سچے احتساب میں پاکستان کی بقا ہے

میاں عمران احمد  منگل 20 نومبر 2018
چوروں اور لٹیروں کو جیلوں میں ڈالے بغیر اور چین کی طرز پر کرپٹ لوگوں کو پھانسی دیئے بغیر پاکستان آگے نہیں بڑھ سکتا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

چوروں اور لٹیروں کو جیلوں میں ڈالے بغیر اور چین کی طرز پر کرپٹ لوگوں کو پھانسی دیئے بغیر پاکستان آگے نہیں بڑھ سکتا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

آئیے پہلے تصویر کا ایک رخ دیکھتے ہیں:

احتساب کا نعرہ جوان بھی ہے، دلکش بھی ہے اور پرکشش بھی۔ یہ نعرہ بچے پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ بچے حرام ہیں یا حلال، اس کا پتا فی الحال نہیں چل رہا کیونکہ ان بچوں کی ڈی این اے رپورٹ چار سال بعد آئے گی۔ لیکن آج کل کرپشن کی جو کہانیاں سامنے آ رہی ہیں، پہلے تو انہیں سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ مگر جیسے ہی کچھ وقت گزرتا ہے تو کہانی دلچسپ نہیں رہتی کیونکہ جو انکشافات سامنے آتے ہیں، تحقیقاتی اداروں کے پاس اس کی سپورٹ میں مطلوبہ ثبوت موجود نہیں ہوتے۔ آپ شہباز شریف کا معاملہ ہی لے لیجیے۔

شہباز شریف صاحب کے خلاف صاف پانی کی تحقیقات چل رہی تھیں۔ بتایا جارہا تھا کہ آج گرفتار ہوئے یا کل۔ لیکن ابھی تک شہباز شریف پر جرم ثابت نہیں کرسکے۔ صاف پانی کی تحقیقات میں شہباز شریف کو بلایا اور آشیانہ کیس میں گرفتار کرلیا۔ آشیانہ کیس میں متعدد بار عدالت سے ریمانڈ حاصل کیا۔ 10 نومبر کو ایک مرتبہ ریمانڈ حاصل کرنے عدالت پہنچے تو نیب وکیل نے وہی پرانی کہانی سنانی شروع کردی کہ احد چیمہ نے آشیانہ کی فیزیبلیبٹی رپورٹ خود بنائی ہے۔ جج صاحب نے تنگ آ کر کہا کہ وکیل صاحب اس سے آگے بھی چلیے، آپ پچھلی کئی پیشیوں سے یہی کہانی سنا رہے ہیں۔

نیب وکیل کے پاس جب کہنے کو کچھ نہ بچا تو نیا انکشاف کر دیا کہ ہم نے انہیں ایک اور نئے کیس میں گرفتار کرلیا ہے۔ جج صاحب نے پوچھا کونسا کیس؟ تو وکیل نے کہا کہ رمضان شوگر مل والے کیس میں گرفتار کیا ہے۔ ہمیں اب اس کیس کا ریمانڈ چاہیے۔ جج صاحب نے ریمانڈ دے دیا لیکن یہ نہیں پوچھا کہ جس کیس میں پہلے گرفتار کیا تھا اس میں کوئی پیش رفت کیوں نہیں ہوئی؟ کیا ملزم اس میں بے قصور ہے؟ یا آپ نااہل ہیں کہ کرپشن کا پتا ہوتے بھی کرپشن کے ثبوت حاصل کرنے میں ناکام ہیں۔

وکیل نے انکشاف کیا کہ رمضان شوگر مل سے ملحق نالہ شہباز شریف نےسرکاری پیسوں سے بنوایا ہے جس کا خرچ اکیس کروڑ روپے سے زیادہ ہے اور اس میں صرف رمضان شوگر مل کا فضلہ جاتا ہے۔ بظاہر اس انکشاف کے بعد بھی کلیجہ منہ میں آگیا ہے؛ لیکن کب اس میں سے ہوا نکلتی ہے؟ معلوم نہیں۔

اگر نیب رمضان شوگر مل میں سے بھی کچھ نہ نکال سکی اور کوئی چوتھا کیس لے آئی گرفتاری کے لیے تو حکومت اور اپوزیشن کو نیب کی کارکردگی کا جائزہ لینا چاہیے۔

آئیے تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھتے ہیں:

میری تحریر کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ شہباز شریف اور نواز شریف بے گناہ ہیں، یا ان کا جو احتساب ہو رہا ہے وہ غلط ہورہا ہے۔ احتساب کا جو یہ سلسلہ شروع ہوا ہے اسے منطقی انجام تک پہنچانے میں ہی ملک پاکستان کی بقا ہے۔ اگر نواز شریف اپنی اربوں روپے کی جائیدادوں کی منی ٹریل نہیں دے سکتے تو ان کو سزا دینے میں ہی ملک کی بقا ہے۔ اگر شہباز شریف نے اپنی اتھارٹی کا غلط استعمال کیا ہے یا ملکی خزانے کو نقصان پہنچایا ہے تو انہیں سزا دے کر ہی کرپشن کا راستہ روکا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر نیب گرفتار کرنے کے بعد ملزمان کے خلاف ثبوت دینے میں ناکام ہو رہی ہے تو اس کی وجہ تلاش کرنا بہت ضروری ہے۔ کیا نیب کے پاس کرپشن کی تحقیقات کرنے کےلیے قابل افسران موجود نہیں؟ یا نیب کے اندر ہی مجرموں کو سپورٹ کرنے والے عناصر موجود ہیں؟ جو گرفتاری کرنے کے بعد تحقیقات میں کوئی نتائج نہیں دیتے جس کا فائدہ ملزمان کو ہورہا ہے۔

ہمیں یہاں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ چیرمین نیب سے لے کر ڈی جی، آئی او اور نائب قاصد تک ن لیگ کی حکومت میں بھرتی کیے گئے تھے۔اس کے علاوہ جو وکیل نیب پیش کرتی ہے، ان کی تنخواہیں ملزمان کے وکلا کی فیس کا دس فیصد بھی نہیں ہوتیں۔ دونوں وکیل کس طرح برابر ہوسکتے ہیں؟ وہ کس طرح ملزمان کے وکیل کے سامنے کھڑا ہو سکتا ہے جب وہ ذہنی طور پر یہ تسلیم کر چکا ہوتا ہے کہ ملزم کے وکیل اس سے بہتر ہیں۔ کیا نیب کو بڑے کرپشن کیسز کے دفاع کےلیے ملک پاکستان کے چوٹی کے وکیل نہیں کرنے چاہئیں؟

کیا نیب کو کمزور کرنے کےلیے بین الاقوامی طاقتیں سر گرم ہیں؟ کیا پاکستان میں احتساب کے مشن کو نقصان پہنچانے کےلیے سازشیں کی جا رہی ہے؟ کیا میڈیا کو نیب کو متنازعہ بنانے کا ٹاسک سونپا گیا ہے؟ کیا ڈی جی نیب کو میڈیا میں جا کر اپنا دفاع کرنا چاہیے تھا؟ کیا میڈیا میں جا کر کیس کی باریکیوں اور تفصیلات پر بات کی جانی چاہیے تھی؟ اگردفاع کرنا مقصود تھا تو کیا اس کام کےلیے نیب کے کسی پی آر او کو بھیجا جانا چاہیے تھا یا ڈی جی نیب لاہور کو میڈیا میں خود جانا چاہیے تھا؟ جن عہدیداروں نے انہیں میڈیا میں بھیجنے کا فیصلہ کیا، اس فیصلے کے پیچھے ان کی نیب کو بدنام کروانے اور ملزمان کے کیس کو مضبوط کرنے کی کوئی اسٹریٹجی تو نہیں تھی؟

یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات حاصل کیے بغیر نیب کی اصلاح نہیں کی جاسکتی اور کرپٹ عناصر کو کیفرکردار تک نہیں پہنچایا جاسکتا۔ یہ سوالات صرف سوالات نہیں بلکہ چارج شیٹ ہیں۔ اہل اقتدار کو نیب کے متعلق کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے ان حقائق کو مدنظر رکھنا چاہیے تاکہ ایسا فیصلہ کیا جا سکے جس سے احتساب کا نظام مضبوط ہو اور اس ملک کو لوٹنے والوں کے گرد گھیرا تنگ ہو سکے۔ کیونکہ چوروں اور لٹیروں کو جیلوں میں ڈالے بغیر اور چائنا طرز پر کرپٹ لوگوں کو پھانسی دیئے بغیر پاکستان آگے نہیں بڑھ سکتا، کیونکہ سچے احتساب میں ہی پاکستان کی بقا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

میاں عمران احمد

میاں عمران احمد

بلاگر نے آکسفورڈ بروکس یونیورسٹی لندن سے گریجویشن کر رکھا ہے۔ پیشے کے اعتبار سے کالمنسٹ ہیں، جبکہ ورلڈ کالمنسٹ کلب اور پاکستان فیڈریشن آف کالمنسٹ کے ممبر بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔