شاعر اسلام ۔ خیال آفاقی کی بے مثال تصنیف

عثمان دموہی  اتوار 18 نومبر 2018
usmandamohi@yahoo.com

[email protected]

کلام اقبال ایک ایسا جادو ہے جو پوری دنیا میں سر چڑھ کر بول رہا ہے ۔اردو زبان کے کئی ماہر، اقبالیات کے بھی ماہر ہیں مگر غیر زبانوں کے لوگوں کا کلام اقبال کا ماہر ہونا اور اس پر تحقیق کرنا ایسا کارنامہ ہے، جو برصغیر کے کسی دوسرے شاعر کے حصے میں نہیں آیا گو کہ انگریزوں نے مصلحتاً نوبل انعام کے لیے رابندر ناتھ ٹیگورکو نامزد کردیا تھا مگر اصل حقدار تو اقبال ہی تھے۔ اقبال کو یہ انعام کیسے دیا جاتا کیونکہ وہ تو اسلام کے شیدائی تھے اور ان کا پورا کلام ہی اسلام کے گرد گھومتا ہے۔

ممتاز برطانوی نقاد سرہربرٹ ایڈ نے1921 میں کہا تھا ’’آج جب کہ ہمارے مقامی شاعر اپنے بے تکلف احباب کے حلقوں میں کیٹس کے تبتع میں کتے بلیوں اور دیگر گھریلو موضوعات پر طبع آزمائی کر رہے تو ایسے میں لاہور میں ایک ایسی نظم تخلیق کی گئی ہے جس کے بارے میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ اس نے مسلمان نئی نسل میں طوفان برپا کردیا ہے۔‘‘

یہ حقیقت ہے کہ اقبال کی شاعری انقلابی شاعری تھی ، جس نے گزشتہ صدی میں سامراجی طاقتوں کے جبر سے سوئی ہوئی محکوم اقوام کو جگانے کا کام بخیروخوبی انجام دیا ۔ ایران کے معروف ادیب سید غلام رضا سعیدی ملت ایران کی طرف سے علامہ اقبالؒ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ’’ اگر برطانوی قوم کو شیکسپیئر، فرانس کو وکٹر ہیوگو اور جرمنی کو گوئٹے پر ناز ہے تو اقبال کی ذات ملت اسلامیہ کے لیے بالعموم اور ایران و پاکستان کے لیے بالخصوص باعث افتخار ہے۔‘‘

علامہ اقبال پر حال ہی میں ایک معرکۃ الآرا کتاب منظر عام پر آئی ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔ اس کے مصنف پروفیسر خیال آفاقی کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔ خیال آفاقی نے اقبال کو شاعر مشرق کے بجائے شاعر اسلام قرار دیا ہے۔ اس سلسلے میں وہ رقمطراز ہیں کہ کئی سال پہلے کی بات ہے کہ کراچی میں خانہ فرہنگ میں یوم اقبال کے موقعے پر میں نے علامہ اقبال کو منظوم خراج عقیدت پیش کیا تھا۔ نظم کا ایک مصرعہ تھا ’’شاعر مشرق نہیں تو شاعر اسلام ہے‘‘ محفل کے اختتام پر ایک علم دوست نے فرمایا ’’ شاعر اسلام کہہ کر آپ نے اقبال کو محدود نہیں کردیا؟ علامہ تو ایک آفاقی شاعر ہیں۔‘‘

میں نے ان سے عرض کیا۔ ’’کیا آپ اسلام کو آفاقی دین نہیں سمجھتے؟اورکیا آپ اس حقیقت سے انکارکی جرأت کرسکتے ہیں کہ پیغمبر اسلام پوری عالم انسانیت کے محسن اعظم ہیں، مجھے امید ہے کہ آپ کا جواب اثبات میں ہوگا۔ یقینا جب ان دونوں حقیقتوں سے انکار ممکن نہیں تو پھر آپ کو اپنے اعتراض سے رجوع کرنے میں بھی کوئی تامل نہیں ہونا چاہیے۔ البتہ اس ضمن میں اعتراض کی گنجائش اگر نکل سکتی ہے تو یہ کہ اقبال کر براعظموں میں کیوں بانٹ دیا گیا ہے جب کہ وہ خود فرماتے ہیں ’’درویش خوا مست نہ شرقی ہے نہ غربی‘‘ ہاں البتہ یہ بجا ہے کہ ایک جگہ علامہ نے خود اپنے بارے میں ’’شاعر مشرق‘‘ ہونے کا اشارہ فرمایا ہے ’’آداب جنوں شاعر مشرق کو سکھادو‘‘ تو یہ محض مکاتیب کی طرف اشارہ ہے جس سے ان کا پیدائشی اور جسمانی تعلق ہے اور اس سے مقصود اہل مغرب اور اہل مشرق کے درمیان جغرافیائی امتیاز ظاہرکرنا تھا۔

جیساکہ انھوں نے مغرب کے مشہور شاعر اور ڈرامہ نویس گوئٹے کے ’’دیوان مغرب‘‘ کے جواب میں اپنی تخلیق کا عنوان ’’پیام مشرق‘‘ رکھا اور اس کی وجہ تالیف کیا ہوئی؟ اس کی بھی ایک جھلک ’’پیام مشرق‘‘ کے مقدمے میں نظر آتی ہے۔ آپ فرماتے ہیں ’’اس کا مدعا زیادہ تراخلاقی، مذہبی اور ملی حقائق کو پیش نظر لانا ہے جس کا تعلق افراد اور اقوام کی باطنی تربیت سے ہے۔

اس سے سو سال پیشتر جرمنی اور مشرق کی موجودہ حالت میں کچھ نہ کچھ مماثلت ضرور تھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ اقوام عالم کا باطنی اضطراب جس کی اہمیت کا صحیح اندازہ ہم اس لیے نہیں کرسکتے کہ خود اس اضطراب سے متاثر ہیں جو ایک بہت بڑے روحانی اور تمدنی انقلاب کا پیش خیمہ ہے‘‘ مزید لکھتے ہیں ’’مشرق اور بالخصوص اسلامی مشرق نے صدیوں کی مسلسل نیند کے بعد آنکھ کھولی ہے مگر اقوام مشرق کو یہ احساس کرلینا چاہیے کہ زندگی اپنے حوالے میں کسی قسم کا انقلاب پیدا نہیں کرسکتی جبتک کہ پہلے اس کی اندرونی گہرائیوں میں انقلاب نہ ہو اور کوئی نئی دنیا خارجی وجود اختیار نہیں کرسکتی جب تک کہ اس کا وجود پہلے انسانوں کے ضمیر میں متشکل نہ ہو ’’اس مصرعہ‘‘ آداب جنوں شاعر مشرق کو سکھادو سے یہ تاثر لینا صحیح نہیں ہے کہ اقبال شاعر مشرق کی حیثیت سے خود کو کسی ایک براعظم تک محدود رکھنا چاہتے ہیں۔

یہ انداز بیاں دراصل مغرب سے ممتاز کرنے کے لیے اختیارکیا گیا ہے جو مکانی نسبت کا اظہار ہے نہ اس سے یہ احتمال پیدا ہوتا ہے کہ اقبال اپنی فکر کو جغرافیائی حدود میں مقید رکھنا چاہتے ہیں۔ آپ جغرافیائی حدود سے بہت آگے ہیں۔فرماتے ہیں ۔

قدرت نے مجھے بخشے ہیں جوہر ملکوتی

خاکی ہوں مگر خاک سے رکھتا نہیں پیوند

……

درویش خواست نہ شرقی ہے نہ غربی

گھر میرا نہ دلی نہ صفہاں نہ سمر قند

اس استدلال کی روشنی میں علامہ کو مشرق و مغرب میں کیونکر محدود کیا جاسکتا ہے پھر ان کے کلام کا تمام تر سر چشمہ قرآن ہے اور قرآن کا موضوع انسان ہے۔ چنانچہ اقبال کو شاعر مشرق نہیں شاعر اسلام ہی کہاجاسکتا ہے۔ خیال آفاقی علامہ کے بارے میں ایک اور اہم نکتہ اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ اقبال کے بہت سے عقیدت مند اور چاہنے والوں میں اس ادراک کا فقدان پایاجاتا ہے کہ اقبال حقیقت میں ہیں کیا؟

بعض اقبال شناس حضرات نے اقبال کی شخصیت کو اس طرح مختلف گوشوں میں تقسیم کردیا ہے کہ اقبال کا فکر و فن اور شخصیت عام قاری کے لیے ’’پزل گیم‘‘ بن کر رہ گئی ہے گویا ان حضرات نے اپنی ذمے داری نبھاکر یہ سمجھ لیا ہے کہ انھوں نے جو کرنا تھا وہ کرلیا ہے۔اب اقبال کے پرستاروں کا کام ہے کہ وہ ان ٹکڑوں کو جوڑ کرکس طرح کی تصویر مکمل کرتے ہیں۔ نتیجتاً دیکھا جاتا ہے کہ عام پڑھے لکھے حضرات بھی خصوصاً طلبا کی اکثریت اقبال کی شخصیت کے خد وخال واضح طور پر اپنے ذہنوں میں نہیں رکھتے اور نہ وہ ان کے پیغام کی اصل روح سے واقف ہے کہ آخر اقبال اپنی قوم بالخصوص نوجوانوں سے کیا تقاضا کرتے ہیں؟

اس صورتحال کو دیکھ کر ہمیں یہ کہنے میں کوئی باق نہیں کہ اقبالیات پر بے تحاشا لکھنے والوں میں سے اکثر نے موٹی موٹی کتابوں کا ایک انبار تو ضرور لگادیا ہے مگر اتنی تعداد میں وہ ان کے قاری پیدا نہ کرسکے گوکہ انھوں نے نہایت محنت شاقہ اور عرق ریزی سے اقبال کے فکر وفن کو یکجا کردیا ہے اپنے اپنے طریقے سے ان کی تصریح اور تشریح اور ان کے پیغام کی تفہیم میں بھی عالمانہ اور فاضلانہ کوششیں کی ہیں لیکن ان کا یہ بڑا کام صرف بڑوں کے لیے ہی مخصوص ہوکر رہ گیا ہے۔ بعض لوگ اقبال پر مزید تحقیق اس بنا پر کر رہے ہیں تاکہ پی ایچ ڈی کی ڈگری لے کر ڈاکٹرکہلائے جانے کا شوق پورا کرسکیں ۔

اس صورتحال میں ایک عام شخص کوکہاں موقع مل سکتا ہے کہ وہ اپنے قومی شاعر اور پاکستان کا خواب دیکھنے والے اقبال کو ان دو ناموں سے زیادہ جان سکے۔ خیال آفاقی کا ’’شاعر اسلام‘‘ کی تالیف کا بس یہی مقصد ہے کہ اقبال کے پیغام اور ان کی شخصیت کو عام لوگوں میں متعارف کرایا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب اقبال شناسی پر اب تک منظر عام پر آنیوالی تمام کتابوں سے منفرد ہے جس کا اقبال سے محبت کرنیوالوں کو ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔