھیں، اس کے بعد افغانستان میں خونی واقعات شروع ہو گئے اور افغان صدور نور محمد تراکئی، حفیظ اللہ امین اورببرک کارمل قتل ہوئے، 14 اپریل 1988 کو جنیوا میں چار طاقتی معاہدہ ہوا۔ افغانستان، پاکستان، روس اور امریکہ کے وزارء  نے دستخط کئے اور روسی فوجوں کی واپسی شروع ہو ئی۔ 1990 میں سرد جنگ کے خاتمے کا اعلان ہوا دیوار برلن ٹوٹ گئی۔ سوویت یونین بکھر گئی اور وارسا معاہدہ گروپ کے ممالک سے بھی اشتراکیت رخصت ہو گئی۔  امریکہ اور یورپی ممالک نے سوویت یونین کو افغانستان کے راستے گوادر تک پہنچنے کی یہ سزا دی ، لیکن اس کے بعد بھی افغانستان میں امن سکون نہیں آیا کہ اس ملک کی حیثیت  بفر اسٹیٹ کی نہیں رہی ہے، مگر اس دوران چین نے زیادہ تیز رفتاری سے اقتصادی، معاشی ترقی کی۔ نائن الیون گیارہ ستمبر 2001 کے واقعہ کے بعد جہاں امریکہ اور نیٹو ممالک نے افغانستان میں فوجیں پہنچا دیں۔

پاکستان میں اس سانحہ کے ایک سال بعد ہی گوادر ڈیپ سی منصوبے پر چین کے تعاون سے 20 مارچ 2002 میں کا م شروع ہوا، 2002 سے2007 تک 653 کلومیٹر کراچی تک کوسٹل ہائی وے تعمیر ہوئی، 820 کلومیٹر موٹروے براستہ گوادر،تربت ہوشاب ،آواران،خضدار، رتو ڈیرو تعمیر ہوئی ، 2003 میں گوادر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی قائم کی گئی جس نے 2007 سے آئندہ طویل مدت کی تعمیرات کا پروگرام بنایا ہے۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی نے 4300 ایکڑ یعنی 17 مربع کلومیٹر گرین کورڈ ایریا لیا ہے، جہاںسات ارب پچاس کروڑ روپے کی لا گت سے 6000 ایکڑ رقبے پر عالمی معیار کا ایک بڑا ائیرپورٹ تعمیر کیا جائے گا۔ اس وقت روس تو نہیں البتہ چین گوادر ڈیپ سی پورٹ پہنچ گیا ہے۔

1958 میں گوادر کی خریداری سے آج 2018 تک اب 60 سال ہو چکے ہیں، ڈیپ سی فعال لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہاں دنیا کی طاقیتں 219 سال اپنے مفادات کے لیے فکر مند رہی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا کوئی ایسی حکمت عملی ہو سکتی ہے کہ جس کے تحت بلوچستان کے عوام کو اس کا حقیقی فائد ہ حاصل ہو بلکہ دنیا کی بڑی قوتیں باہمی مفادات کے تحت سب کے فائدے کی سوچیں اور پنجہ آزمائی کی بجائے مصافحے کی کوئی مستقل صورت نکالیں۔

واضح رہے کہ گوا بلوچی کے دو الفاظ سے بنی ترکیب ہے،گوادر کے معنی ہوا کے ہیں اور، در،دروازے کو کہتے ہیں یہاں ساحل پر ہوا اکثر مقامات پر بہت تیزچلتی ہے اور ساحل پر جہاں جہاں پہاڑیاں ہیں ان کو مسلسل اور تیز چلنے والی ہوا نے کاٹ کر عجیب عجیب شکلیں دے دی ہیں جن میں سے ایک کو ’’پرنسس آف ہوپ‘‘ یعنی امید کی شہزادی کہا جاتا ہے۔ ہوا کی رگڑ نے پہاڑی ٹیلے کو تراش تراش کرایک خاتون کے مجسّمے میں تبدیل کرد یا ہے جس کا چہرہ سمندر کی جانب ہے۔ یہ بلوچستان جیسے پسماندہ اور غریب مگر وسائل سے مالا مال صوبے کے عوام کی امیدوں، تمناؤں اور آرزوں کی عکاس امید کی شہزادی صدیوں سے کھڑی امن، خوشحالی اور ترقی کی منتظر ہے جو یہاں رہنے والوں کی آنکھوں کو ٹھنڈک اور اطمینان بخش دے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔